Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے ایمان والو ! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
حکم چہاردہم ممانعت از موالاۃ یہود ونصاری اوذم منافقین۔ قال اللہ تعالی، یا ایھا الذین آمنوا لاتتخذوا۔۔۔ الی۔۔۔ خاسرین۔ ربط) گذشتہ آیات میں یہود اور نصاری کے قبائح کو بیان کیا اب ان آیات میں مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ تم ان سے محبت نہ کرنا جو ان سے محبت کرے گا وہ انہیں میں شمار ہوگا کیونکہ محبت اور صحبت کا برا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے محبت کا یہ اثر ہے کہ محبوب کی ہر چیز محب کی نظر میں محبوب ہوجاتی ہے جذام اور سرطان کی طرح کفر اور شرک ایک روحانی مرض ہے دلی میل جول سے اس کے جراثیم متعدی ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے باغیوں کی دلی محبت اور میل جول سے رفتہ رفتہ انہیں کا مذہب اختیار کرلیتا ہے فی الحال اگرچہ باعتبار باطن کے ان میں سے نہیں لیکن ان کی محبت اور صحبت سے اندیشہ ہے کہ آئندہ چل کرا نہیں میں سے نہ ہوجائے یعنی اسلام سے مرتد نہ ہوجائے جیسا کہ آئندہ آیت میں اسی فتنہ ارتداد کی خبر دی گئی ہے جس طرح کسی حکومت کی رعایا بن جانے کے بعد قانون حکمت پر نکتہ چینی اور تبصرہ کرنا حکومت سے ارتداد ہے اسی طرح اسلام میں داخل ہونے کے بعد قانون شریعت پر نکتہ چینی اور تبصرہ کرنا اسلام سے ارتداد ہے اور کافروں سے دلی تعلق ارتداد کی علامت ہے اور اس کا پیش خیمہ ہے اور اگر وہ اس کو چھپائیں اور اسلام کو ظاہر کریں تو وہ نفاق ہے جو شخص حکومت کے دشمنوں اور باغیوں سے میل جیل اور دوستانہ تعلقات رکھے تو حکومت کی نظر میں اس کی وفاداری مشکوک ہوجاتی ہے اور اسی طرح کافروں سے ودستانہ تعلقات سے اللہ کی نظر میں اسلام کی وفاداری مشکوک ہوجاتی ہے۔ شان نزول۔ یہ آیتیں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئیں یہود سے اس کا بہت دوستانہ تھا اور اس کا خیال تھا کہ شاید احد کی طرح مسلمان پھر مغلوب ہوں تو یہود سے ہماری دوستی کام آئے گی اور یہ کہا کہ انی رجل اخاف الدوائر یعنی میں ایسا مرد ہوشیار ہوں کہ مجھے حوادث دھر کا اندیشہ ہے اس لیے باقتضاء مصلحت میں یہود سے تعلق قطع نہیں کرسکتا عبداللہ بن ابی منافق کی طرح حضرت عبادہ بن صامت کے بھی یہود سے حلیفانہ تعلقات تھے مگر چونکہ وہ سچے مسلمان تھے اس لیے انہوں نے فور ا یہود سے قطع تعلق کرلیا اور عبداللہ بن ابی منافق کہنے لگا کہ میں ان کی دوستی نہیں چھوڑ سکتا میرا بڑا نقصان ہوگا حالانکہ عبادہ بن صامت سے بھی اسی قسم کی دوستی تھی مگر انہوں نے چھوڑ دی اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اے ایمان والو، ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے تعلق قطع کرو منافقوں کی طرح یہود اور نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ اور وہ کس طرح تمہارے دوست نہیں بن سکتے وہ تو باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں یعنی اگرچہ ان میں باہم ختلاف ہے مگر تمہاری مخالفت اور عداوت میں وہ سب ایک ہیں کیونکہ وہ سب کفر ونفاق میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں اور کندہم جنس باہم جنس پرواز۔ تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا سوہ وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہوگا یا یہ معنی ہیں کہ ان کے اختلاط سے متاثر ہوکررفتہ رفتہ انہیں میں سے ہوجائے گا یعنی مرتد ہو کر انہیں میں سے ہوجائے یا کم ازکم شعائر کفر اور رسوم شرکیہ سے نفور اور بیزار نہ رہے گا دل سے اگرچہ ان کا مذہب اختیار نہیں کیا مگر عملا اور ظاہرا انہیں میں سے شمار ہوگا اور فانہ منھم باعتبار اطلاق کے اعتقاد اور عمل دونوں کو شامل ہے تحقیق اللہ بےراہوں اور ستم گاروں کو ہدایت نہیں دیتا یعنی جو شخص دشمنان اسلام سے موالات اور دوستی کرکے اپنی جان پر ظلم وستم کرے اور اسلام کے مغلوب اور مقہور ہونے کا انتظار کرے ایسے بدبخت ظالم کی راہ ہدایت پر آنے کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی جو لوگ کافروں کی دوستی میں غرق ہیں وہ اس بات کو سمجھ ہیں نہیں سکتے پس اے دیکھنے والے تو اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرلے گا کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر کافروں میں گھستے جاتے ہیں اور اگر کوئی انہیں فہمائش کرتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو ڈر ہے کہ زمانہ کا کوئی حادثہ ہم کو نہ آپہنچے ان کا مقصود یہ تھا کہ ہم کو یقین نہیں کہ محمد ﷺ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے اگر کوئی وقت ایسا آیا کہ دشمن ان پر غالب آگیا تو وہ ہم کو ان کا ساتھی سمجھ کر پیس ڈالے گا لہذاہم ان سے بگاڑنا نہیں چاہتے اللہ فرماتے ہیں کہ ان کا یہ گمان غلط ہے کہ عنقریب خداوندذوالجلال مسلمانوں کو ان پر غالب کرے گا اور یہ کم بخت منافق پچھتائے ہیں چناچہ فرماتے ہیں پس وہ وقت قریب ہے کہ اللہ مسلمانوں کی فتح اور غلبہ کو ظاہر فرمائے اور جن سے یہ دوستی کررہے ہیں وہ مقہور ومغلوب ہوں یا اس کے علاوہ اور کوئی امر پردہ غیب سے ظاہر فرمائے جیسے بنی نضیر کی جلاوطنی اور بنی قریظہ کی گردن زنی کا حکم اس وقت یہ منافقین ان باتوں پر جو اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں پشیمان ہوں گے یعنی جب اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ کو ان کے دشمنوں پر فتح دے گا اور ان کے دشمنوں میں کسی کو جلاوطن کرے گا اور کسی کو قتل کرائے گا اور اس وقت منافقوں پر کھلے گا کہ ہمارا گمان غلط تھا کہ رسول خدا کو غلبہ نہ ہوگا اور جن کی شوکت پر بھرسہ کرتے تھے ان کی ساری شوکت خاک میں مل گئی اور جن کا سہارا ڈھونڈتے تھے وہ سہارا ختم ہوا اور اللہ کی پیشن گوئی پوری صادق ہوگئی کہ اسلام کا غلبہ ہوگیا اور دشمنوں کی تمام شوکت ختم ہوگئی اور اس وقت یہ لوگ اپنے گمان پر پشیمان ہوں گے اور جس وقت ان منافقین کا پردہ چاک ہوگا اور اس وقت اہل ایمان آپس میں تعجب سے یہ کہیں گے کہ کیا وہی لوگ ہیں جو تم سے یعنی تم مسلمانوں کے آگے اللہ کی پکی قسمیں کھاتے تھے کہ وہ بلاشبہ تمہارے ساتھ ہیں یعنی اس دن مسلمان بڑے تعجب سے آپس میں یہ کہیں گے کہ ویہ وہی لوگ ہیں کہ ہم سے بڑی پکی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں آج ان کا جھوٹ اور نفاق ظاہر ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ جھوٹے تھے دعوے تو یہ تھا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ظاہر ہوا کہ اس کے خلاف الغرض ان کی ساری کاروائیاں غارت گئیں ان منافقوں کا ظاہری اسلام کچھ کام نہ آیا اور یہ ساری جدوجہد کہ دونوں سے بھلے بنے رہیں بیکار گئی کیونکہ کفار تو خود مغلوب ہوئے اور اس لیے ان کا ساتھ دنیا بیکار رہا اور مسلمانوں کے سامنے ان کی قلعی کھل گئی پس دونوں اطراف سے نقصان اور خسارہ بڑھ گیا نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے اور اسلام کے غلبہ اور فتح سے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔
Top