Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 71
وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ
وَلَوِ : اور اگر اتَّبَعَ : پیروی کرتا الْحَقُّ : حق (اللہ) اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات لَفَسَدَتِ : البتہ درہم برہم ہوجاتا السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان کے درمیان بَلْ : بلکہ اَتَيْنٰهُمْ : ہم لائے ہیں ان کے پاس بِذِكْرِهِمْ : ان کی نصیحت فَهُمْ : پھر وہ عَنْ ذِكْرِهِمْ : اپنی نصیحت سے مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرنے والے ہیں
اور خدائے (برحق) ان کی خواہشوں پر چلے تو آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں سب درہم برہم ہوجائیں۔ بلکہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت (کی کتاب) پہنچا دی ہے اور وہ اپنی (کتاب) نصیحت سے منہ پھیر رہے ہیں
ولو اتبع الحق اہوآء ہم لفسدت السموت والارض ومن فیہن اور (بفرض محال) اگر (دین) حق ان کے خیالات کے تابع ہوجاتا ہے تو تمام آسمان و زمین اور جو ان میں آباد ہیں سب تباہ ہوجاتے۔ اگر حق ان کے خیالات کے تابع ہوجاتا ‘ یعنی ان کی خواہش کے مطابق چند معبود واقع میں ہوتے تو سارا جہان تباہ ہوجاتا یعنی موجود ہی نہ ہو پاتا عدم سے وجود میں ہی نہ آتا یہی مطلب ہے آیت لَوْ کَانَ فِیْہِمَا اٰلِہَۃٌ الاَّ اللّٰہُ لَفَسَدَتَا (الحج) کا۔ ابن جریج ‘ مقاتل ‘ سدی اور اہل حق کی ایک جماعت کے نزدیک الحق سے مراد اللہ ہے فراء اور زجاج کے نزدیک الحق سے قرآن مراد ہے یعنی اللہ اگر ان کی مراد کی موافقت کرتا اور دوسروں کو اپنا شریک بنا لیتا یا اپنے لئے اولاد اختیار کرلیتا اور قرآن کو ان کی خواہشات کے مطابق نازل فرما دیتا اور قرآن شرک و معاصی کی تعلیم دیتا تو اللہ ‘ اللہ ہی نہ رہتا ‘ الوہیت کے لئے شرکت ناقابل برداشت ہے ‘ اللہ بےہودہ باتوں کا حکم نہیں دیتا۔ بیہودہ فحش باتوں کا حکم ‘ سخت عیب اور برائی ہے اور الوہیت چاہتی ہے کہ اللہ کی ذات ہر عیب اور خرابی سے پاک ہو اور جب اللہ اللہ نہ رہتا تو ممکنات کا وجود کہاں سے آتا۔ بعض اہل علم نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اگر حق ان کی خواہشات کا تابع ہوتا اور باطل ہوجاتا تو پھر وہ چیز (حق و عدل) ہی باقی نہ رہتی جس پر قوام عالم موقوف ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو دین حق رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں اگر وہ کافروں کی خواہشات کا تابع ہوجاتا اور توحید کی جگہ شرک لے لیتا تو اللہ ان کافروں پر عذاب نازل کردیتا اور سارا عالم اللہ کی آتش غضب سے جل بھن جاتا۔ بل اتینہم بذکرہم فہم عن ذکر ہم معرضون۔ بلکہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت کی بات کھیجی سو یہ لوگ اپنی نصیحت کی بات سے بھی روگردانی کرتے ہیں۔ ذِکْرِہِمْیعنی ایسی کتاب جو ان کو اللہ کی یاد دلاتی ہے یا نصیحت و یادداشت۔ یا وہ ذکر جس کی انہوں نے اپنے اس قول میں تمنا کی تھی لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِکْرًا مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ لِکُنَّا عِبَاد اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ذِکْرُہُمْسے مراد ہے وہ کتاب جس میں ان کی بزرگی اور شرف کا بیان ہے یعنی قرآن مجید۔ اس مضمون کی دوسری آیت آئی ہے ‘ فرمایا ہے لَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ کِتَابًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْیعنی ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارے لئے شرف اور بزرگی ہے۔ ایک اور آیت میں فرمایا اِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَکَاور بلاشبہ یہ آپ کے لئے باعث شرف ہے ‘ بات یہ ہے کہ قرآن کی زبان وہ اختیار کی گئی جو قریش کی تھی اور زبان میں لوگوں کو قریش کا تابع بنایا گیا اور خلافت صرف قریش کے لئے مخصوص کردی گئی۔ فَہُمْ عَنْ ذِکْرِہِمْ مُّعْرِضُوْنَپس وہ ایسی کتاب کی طرف بھی التفات نہیں کرتے جو ان کے لئے باعث شرف ہے۔
Top