Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 27
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى
اِنَّ الَّذِيْنَ : یشک وہ لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ : جو ایمان نہیں لاتے آخرت پر لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ : البتہ وہ نام رکھتے ہیں فرشتوں کے تَسْمِيَةَ الْاُنْثٰى : نام عورتوں والے
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کے نام مؤنث کے نام پر رکھتے ہیں
مشرکین نے اپنی طرف سے فرشتوں کا مادہ ہونا تجویز کیا مشرکین جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد بتاتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اس کے بارے میں فرمایا ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓىِٕكَةَ تَسْمِيَةَ الْاُنْثٰى 0027﴾ (بےشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو مونث یعنی لڑکی کے نام سے نامزد کرتے ہیں) ان کی یہ سب بری حرکتیں ہیں اور برے عقیدے ہیں اور ان کے یہ جو خیالات ہیں فکر آخرت نہ ہونے کی وجہ سے ہیں اگر آخرت پر ایمان لاتے اور یہ فکر ہوتا کہ موت کے بعد ہمارا کیا بنے گا ایسا تو نہیں کہ ہمارے عقائد اور اعمال ہمیں عذاب میں مبتلا کردیں تو بغیر قطعی دلیل کے فرشتوں کو نہ عورت بتاتے اور نہ ان کو اللہ کی اولاد بتاتے، اپنی عقل کو کام میں نہ لائے ساری باتیں محض گمان سے کرتے رہے نہ دلیل نہ حجت محض اٹکل پچو باتیں بناتے رہے اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے رہے۔ ایمان اور فکر آخرت کی ضرورت اللہ جل شانہٗ نے جو ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ﴾ (الایۃ) فرمایا ہے اس میں ایک اہم مضمون کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ شرکیہ باتیں کرتے ہیں معلوم ہوا کہ آخرت پر یقین نہ ہونا کفر وشرک اختیار کرنے اور اس پر جمے رہنے کا بہت بڑا سبب ہے۔ آخرت پر یقین نہیں اور آخرت کا تصور ہے تو یوں ہی جھوٹا سا دھندلا سا ہے پھر ان کے دینی ذمہ داروں نے یہ سمجھا دیا ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو یہ تمہیں قیامت کے دن سفارش کرکے عذاب سے بچا لیں گے لہٰذا تھوڑا بہت جو آخرت کا ڈر اور فکر تھا وہ ختم ہوا، مشرکین تو کافر ہیں ہی ان کے علاوہ جو کافر ہیں ان کی بہت سی قسمیں اور بہت سی جماعتیں ہیں ان میں بعض تو ایسے ہیں جو نہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کے وجود کو مانتے ہیں نہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی خالق ہے اور نہ موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں انکے عقیدہ میں جب کوئی خالق ہی نہیں تو کون حساب لے گا اور کون دوبارہ زندہ کرے گا یہ ملحدین کا اور دہریوں کا عقیدہ ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کسی دین اور دھرم کے قائل ہیں اللہ تعالیٰ کو بھی خالق اور مالک مانتے ہیں لیکن شرک بھی کرتے ہیں اور تناسخ یعنی آواگون کا عقیدہ رکھتے ہیں آخرت کے مواخذہ اور محاسبہ اور عقاب کا تصور ان کے یہاں نہیں ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو انبیائے کرام ﷺ کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں یعنی یہودونصاریٰ یہ لوگ دوسرے کافروں کی نسبت آخرت کا ذرا زیادہ تصور رکھتے ہیں لیکن دونوں قوموں کو عناد اور ضد نے برباد کردیا سیدنا محمد رسول ﷺ کی نبوت اور رسالت پر ایمان نہیں لاتے یہودیوں کی آخرت سے بےفکری کا یہ عالم ہے کہ یوں کہتے ہیں ﴿ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ﴾ (ہمیں ہرگز آگ نہ پکڑے گی مگر چند روز) یہ جانتے ہوئے کہ دنیاوی آگ ایک منٹ بھی ہاتھ نہیں لے سکتے اپنے اقرار سے چند دن کے لیے دوزخ میں جانے کو تیار لیکن ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں۔ اور نصاریٰ کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ آخرت کے عذاب کا یقین رکھتے ہوئے اپنے دینی پیشواؤں اور پادریوں کی باتوں میں آگئے جنہوں نے یہ سمجھا دیا کہ کچھ بھی کرلو اتوار کے دن چرچ میں آجاؤ بڑے بڑے گناہ جو کیے ہیں وہ پادری کو بتادو وہ انہیں معاف کر دے گا اور دوسرے گناہوں کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ پادری کے اعلان سے سارے معاف ہوجائیں گے ایسی بےوقوفی کی باتوں کو مان کر آخرت کے عذاب سے غافل ہیں اور کفر و شرک میں مبتلا ہیں، بےفکری نے ان سب کا ناس کھویا ہے آخرت کے عذاب کا جو دھندلا سا تصور ذہن میں تھا اسے بھی ان کے بڑوں نے کالعدم کردیا، دھڑلے سے کفر پر بھی جمے ہوئے ہیں اور شرک پر بھی اور کبیرہ گناہوں پر بھی، غور کرنے کی بات ہے کہ نافرمانی کی خالق تعالیٰ جل مجدہ کی اور معاف کردیں بندے ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ آخرت کے عذاب سے بچنے کی فکر کرنا لازم ہے : انسانوں کو موت کے بعد کا فکر ہی نہیں اور یہ یقین ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے اپنی طرف سے کوئی دین بھیجا ہے جس کے ماننے اور قبول کرنے پر آخرت کے عذاب سے بچ جائیں گے نہ فکر ہے نہ یقین ہے اس لیے کفر و شرک اور گنہگاری کی زندگی میں مبتلا ہیں، فکر اور یقین بہت بڑی چیز ہے، اگر کسی کو فکر لاحق ہوجائے اور کفروشرک پر مرنے سے عذاب میں مبتلا ہونے کا یقین ہوجائے تو نیند نہ آئے اور نہ کھانے میں مزا آئے جب تک اس دین کو تلاش نہ کرلیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بھیجا ہے اور اس کے انکار پر دوزخ میں داخل کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے اس کی تحقیق کرنے سے پہلے نہ جینے میں مزہ آتا نہ خوشیاں مناتے نہ مستیاں کرتے۔ اگر واقعی فکر کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ سب کی سمجھ میں یہی آئے گا کہ صرف دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر ہے اور اسی میں نجات ہے اس کے خلاف کسی کی بات نہ مانیں نہ کسی سردار کی نہ پیشوا کی، نہ پوپ کی نہ پادری کی، اور ہر شخص مذہب کے بڑوں کو جواب دے کہ دین کو اختیار کرنا دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے ہے دنیا میں گروہ بندی کرنے کے لیے نہیں ہے تم اپنی بڑائی باقی رکھنے اور ایک جماعت کا سردار اور پیشوا بننے کی حرص میں ہمارا ناس کیوں کھوتے ہو اور اپنے ساتھ ہمیں دوزخ میں لے جانے کی فکر میں کیوں مبتلا ہو ؟ درحقیقت آخرت پر پختہ ایمان نہ ہونا خواہشات نفس کا اتباع کرنا، اٹکل پچو اپنے لیے دین تجویز کرلینا ان تین باتوں نے انسانوں کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ بہت سے وہ لوگ جو مسلمان ہیں آخرت کا یقین بھی رکھتے ہیں لیکن خواہشات نفس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ لوگ بھی اپنی جانوں کو آخرت کے عذاب میں مبتلا کرنے کے لیے تیار ہیں، نمازیں چھوڑنے والے زکوٰتیں روکنے والے، حرام کمانے والے، حرام کھانے والے اور دوسرے گناہوں میں جو لوگ پھنسے ہوئے ہیں ان کے ایمان کو خواہشات نفس نے کمزور کر رکھا ہے فکر آخرت نہیں اس لیے گناہ نہیں چھوڑتے۔ گمان کی حیثیت : آیات بالا میں گمان کے پیچھے پڑنے کی بھی مذمت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ ” گمان حق کا فائدہ نہیں دیتا۔ “ اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہے جو قرآن و حدیث کی تصریحات کے مقابلہ میں اپنے خیال اور گمان کے تیر چلاتے ہیں اور دینی مسائل میں دخل دیتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یوں ہے یا یوں ہونا چاہیے۔ جو لوگ عموماً دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں اور ان کی یہ بدگمانی انہیں غیبت اور تہمت پر آمادہ کردیتی ہے (اپنی آخرت کی فکر نہیں کرتے) یہ لوگ اپنی بہت سی ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے رسوا بھی ہوجاتے ہی اور آخرت میں گناہوں کا نتیجہ سامنے آہی جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث (بدگمانی سے بچو کیونکہ یہ بدگمانی باتوں میں سب سے جھوٹی بات ہے) ۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ 427 عن البخاری و مسلم)
Top