Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے ایمان والو مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے، اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو،
خلاصہ تفسیر۔
آیات مذکورہ میں تین اہم اصولی مضامین کا بیان ہے جو مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی وحدت و شیرازہ بندی کے بنیادی اصول ہیں
اول یہ کہ مسلمان غیر مسلموں سے رواداری، ہمدردی، خیر خواہی، عدل و انصاف اور احسان و سلوک سب کچھ کرسکتے ہیں، اور ایسا کرنا چاہیے کہ ان کو اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن ان سے ایسی گہری دوستی اور خلط ملط جس سے اسلام کے امتیازی نشانات گڈ مڈ ہوجائیں اس کی اجازت نہیں۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو ”ترک موالات“ کے نام سے معروف ہے۔
دوسرا مضمون یہ ہے کہ اگر کسی وقت کسی جگہ مسلمان اسی بنادی اصول سے ہٹ کر غیر مسلموں سے ایسا غلط ملط کرلیں تو یہ نہ سمجھیں کہ اس سے اسلام کو کوئی گزند اور نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ اسلام کی حفاظت اور بقاء کی ذمہ داری حق تعالیٰ نے لی ہے، اس کو کوئی نہیں مٹا سکتا، اگر کوئی قوم بِرَٹ جائے اور حدود شرعیہ کو توڑ کر فرض کرلو کہ اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کسی دوسری قوم کو کھڑا کردیں گے جو اسلام کے اصول و قانون کو قائم کرے گی۔
تیسرا مضمون یہ ہے کہ جب ایک طرف منفی پہلو معلوم ہوگیا تو مسلمان کی گہری دوستی تو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ یہ اجمال ہے ان مضامین کا جو مذکورہ بالا پانچ آیتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ اب ان آیتوں کی مختصر تفسیر دیکھئے
اے ایمان والو تم (منافقوں کی طرح) یہود و نصاریٰ کو (اپنا) دوست مت بنانا وہ (خود ہی) ایک دوسرے کے دوست ہیں (یعنی یہودی یہودی باہم اور نصرانی نصرانی باہم، مطلب یہ ہے کہ دوستی ہوتی ہے مناسبت سے، سو ان میں باہم تو مناسبت ہے مگر تم میں اور ان میں کیا مناسبت) اور (جب جملہ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ دوستی ہوتی ہے تناسب سے تو) جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا بیشک وہ (کسی خاص مناسبت کے اعتبار سے) ان ہی میں سے ہوگا (اور گویہ یہ امر ظاہر ہے لیکن) یقینا اللہ تعالیٰ (اس امر کی) سمجھ ہی نہیں دیتے ان لوگوں کو جو (کفار سے دوستی کرکے) اپنا نقصان کر رہے ہیں (یعنی دوستی میں منہمک ہونے کی وجہ سے یہ بات ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتی، اور چونکہ ایسے لوگ اس امر کو نہیں سمجھتے) اسی لئے (اے دیکھنے والے) تم ایسے لوگوں کو کہ جن کے دل میں (نفاق کا) مرض ہے دیکھتے ہو کہ دوڑ دوڑ کر ان (کفار) میں گھستے ہیں (اور ملامت کرے تو حیلہ بازی اور سخن سازی کے لئے یوں) کہتے ہیں کہ (ہمارا ملنا ان کے ساتھ دل سے نہیں، بلکہ دل سے تو تمہارے ساتھ ہیں صرف ایک مصلحت سے ان کے ساتھ ملتے ہیں وہ یہ کہ) ہم کو اندیشہ ہے کہ (شاید انقلاب زمانہ سے) ہم پر کوئی حادثہ پڑجائے (جیسے قحط ہے، تنگی ہے، اور یہ یہودی ہمارے ساہوکار ہیں ان سے قرض ادھار مل جاتا ہے، اگر ظاہری میل جول قطع کردیں گے تو وقت پر ہم کو تکلیف ہوگی، ظاہراً نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ کا یہ مطلب لیتے تھے۔ لیکن دل میں اور مطلب لیتے کہ شاید آخر میں مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے سے پھر ہم کو ان کی احتیاج پڑے اس لئے ان سے دوستی رکھنا چاہئے) سو قریب امید (یعنی وعدہ) ہے کہ اللہ تعالیٰ (مسلمانوں کی کامل) فتح (ان کفار کے مقابلہ میں جن سے یہ دوستی کر رہے ہیں) فرما دے (جس میں مسلمانوں کی کوشش کا بھی دخل ہوگا) یا کسی اور بات کا خاص اپنی طرف سے (ظہور فرما دے۔ یعنی ان کے نفاق کا علی التعیین بذریعہ وحی کے عام اظہار فرما دیں جس میں مسلمانوں کی تدبیر کا اصلاً دخل نہیں۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی فتح اور ان کی پردہ دری دونوں امر قریب ہونے والے ہیں) پھر (اس وقت) اپنے (سابق) پوشیدہ دلی خیالات پر نادم ہوں گے۔ (کہ ہم کیا سمجھتے تھے کہ کفار غالب آویں گے اور یہ کیا برعکس ہوگیا۔ ایک ندامت تو اپنے خیال کی غلطی پر کہ امر طبعی ہے۔ دوسری ندامت اپنے نفاق پر جس کی بدولت آج رسوا ہوئے، مَآ اَ سَرُّوْا میں یہ دونوں داخل ہیں، اور یہ تیسری ندامت کہ کفار کے ساتھ دوستی کرنے پر رائگاں ہی گئی۔ اور مسلمانوں سے بھی برے بنے۔ چونکہ دوستی مَآ اَ سَرُّوْا پر مبنی تھی۔ لہذا ان دو ندامتوں کے ذکر سے یہ تیسری بلا ذکر صریح خود مفہوم ہوگئی) اور (جب اس زمانہ فتح میں ان لوگوں کا نفاق بھی کھل جائے گا تو آپس میں) مسلمان لوگ (تعجب سے) کہیں گے ارے کیا یہ وہی لوگ ہیں کہ بڑے مبالغہ سے (ہمارے سامنے) قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم (دل سے) تمہارے ساتھ ہیں (یہ تو کچھ اور ہی ثابت ہوا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) ان لوگوں کی ساری کاروائیاں (کہ دونوں فریق سے بھلا رہنا چاہتے تھے سب) غارت گئیں جس سے (دونوں طرف سے) ناکام رہے (کیونکہ کفار تو مغلوب ہوگئے۔ ان کا ساتھ دینا محض بیکار ہے اور مسلمانوں کے سامنے قلعی کھل گئی، ان سے اب بھلا بننا دشوار۔ وہی مثل ہوگئی ”ازیں سو راندہ ازاں سو ماندہ) اے ایمان والو (یعنی جو لوگ وقت نزول اس آیت کے ایمان والے ہیں) جو شخص تم میں سے اپنے (اس) دین سے پھرجائے تو (اسلام کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ اسلامی خدمات انجام دینے کے لئے) اللہ تعالیٰ بہت جلد (ان کی جگہ) ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جن سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہوگی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی مہربان ہوں گے وہ مسلمانوں پر، تیز ہوں گے کافروں پر (کہ ان سے) جہاد کرتے ہوں گے اللہ کی راہ میں اور (دین اور جہاد کے مقدمہ میں) وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گی (جیسا منافقین کا حال ہے کہ دبے دبائے جہاد کے لئے جاتے تھے۔ مگر اندیشہ لگا رہتا تھا کہ کفار جن سے دل میں دوستی ہے ملامت کریں گے، یا اتفاق سے جن کے مقابلہ میں جہاد ہے وہی اپنے دوست اور عزیز ہوں تو سب دیکھتے سنتے طعن کریں گے کہ ایسوں کو مارنے گئے تھے) یہ (صفات مذکورہ) اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس کو چاہیں عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں (کہ اگر چاہیں تو سب کو یہ صفات دے سکتے ہیں لیکن) بڑے علم والے (بھی) ہیں (ان کے علم میں جس کو دینا مصلحت ہوتا ہے اس کو دیتے ہیں) تمہارے دوست تو (جن سے تم کو دوستی رکھنا چاہئے) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور ایماندار لوگ ہیں جو کہ اس حالت سے نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں کہ ان (کے دلوں) میں خشوع ہوتا ہے، (یعنی عقائد، اخلاق و اعمال بدنی و مالی سب کے جامع ہیں) اور جو شخص (موافق مضمون مذکور) اللہ سے دوستی رکھے گا اور اس کے رسول سے اور ایمان دار لوگوں سے سو (وہ اللہ کے گروہ میں داخل ہوگیا اور) اللہ کا گروہ بیشک غالب ہے (اور کفار مغلوب ہیں، غالب سے مغلوب کی سازگاری اور دوستی کی فکر کرنا محض نازیبا ہے) اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب (آسمانی یعنی تورات و انجیل) مل چکی ہے (مراد یہود و نصاریٰ) جو ایسے ہیں کہ انہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے (جو علامت ہے تکذیب کی) ان کو اور (اسی طرح) دوسرے کفار کو (بھی جیسے مشرکین وغیرہ) دوست مت بناؤ (کیونکہ اصل علّت کفر و تکذیب تو مشترک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو (یعنی ایمان دار تو ہو ہی پس جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اس کو مت کرو) اور (جیسے اصول دین کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں، اسی طرح فروع کے ساتھ بھی چنانچہ) جب تم نماز کے لئے (اذان کے ذریعہ سے) اعلان کرتے ہو تو وہ لوگ (تمہاری) اس (عبادت) کے ساتھ (جس میں اذان اور نماز دونوں آگئیں) ہنسی اور کھیل کرتے ہیں (اور) یہ (حرکت) اس سبب سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ بالکل عقل نہیں رکھتے (ورنہ امر حق کو سمجھتے اور اس کے ساتھ ہنسی نہ کرتے)۔

معارف و مسائل
پہلی آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ یہود و نصاریٰ سے موالات (یعنی گہری دوستی) نہ کریں جیسا کہ عام غیر مسلموں کا اور یہود و نصاریٰ کا خود یہی دستور ہے کہ وہ گہری دوستی کو صرف اپنی قوم کے لئے مخصوص رکھتے ہیں، مسلمانوں سے یہ معاملہ نہیں کرتے۔
پھر اگر کسی مسلمان نے اس کی خلاف ورزی کرکے کسی یہود یا نصرانی سے گہری دوستی کرلی تو وہ اسلام کی نظر میں بجائے مسلمان کے اسی قوم کا فرد شمار ہونے کے قابل ہے۔
شان نزول
امام تفسیر ابن جریر نے بروایت عکرمہ ؓ بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ میں تشریف فرما ہونے کے بعد ان اطراف کے یہود و نصاریٰ سے ایک معاہدہ اس پر کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہ خود جنگ کریں گے، نہ کسی جنگ کرنے والی قوم کی امداد کریں گے۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اسی طرح مسلمان نہ ان لوگوں سے جنگ کریں گے نہ ان کے خلاف کسی قوم کی امداد کریں گے بلکہ مخالف کا مقابلہ کریں گے۔ کچھ عرصہ تک یہ معاہدہ جانبین سے قائم رہا، لیکن یہودی اپنی سازشی فطرت اور اسلام دشمن طبیعت کی وجہ سے اس معاہدہ پر زیادہ قائم نہ رہ سکے اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ سے سازش کرکے ان کو قلعہ میں بلانے کے لئے خط لکھ دیا۔ رسول کریم ﷺ پر جب اس سازش کا انکشاف ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے مقابلہ کے لئے ایک دستہ مجاہدین کا بھیج دیا۔ بنو قریظہ کے یہ یہودی ایک طرف تو مشرکین مکہ سے یہ سازش کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں میں گھسے ہوئے بہت سے مسلمانوں سے دوستی کے معاہدے کئے ہوئے تھے۔ اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف مشرکین کے لئے جاسوسی کا کام انجام دیتے تھے۔ اس لئے یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی گہری دوستی سے روک دیا، تاکہ مسلمانوں کی خاص خبریں معلوم نہ کرسکیں۔ اس وقت بعض صحابہ کرام حضرت عبادہ بن صامت وغیرہ نے تو کھلے طور پر ان لوگوں سے اپنا معاہدہ ختم اور ترک موالات کا اعلان کردیا۔ اور بعض لوگ جو منافقانہ طور پر مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے یا ابھی ایمان ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا ان لوگوں سے قطع تعلق کردینے میں یہ خطرات محسوس کرتے تھے کہ ممکن ہے کہ مشرکین و یہود کی سازش کامیاب ہوجائے اور مسلمان مغلوب ہوجائیں تو ہمیں ان لوگوں سے بھی ایسا معاملہ رکھنا چاہئے کہ اس وقت ہمارے لئے مصیبت نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے اسی بناء پر کہا کہ ان لوگوں سے قطع تعلق میں تو مجھے خطرہ ہے۔ اس لئے ایسا نہیں کرسکتا اس پر دوسری آیت نازل ہوئی۔
Top