Mutaliya-e-Quran - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ : اے لوگو ! جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ لَا تَتَّخِذُوا : تم لوگ مت بناو ] [ الْيَھُوْدَ : یہودیوں کو ] [ وَالنَّصٰرٰٓى: اور نصرانیوں کو ] [ اَوْلِيَاۗءَ : کارساز ] [ ۘبَعْضُهُمْ : ان کے بعض ] [ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ : بعض کے کار ساز ہیں ] [ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ :: دوستی کرے گا ان سے ] [ مِّنْكُمْ : تم میں سے ] [ فَاِنَّهٗ : تو یقینا وہ ] [ مِنْهُمْ ۭ: ان میں سے ہے ] [ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ] [ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا ] [ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگوں کو ] ج ھ د : (ف) ۔ جھدا ۔ کسی کام میں طاقت صرف کرنا ۔ کوشش کرنا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ جہد ۔ اسم ذات ہے ۔ کوشش ۔ محنت ۔ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ [ اور ان لوگوں کو جو نہیں پاتے مگر محنت سے ] ۔ 9 :79 ۔ (مفاعلہ ) ۔ مجاھدۃ ۔ کسی کے مقابلے پر محنت صرف کرنا ۔ کشمکش کرنا ۔ وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ [ اور جس نے کشمکش کی تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ کشمکش کرتا ہے اپنے ہی لیے ] 29:6 ۔ جاھد ۔ فعل امر ہے تو کشمکش کر ۔ جدوجہد کر۔ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا [ اور آپ ان سے جدوجہد کریں اس سے یعنی قرآن سے جیسے کہ بڑی جدوجہد کرنے کا حق ہے ] ۔ 52 : 56 ۔ ل و م :ـ (ن) لوما ۔ برا بھلا کہنا ۔ ملامت کرنا ۔ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ [ تو یہ وہ ہے تم عورتوں نے ملامت کی مجھ کو جس کے بارے میں ] ۔ 12:32 ۔ لم ۔ فعل امر ہے ۔ تو ملامت کر ۔ فَلَا تَلُوْمُوْنِيْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ [ پس تم لوگ ملامت مت کرو مجھ کو اور ملامت کرو اپنے آپ کو ] ۔ 14:22 ۔ لومۃ اسم ذات ہے ۔ ملامت ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ لائم ۔ اسم الفاعل ہے ۔ ملامت کرنے والا۔ آیت زیر مطالعہ ۔ ملوم ۔ اسم المفعول ہے ۔ ملامت کیا ہوا ۔ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ [ پس آپ منہ پھیر لیں ان سے تو آپ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں یعنی آپ پر کوئی الزام نہیں ہے ] ۔ 51 :54 ۔ لوام ۔ فعال ۔ کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ بار بار ملامت کرنے والے نفس کی ] ۔ 75:6 ۔ (افعال) ۔ الا مۃ ۔ اپنے آپ کو ملامت کرنا۔ ملیم۔ اسم الفاعل ہے ۔ خود کو ملامت کرنے والا ۔ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيْمٌ [ تو ہم نے پھینکا ان کو پانی میں اس حال میں کہ وہ خود کو ملامت کرنے والا تھا ] ۔ 51:40 ۔ (تفاعل ) ۔ تلاوما ۔ ایک دوسرے کو ملامت کرنا ۔ فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَلَاوَمُوْنَ [ تو ان کے بعض سامنکے آئے بعض کے ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے ] ۔ 68:30 ۔ ح ز ب : (ن) ۔ حزبا۔ سخت ہونا ۔ مضبوط ہونا۔ حزب ۔ ج ۔ احزاب ۔ مضبوط جتھایا گروہ ۔ لشکر ۔ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ يُّنْكِرُ بَعْضَهٗ ۭ [ اور گروہوں میں وہ بھی ہیں جو انکار کرتے ہیں اس کے بعض کا ] ۔ 13:36 ۔ ترکیب : یسارعون کی ضمیر فاعلی ھم ہے جو کہ الذین فی قلوبہم مرض کے لیے ہے جبکہ فیہم کی ضمیر یہود اور نصاری کے لیے ہے ۔ بالفتح کی با پر عطف ہونے کی وجہ سے امر مجرور ہوا ہے ۔ فیصبحوا کا فاسبیبہ ہے ۔ جھدا ایمانہم مرکب اضافی ہے اور اس کے مضاف جھد کی نصب بتارہی ہے کہ یہ پورا مرکب فعل محذوف جھدوا کا مفعول مطلق ہے ۔ یحبہم کی ضمیر فاعلی ھو ہے جو اللہ کے لیے ہے اور یحبونہ کی ضمیر فاعلی ھم ہے جو بقوم کے لیے بقوم کی صفت ہونے کی وجہ سے اذلۃ اور اعذۃ مجرور ہیں ۔ حزب اسم جمع ہے اس لیے اس کی خبر الغلبون جمع آئی ہے۔ ؎ نوٹ : 1 ۔ آیات زیر مطالعہ کے نزول کے وقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا ۔ اگرچہ اسلام ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبردست تھیں ۔ اس وقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی ۔ عرب کے سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضے میں تھے ۔ ان کے سودی قرضوں کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا ۔ اس لیے دائرہ اسلام میں شامل کچھ دنیا پرستی کے روگی لوگوں کو خطرہ تھا کہ اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے ان سب قوموں سے تعلقات منقطع کرنا سیاسی اور معاشی دونوں لحاظ سے خطرناک ہوگا ۔ (تفہیم القرآن ) کفر واسلام کی کشمکش کی جو صورتحال ان آیات کے نزول کے وقت عرب میں تھی ، بالکل وہی صورتحال آج پوری دنیا میں ہے ۔ آج بھی مسلم امت میں جہاں کچھ مخلص دیوانے ہیں ، وہیں دنیا پرست فرزانے بھی ہیں ، جو کافر قوموں سے قطع تعلق کو خود کشی قرار دے رہے ہیں کیونکہ کفار کی معاشی اور فوجی برتری ناقابل تسخیر نظر آرہی ہے۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ کہ بالآخر مسلم امت ہی غالب ہونے والی ہے (ان شاء اللہ ) ۔ یہ بات بھی ذہن میں واضح رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کی کسی ایک آیت سے کافروں سے تعلقات کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں ہے ۔ پورے قرآن مجید ، سنت اور صحابہ کرام ؓ اجمعین کے عمل کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل بنتا ہے اس کی وضاحت آیت نمبر ۔ 3:28 کے نوٹ ۔ 1 ، میں کی جاچکی ہے ۔ اس لحاظ سے آج تک (15: دسمبر 2002 ء ) امریکہ ، برطانیہ ، بھارت اور اسرائیل کافر حربی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ باقی غیر مسلم ممالک کو فی الحال کافر حربی قرار دینا محل نظر ہے۔ نوٹ : 2 ۔ آیت نمبر ۔ 51، میں کہا گیا ہے کہ یہود ونصری ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ یہ قرآن کی پیشنگوئیوں میں سے ایک ایسی پیشنگوئی ہے جواب پوری ہوئی ہے ۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قاتل ہیں ۔ اس لیے اس آیت کے نزول کے وقت یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اور ان کی یہ دشمنی بیسویں صدی کے وسط تک قائم تھی ، حضرت عمر ؓ کے زمانے میں یروشلم پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا ۔ اس وقت وہاں مدتوں سے عیسائی حکومت تھی اور انھوں نے وہاں یہودیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی ۔ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو یروشلم میں آنے اور وہاں آباد ہونے کی اجازت دی تھی ۔ 1939 ء کی دوسری عالمی جنگ سے پہلے جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا تو وہ لوگ جرمنی سے بھاگ کر یورپ کے ممالک میں پناہ گزیں ہوئے ۔ اس وقت کوئی عیسائی ملک انھیں اپنے ملک میں آباد کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا ۔ پھر بڑی کوششوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہر ملک کے لیے یہودیوں کو آباد کرنے کا کوٹہ مقرر کیا گیا ۔ کیوبا اور امریکہ میں آباد کیے جانے والے یہودیوں کو لے کر ایک بحری جہاز یورپ سے روانہ ہوا جب وہ کیوبا پہنچا تو وہاں کی حکومت نے اپنے کوٹے کے صرف بیس فیصد افراد کو اترنے کی اجازت دی اور باقی کو لینے سے انکار کردیا ۔ جب یہ جہاز امریکہ پہنچا تو انھوں نے ایک آدمی کو بھی اترنے کی اجازت نہیں دی اور سب کو لے کر جہاز کو یورپ واپس آنا پڑا ۔ پھر موجودہ پوپ سے پہلے پوپ صاحب نے یہودیوں کو عیسیٰ کا خون معاف کرنے کا اعلان کیا ۔ اس کے بعد یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست بنے ۔ اس طرح یہ قرآنی پیشنگوئی پوری ہوئی ہے ۔
Top