Bayan-ul-Quran - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
7) اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو اپنادلی دوست (حمایتی اور پشت پناہ) نہ بنا ؤوہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان سے دلی دوستی رکھے گا تو وہ ان ہی میں سے ہوگا یقینا اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا
آیت 51 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط ان میں سے بعض بعض کے پشت پناہ اور مددگار ہیں۔ یہ درحقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو اس دور میں آکر پوری ہوئی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو صورت حال وہ تھی جو ہم قبل ازیں اس سورة کی آیت 14 میں پڑھ آئے ہیں : فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط پس ہم نے ان کے مابین عداوت اور بغض کی آگ بھڑکا دی روز قیامت تک کے لیے۔ چناچہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین ہمیشہ شدید دشمنی رہی ہے اور آپس میں کشت و خون ہوتا رہا ہے ‘ لیکن زیر نظر الفاظ بَعضُھُمْ اَوْلیَاءُ بَعْضٍ میں جو پیشین گوئی تھی وہ بیسویں صدی میں آکر پوری ہوئی ہے۔ بالفور ڈیکلریشن 1917 ء کے بعد کی صورت حال میں ان کا باہمی گٹھ جوڑ شروع ہوا ‘ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکہ کے زیراثر اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی ‘ اور اب بھی اگر وہ قائم ہے تو اصل میں انہی عیسائی ملکوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قائم ہے۔ عیسائی اب یہودیوں کی اس لیے پشت پناہی کر رہے ہیں کہ ان کی ساری معیشت یہودی بینکاروں کے زیر تسلط ہے۔ عیسائیوں کی معیشت پر یہودیوں کے قبضہ کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ اس درجہ مستحکم ہوچکا ہے کہ آج عیسائیوں کی پوری عسکری طاقت یہودیوں کی پشت پر ہے۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط۔ یعنی جو کوئی ان سے دوستی کے معاہدے کرے گا ‘ ان سے نصرت و حمایت کا طلب گار ہوگا ‘ ہماری نگاہوں میں وہ یہودی یا نصرانی شمار ہوگا۔ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ آج ہمارے اکثر مسلمان ممالک کی پالیسیاں کیا ہیں اور اس سلسلے میں قرآن کا فتویٰ کیا ہے ‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔
Top