Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 27
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى
اِنَّ الَّذِيْنَ : یشک وہ لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ : جو ایمان نہیں لاتے آخرت پر لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ : البتہ وہ نام رکھتے ہیں فرشتوں کے تَسْمِيَةَ الْاُنْثٰى : نام عورتوں والے
مگر جو لوگ آخرت  کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کو دیویوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں ، 22
سورة النَّجْم 22 یعنی ایک حماقت تو ان کی یہ ہے کہ ان بےاختیار فرشتوں کو جو اللہ تعالیٰ سے سفارش تک کرنے کا یارا نہیں رکھتے انہوں نے معبود بنا لیا ہے۔ اس پر مزید حماقت یہ کہ وہ انہیں عورتیں سمجھتے ہیں اور ان کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ ان ساری جہالتوں میں ان کے مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ آخرت کو نہیں مانتے۔ اگر وہ آخرت کے ماننے والے ہوتے تو کبھی ایسی غیر ذمہ دارانہ باتیں نہ کرسکتے تھے۔ انکار آخرت نے انہیں انجام سے بےفکر بنادیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کو ماننے یا نہ ماننے، یا ہزاروں خدا مان بیٹھنے سے کوئی فرق نہیں ہوتا، کیونکہ ان میں سے کسی عقیدے کا بھی کوئی اچھا یا برا نتیجہ دنیا کی موجودہ زندگی میں نکلتا نظر نہیں آتا۔ منکرین خدا ہوں یا مشرکین یا موحدین، سب کی کھیتیاں پکتی بھی ہیں اور جلتی بھی ہیں۔ سب بیمار بھی ہوتے ہیں اور تندرست بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ہر طرح کے اچھے اور برے حالات سب پر گزرتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک یہ کوئی بڑا اہم اور سنجیدہ معاملہ نہیں ہے کہ آدمی کسی کو معبود مانے یا نہ مانے، یا جتنے اور جیسے چاہے معبود بنا لے۔ حق اور باطل کا فیصلہ جب ان کے نزدیک اسی دنیا میں ہونا ہے، اور اس کا مدار اسی دنیا میں ظاہر ہونے والے نتائج پر ہے، تو ظاہر ہے کہ یہاں کے نتائج نہ کسی عقیدے کے حق ہونے کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں نہ کسی دوسرے عقیدے کے باطل ہونے کا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے لیے ایک عقیدے کو اختیار کرنا اور دوسرے عقیدے کو رد کردینا محض ایک من کی موج کا معاملہ ہے۔
Top