Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی شخص تم میں ان سے دوستی کرے بلاشبہ وہ ان میں سے ہے، بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا
یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے کی ممانعت معالم التنزیل ج 2 ص 44 اور تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 68 میں لکھا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت ؓ جو انصار کے قبیلہ خزرج میں سے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہودیوں میں میرے بہت سے دوست ہیں جن کی تعداد کثیر ہے۔ میں ان کی دوستی سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں اور اللہ اور اس کے رسول ہی کی دوستی کو پسند کرتا ہوں اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا (جو رئیس المنافقین تھا) مجھے تو زمانہ کی گردشوں کا خوف ہے جن لوگوں سے میری دوستی (یعنی یہود سے) میں ان سے بیزار نہیں ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے جل شانہ (یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ ) سے لیکر دو آیتیں نازل فرمائیں۔ ترک موالات کی اہمیت اور ضرورت در حقیقت کافروں سے ترک موالات کا مسئلہ بہت اہم ہے، اپنے دین پر مضبوطی سے جمتے ہوئے سب انسانوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنا ان کو کھلانا پلانا اور حاجتیں پوری کردینا یہ اور بات ہے لیکن کافروں کے ساتھ دوستی کرنا جائز نہیں ہے جب دوستی ہوتی ہے تو اس میں دوستی کے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جن میں بعض باتیں ایسی بھی بتانی پڑجاتی ہیں جن کے بتانے میں مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہو اور جس سے مسلمانوں کی حکومت میں رخنہ پڑتاہو اور جس سے مسلمانوں کی جماعت میں ضعف آتا ہو، جو سچے پکے مسلمان ہوتے ہیں وہ کافروں سے دوستی کرتے ہی نہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں ایمان نہیں صرف زبانی طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور دل سے کافر ہیں وہ لوگ کافروں سے دوستی کرتے ہیں، یہ لوگ اسلام کے نام لیوا بھی بنتے ہیں لیکن چونکہ اندر سے مسلمان نہیں اس لئے کافروں کی دوستی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انہیں یہ خوف بھی کھائے جاتا ہے کہ ممکن ہے مسلمان کو غلبہ نہ ہوا گر کھل کر مسلمان ہونے کا اعلان کردیں تو کافروں سے جو دنیاوی فوائد وابستہ ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گے۔ اگر قحط پڑجائے یا اور کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچ جائے یا اور کوئی گردش آجائے تو کافروں سے کوئی بھی مدد نہ ملے گی اس خیال خام میں مبتلا ہو کر نہ سچے دل سے مومن ہوتے ہیں نہ کافروں سے بیزاری کا اعلان کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، زمانہ نبوت میں بھی ایسے لوگ تھے جن کا سردار عبد اللہ بن ابی تھا اس کا قول اوپر نقل فرمایا۔ اور آج کل بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مسلمانوں سے مل کر رہتے ہیں اور کافروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں، کافروں کے لئے جاسوسی بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے اندرونی حالات انہیں بتاتے ہیں اور خفیہ آلات کے ذریعہ دشمنان اسلام کو مسلمانوں کے مشوروں اور ان کی طاقت اور عسا کرو افواج کی خبریں پہنچاتے ہیں، چونکہ یہ لوگ خالص دنیا دار ہوتے ہیں اس لئے نہ اپنی آخرت کے لئے سوچتے ہیں نہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے فکر کرتے ہیں صرف اپنی دنیا بناتے ہیں اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کیا نفع پہنچائیں گے آڑے وقت اور نازک حالات میں یہود و نصاریٰ سے ہی پناہ مل سکتی ہے (العیاذ باللہ تعالیٰ ) ۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو شخص ان سے دوستی کریگا وہ انہیں میں سے ہے (دوستی کے درجات مختلف ہیں بعض مرتبہ دوستی ایسی ہوتی ہے کہ اسے نباہنے کے لئے ایمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے یہ تو سراپاکفر ہے اور فَاِنَہُ مِنْھُمْ کا حقیقی مصداق ہے اور اگر کسی نے ایمان کو چھوڑے بغیر کافروں سے دوستی کی تو اپنی دوستی کے بقدر درجہ بدرجہ انہیں میں سے شمار ہوگا اور یہ کیا کم ہے کہ دیکھنے والے اس دوستی کرنے والے کو کافروں کا ہی ایک فرد سمجھیں گے) (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) (بلا شبہ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا) کافروں سے دوستی کرنا اپنے اوپر اور دوسرے تمام مسلمانوں پر ظلم ہے اور یہ ظم کرنے والے اپنے خیال میں ہوشیار بن رہے ہیں راہ ہدایت سے منہ موڑے ہوئے ہیں انہیں ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے اللہ انہیں ہدایت نہیں دے گا۔
Top