Ahkam-ul-Quran - Al-Hashr : 8
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْوٰرِثُوْنَ : وارث (جمع)
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے
قول باری ہے (ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فئے دلوادے سو وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا) تا آخر آیت ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے اس فئے کا حکم بیان کیا جس کے حضول کے لئے مسلمانوں کو نہ گھوڑے دوڑانے پڑے تھے اور نہ ہی اونٹ اور پھر اس فئے کو حضور ﷺ کے لئے مخصوص کردیا تھا جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ پھر اس فئے کا ذکر ہوا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے تھے۔ اس فئے کو اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ اصناف کے لئے مخصوص کردیا۔ یہ پانچ اصناف ہیں جن کا ذکر دوسری آیات میں بھی ہوا ہے۔ ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ نمانمین کا اس فئے میں کوئی حصہ نہ ہو اور صرف ان غانمین کو حصہ ملے جو ان پانچ اصناف کے ذیل میں آتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں مال غنیمت ان پانچ اصناف کے لئے تھا لیکن پھر قول باری (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت ملے اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے) تا آخر آیت سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے جب عراق فتح کرلیا تو کچھ صحابہ کرام نے اس سرزمین کو غانمین کے درمیان تقسیم کردینے کا مطالبہ کیا ان میں حضرت زبیر ؓ اور حضرت بلال ؓ وغیرہما بھی شامل تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انہیں جواب میں یہ فرمایا تھا کہ اگر میں عراق کو غانمین میں تقسیم کردوں تو آخر میں آنے والوں کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ حضرت عمر ؓ نے ان حضرات کے مقابلہ میں آیت زیر بحث سے تاقول باری (والذین جاو وا من بعدھم، اور ان لوگوں کا بھی حق ہے کو ان کے بعد آئے) استدلال کیا تھا۔ آپ نے اس سلسلے میں حضرت علی ؓ اور صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت سے مشورہ بھی کیا تھا۔ ان حضرات نے یہی مشورہ دیا تھا کہ عراق کی سرزمین غانمین میں تقسیم نہ کی جائے، یہاں کے باشندوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا جائے اور ان پر خراج عائد کردیا جائے۔ چناچہ حضرت عمر ؓ نے اسی پر عمل کیا اور صحابہ کی جماعت نے آیت زیر بحث سے استدلال میں آپ کی موافقت کی تھی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ اسے مفتوحہ سر زمینوں کے سلسلے میں غنیمت والی آیت کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ اگر امام المسلمین مفتوحہ سر زمین کی تقسیم کو مسلمانوں کے لئے زیادہ فائدہ مند اور بہتر سمجھے تو اسے تقسیم کردے اور اگر اس سر زمین پر وہاں کے باشندوں کو برقرار رکھنے اور ان سے خراج وصول کرنے کو زیادہ سود مند دیکھے تو اس پر عمل کرلے۔ کیونکہ ایٓت زیر بحث کا حکم خراج وصول کرنے کے سلسلے میں اگر ثابت نہ ہوتا اور اس کے اول وآخر کی حیثیت یکساں نہ ہوتی تو صحابہ کرام ؓ حضرت عمر ؓ سے اس کا ضرور ذکر کرتے اور انہیں یہ بتاتے کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ لیکن جب ان حضرات نے آیت کے نسخ سے حضرت عمر ؓ کے مقابلہ میں استدلال نہیں کیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت کا حکم ان حضرات کے نزدیک ثابت تھا اور ان کی نظروں میں اس کے ساتھ حضرت عمر ؓ کا استدلال درست تھا۔ اس طرح دونوں آیتوں کو جمع کرنے کی صورت میں یہ مفہوم حاصل ہوا۔ جان لو جو کہ کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے ، اراضی کے سوا اموال میں اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور اراضی میں اللہ کے لئے پانچواں حصہ ہوگا۔ اگر امام المسلمین ایسا کرنا پسند کرے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جو اراضی بطور فئے دلوائے وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہوگی اگر امام المسلمین ان اراضی کو ان کے مالکوں کے قبضے میں رہنے دینا چاہیے۔ “ یہاں رسول (اللہ ﷺ) کے ذکر کا مقصد یہ ہوگا کہ یہ معاملہ آپ کو تفویض کردیا گیا ہے آپ جس شخص کو مناسب سمجھیں اس کا مصرف قرار دیں۔ حضرت عمر ؓ نے آیت زیر بحث کے الفاظ (کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم تاکہ وہ امال فی تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے) نیز (والذین جاوا من بعد ھم) اسے استدلال کرتے ہوئے فرمایا تھا ” اگر میں اس سرزمین کو غانمین کے درمیان تقسیم کردوں تو یہ تمہارے دولتمندوں ہی کے قبضے میں آجائے گی اور ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں رہے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (والذین جائوا من بعدھم) کے ذریعے اس میں ان لوگوں کا حق بھی رکھا ہے۔ “ جب حضرت عمر ؓ کی رائے میں آیت زیر بحث کی دلالت کا حکم برقرار رہا منسوخ نہیں ہوا۔ اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ اس امر میں اتفاق کیا کہ سرزمین عراق کے باشندوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھ کر ان سے خراج وصول کیا جائے تو آپ نے حضرت عثمان بن حنیف ؓ اور حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ کو زمینوں کی پیمائش کے لئے عراق روانہ کردیا۔ چنانچہ ان دونوں حضرات نے وہاں جاکر زمینوں کی پیمائش کرنے کے بعد ان پر متعین اندازوں کے مطابق خراج عائد کردیا اور گردنوں یعنی افراد پر جزیہ لگا دیا۔ جزیہ عائد کرنے کے سلسلے میں ان دونوں حضرات نے لوگوں کے تین طبقے بنادیے، ایک طبقہ وہ تھا جو سالانہ بارہ درہم ادا کرتا تھا، دوسرا چوبیس درہم اور تیسرا اڑتالیس درہم۔ حضرت عمر ؓ کے اس انتظام میں بعد میں آنے والے ائمہ مسلمین نے کوئی ردوبدل یا ترمیم وتنسیح نہیں کی۔ اس طرح اس انتظام پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ مفتوحہ زمینوں کے بارے میں احکام جن سرزمینوں کی بزور شمشیر فتح کیا جائے ان کے احکام کے متعلق اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام المسلمین کو یہ اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو اس سرزمین کو اس کے باشندوں اور مال ودولت سمیت پانچواں حصہ نکالنے کے بعد غانمین کے درمیان تقسیم کردے اور اگر چاہے تو اس پر وہاں کے باشندوں کو برقرار رکھے اور خراج عائد کردے۔ اس صورت میں یہ سرزمین اس کے باشندوں کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے لئے اس کیبیع وشراء جائز ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جس سرزمین پر صلح ہوگئی ہو اگر اہل صلح اسے فروخت کریں تو ان کی یہ فروخت جائز ہوگی اور جس سرزمین پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا ہو اسے کوئی شخص نہیں خریدے گا۔ اس لئے کہ اہل صلح میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں گے وہ اپنی زمینوں اور اپنے مال کے زیادہ حق دار ہوں گے ۔ جس سرزمین پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا ہو وہاں کے باشندوں میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں گے وہ مسلمان ہونے کی بنا پر اپنی جانیں محفوظ کرلیں گے لیکن ان کی زمینیں مسلمانوں کی ہوں گی۔ کیونکہ ان کی پوری سرزمین مسلمانوں کے لئے فئے بن جاتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جس سرزمین پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا ہو اس کا پانچواں حصہ وہاں کے باشندوں کو دے دیا جائے اور باقی چار حصے غانمین کو مل جائیں گے۔ پھر جو شخص بخوشی اپنے حق سے دست بردار ہوجائے گا۔ امام المسلمین کو اسے ان پر وقف کردینے کا اختیار ہوگا۔ اور جو شخص بخوشی دست بردار نہیں ہوگا وہ اپنے مال کا زیادہ حق دار قرار پائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مفتوحہ سر زمین یا تو غانمین کو دے دی جائے گی اور امام المسلمین کو اسے کسی حالت میں بھی ان سے الگ رکھنے کا اختیار نہیں ہوگا الایہ کہ کوئی شخص اپنے حق سے بخوشی دست بردار ہوجائے یا یا امام المسلمین کو یہ اختیار ہوگا کہ اس سرزمین پر وہاں کے باشندوں کو برقرار رکھتے ہوئے زمین پر خراج عائد کردے اور لوگوں پر جزیہ لگادے جس طرح حضرت عمر ؓ ے عراق کے دیہی علاقوں کے سلسلے میں طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ جب تمام صحابہ کرام نے حضرت عمر ؓ کے اس اقدام کی تصویب کی تھی جو انہوں نے ارض سواد (عراق کے دہی علاقوں) کے انتظام کے سلسلے میں اٹھایا تھا، اگرچہ بعض حضرات نے ابتدا میں غانمین کے حق کو ساقط کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن پھر سب اس انتظام پر متفق ہوگئے تھے۔ تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غانمین نہ تو مفتوحہ سرزمین کی اور نہ ہی وہاں کے باشندوں کی گردنوں کی ملکیت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ البتہ اگر امام المسلمین ایسا کرنا پسند کرے تو پھر انہیں ملکیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اگر غانمین کو مفتوحہ سر زمین کی ملکیت حاصل ہوجاتی تو حضرت عمر ؓ انہیں چھوڑ کر دوسروں کو اس کا مالک قرار نہ دیتے۔ اور آپ نے قول باری (کید یکون دولۃ بین الاغنیآء منکم) نیز (والذین جآئو ا من بعدھم) سے جو استدلال کیا تھا غانمین اس استدلال کو ہرگز تسلیم نہ کرتے ۔ لیکن جب تمام لوگوں نے آیت سے حضرت عمر ؓ کے اس استدلال کو تسلیم کرلیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ غانمین مفتوحہ سرزمین کی ملکیت کے حق دار نہیں ہوتے الایہ کہ امام المسلمین انہیں اس کی ملکیت دینا پسند کرے۔ نیز اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ امام المسلمین کو مشرکین کے قیدیوں کو قتل کردینے کا اختیار ہوتا ہے اور وہ انہیں زندہ رکھ کر غانمین کے درمیان تقسیم بھی کرسکتا ہے۔ اگر ان قیدیوں میں غانمین کی ملکیت کا ثبوت ہوجاتا تو پھر امام المسلمین کو غانمین کے دوسرے اموال کی طرح ان قیدیوں کو تلف کرنے کا اختیار نہ ہوتا۔ جب امام المسلمین کو درج بالا دونوں اختیارات حاصل ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ک مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد غانمین کو نہ تو گردنوں کی اور نہ ہی زمینوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے الایہ کہ امام المسلمین ایسا کرنا چاہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے سفیان ثوری نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے بشیر بن یسار سے اور انہوں نے سہل بن ابی حثمہ سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے خیبر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک حصے کی آمدنی اپنی ضروریات کے لئے مخصوص کردی تھی اور دوسرے حصے کو مسلمانوں کے درمیان اٹھارہ حصے فی کس کے حساب سے تقسیم کردیا تھا۔ اگر پورا خیبر غانمین کی ملکیت ہوتا تو آپ ﷺ اس کے نصف کو اپنی ضروریات کے لئے مخصوص نہ کرتے حالانکہ خیبر بزور شمشیر فتح ہوا تھا اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ آ نے مکہ بزور شمشیر فتح کیا تھا اور اس کے باشندوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں وہاں برقرار رہنے دیا تھا۔ اس طرح آیت کی دلالت ، اجماع سلف اور سنت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ امام المسلمین کو مفتوحہ زمینوں کو غانمین کے درمیان تقسیم کردینے یا انہیں وہاں کے باشندوں کی ملکیت میں رہنے دینے اور خراج عائد کردینے کا اختیار حاصل ہے۔ اس پر سہل بن صالح کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” عراق نے اپنے قفیز (ایک پیمانہ) اور درہم کی ادائیگی روک دی ، شام نے اپنے مد (ایک پیمانہ) اور دنیار کی اور مصر نے اپنے اردب (ایک بڑا پیمانہ) اور دینار کی۔ اور پھر اسی طرح ہوگئے جس طرح پہلے تھے۔ “ یہ روایت سنا کر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا۔ اس روایت کی صداقت پر ابوہریرہ ؓ کا گوشت اور اس کا خون گواہ ہیں۔ “ اس روایت میں حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ زمینوں میں اللہ کے واجب حقوق کی ادائیگی سے لوگ با زرہیں گے اور اس طرح حقوق اللہ کی عدم ادائیگی کی بنا پر وہ زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ آئیں گے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتے تھے۔ یہ بات حضرت عمر ؓ کے اس طریق کار اور پالیسی کی صحت پر دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عراق کی زمینوں کے متعلق اختیار کیا تھا۔ نیز یہ کہ انہوں نے ان زمینوں پر جو خراج عائد کیا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا ایسا حق ہے جس کی ادائیگی واجب تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے سواد عراق کے متعلق حضرت عمر ؓ کی جس پالیسی کا ذکر کیا ہے اس پر اجماع نہیں ہوا تھا کیونکہ حبیب بن ابی ثابت وغیرہ سے ثعلبہ بن یزید الجمانی سے روایت کی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت علی ؓ کے پاس دیوان خانے میں گئے۔ حضرت علی ؓ نے ان سے فرمایا اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے لگ جائو گے تو میں عراق کی ساری دیہی زمینیں تمہارے درمیان تقسیم کردیتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سلسلے میں حضرت علی ؓ کے متعلق جو درست روایت ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عمر ؓ کو سواد عراق تقسیم نہ کرنے اور وہاں کے باشندوں کو ان زمینوں پر برقرار رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس لئے حضرت علی ؓ سے معترض نے جو روایت نقل کی ہے وہ اس پس منظر میں درست نہیں معلوم ہوتی۔ اس لئے کہ انہوں نے جب لوگوں کو خطاب کرکے یہ بات کہی تھی وہ یا تو وہی تھے جنہوں نے سواد عراق کو فتح کیا تھا اور اس بناء پر وہ اس کی ملکیت اور تقسیم کے حق دار بن گئے تھے اور امام المسلمین کو اس بارے میں کوئی اختیار نہیں تھا یا مخاطب وہ لوگ تھے جنہوں نے سواد عراف کو فتح نہیں کیا تھا یا حضرت علی ؓ نے لشکر کو یہ بات کہی تھی جس میں ملے جلے لوگ تھے، یعنی وہ بھی جو عراق کی فتح میں شریک تھے اور وہ بھی جو اس میں شریک نہیں تھے۔ اب جو لوگ فتح میں شریک نہ ہوئے ان سے یہ بات کہنی درست ہی نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ مال غنیمت غانمین کے سوا دوسروں کو دے دیا جائے۔ اور غانمین کو اس سے خارج کردیا جائے یا یہ کہ ان میں ملے جلے لوگ ہوں یعنی ایسے بھی جو فتح میں شریک ہوکر غنیمت کے حق دار بنے تھے اور ایسے بھی جو فتح میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ یہ بھی پہلی صورت کی طرح ہے کیونکہ جو لوگ فتح میں شریک نہ ہوئے ہوں ان کے لئے مالی غنیمت میں حصہ مقرر کرنا اور مال غنیمت کو ان کے اور شریک ہونے والوں کے درمیان تقسیم کردینا سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ یا یہ کہ حضرت علی ؓ نے یہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو سواد عراق کی فتح میں شریک تھے دوسرے لوگ ان میں شامل نہیں تھے۔ اگر یہ بات اس طرح تھی اور یہی لوگ سوادعراق کے حق دار تھے، دوسرے نہیں تھے۔ نیز امام المسلمین کو اس بارے میں کوئی اختیار بھی نہ تھا تو پھر اس صورت میں حضرت علی ؓ کے لئے ان لوگوں کا حق دوسروں کو دے دینا جائز ہی نہ تھا۔ تاکہ اس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کی گردن اتارنے پر آمادہ ہوجاتے کیونکہ حضرت علی ؓ کے تقویٰ اور پرہیزگاری سے یہ توقع ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ جس حق کی حفاظت اور نگرانی کا فریضہ آپ پر عائد تھا اس میں کوتاہی کرتے ہوئے آپ وہ حق غیر مستحق کے قبضے میں چلے جانے کی اجازت دے دیتے۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے صرف ان لوگوں کو مخاطب نہیں بنایا تھا جنہوں نے سواد عراق کو فتح کیا تھا۔ اس خطاب کی صرف ان لوگوں کے ساتھ تخصیص نہیں تھی بلکہ دوسرے بھی اس میں شامل تھے اور یہ یبات اسی روایت کے فساد کی دلیل ہے۔ مفتوحہ زمینوں کی ملکیت کے متعلق درج بالا سطور میں ہمارے بیان کردہ اصول کے ثبوت کے بعد نیز حضرت عمر ؓ اور تمام صحابہ کرام سے اس روایت کی صحت کے بعد جس کے مطابق آپ نے سواد عراق تقسیم نہیں کیا تھا بلکہ وہاں کے باشندوں کو ان زمینوں پر برقرار رکھ کر ان پر خراج عائد کردیا تھا، حضرت عمر ؓ کے انتظام کی نوعیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگ تو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے ان لوگوں کو ان کی ملکیتوں پر برقرار رہنے دیا تھا، ان کے اموال ان کے قبضے میں رہنے دیے تھے اور انہیں غلام قرار نہیں دیا تھا۔ یہی وہ بات ہے جو ہم نے اس سلسلے میں اپنے اصحاب کے مسلک کے متعلق بیان کی ہے۔ کچھ دوسرے حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آپ نے ان لوگوں کو ان کی اراضی پر اس شرط کے ساتھ برقرار رکھا تھا کہ یہ لوگ اپنی اراضی سمیت مسلمانوں کے لئے فئے تھے اور انہیں ان کی زمینوں کی ملکیت حاصل نہیں تھی۔ بعض دوسرے حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آپ نے انہیں آزاد قرار دے کر ان کی زمینوں پر برقرار رکھا تھا اور ان کی زمینیں مسلمانوں کے مصالح کی خاطر وقف تھیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اہل سواد میں سے جو شخص مسلمان ہوجاتا وہ آزاد ہوتا اور کوئی شخص اسے غلام نہیں بناسکتا تھا۔ حضرت علی ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آپ کے عہد خلافت میں ایک دہقان یعنی زمیندار مسلمان ہوگیا تو آپ نے اس سے فرمایا تھا کہ اگر تم اپنی زمین پر قابض رہنا چاہو تو ہم تم سے جزیہ ہٹالیں گے اور تمہاری زمین سے جزیہ یعنی خراج لیں گے اور اگر تم اپنی زمین چھوڑ جائو گے تو ہم اس زمین کے زیادہ حق دار ٹھہریں گے۔ اسی قسم کی روایت حضرت عمر ؓ کے متعلق بھی ہے۔ نہرالملک کے علاقے کی ایک زمیندار فی جب مسلمان ہوگئی تو آپ نے اس سے یہی بات فرمائی تھی۔ اگر سواد عراق کے باشندے غلام ہوتے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے ان سے غلامی زائل نہ ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان دونوں حضرات نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم اپنی زمین چھوڑ جائو تو ہم اس زمین کے زمین حق دار قرار پائیں گے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قول سے ان دونوں حضرات کا دراصل مقصد یہ تھا کہ اگر وہ اپنی زمینوں کو آباد رکھنے سے عاجز رہیں تو ہم انہیں آبادکریں گے اور فصلیں کاشت کریں گے تاکہ ان زمینوں پر واجب ہونے والے مسلمانوں کے حقوق یعنی خراج معطل ہوکر رہ جائیں۔ ہمارے نزدیک امام المسلمین ان لوگوں کو اراضی کے متعلق یہی اقدام کرے گا جو انہیں آبا د کرنے سے عاجز ہوجائیں۔ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل سواد میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں وہ آزاد ہوں گے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ان کے اراضی بھی ان کی ملکیت کے تحت ہوں گی جس طرح ان کی گردنیں اصل حالت یعنی آزادی پر برقرار رکھی گئی تھیں۔ ہمارے مخالفین کے نزدیک امام المسلمین کے لئے جس بنا پر یہ بات جائز ہے کہ وہ ان کی گردنوں سے غانمین کے حق کو منقطع کرکے ان کی زمینوں کو مسلمانوں کے لئے وقف کردے اور ان زمینوں کا خراج مسلمانوں کے مصالح میں صرف کرے اسی بنا پر اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ ان زمینوں پر ان کی ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا خراج مسلمانوں کے مصالح میں صرف کرے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان زمینوں سے ان پر قابضین کی ملکیت کی نفی کردیں جبکہ مسلمانوں کو ان زمینوں کی ملکیت کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ دولتوں حالتوں میں مسلمانوں کو صرف وہاں کے خراج پر حق حاصل ہوتا ا ہیں ان زمینوں کی ملکیت کا حق حاصل نہ ہوتا۔ یحییٰ بن آدم نے حسن بن صالح کی طرف سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے تو یہ سن رکھا ہے کہ جس مال پر مسلمان قتال کے ذریعے بزور شمشیر غالب آجائیں وہ مال غنیمت کہلاتا ہے اور جو مال صلح کی بنا پر حاصل ہو وہ فئے کہلاتا ہے۔ رہ گیا سواد عراق کا مسئلہ تو ہم نے اس کے متعلق سن رکھا ہے کہ پہلے نبطیوں کے قبضے میں تھا پھر اہل فارس اس پر قابض ہوگئے اور نبطی انہیں خراج ادا کرتے رہے۔ جب اہل فارس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو انہوں نے سواد عراق کی نیز جنگ نہ کرنے والے دہقانوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے مردوں پر جزیہ عائد کردیا اور ان کے قبضے میں جو زمینیں تھیں ان کی پیمائش کرکے ان پر خرا ج عائد کردیا۔ جو زمین کسی کے قبضے میں نہیں تھی اس پر خود قبضہ کرلیا اور یہ زمین امام المسلمین کے لئے ” صفی “ (مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے امام المسلمین اپنے لئے اس میں سے جو چیز الگ کرے وہ صفی کہلاتی ہے) بنی گئی۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حسن بن صالح نے گویا یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اہل فارس کی مملکت میں نبطی لوگ آزاد شہریوں کی حیثیت سے رہتے تھے اس لئے ان کی زمینوں پر ان کی ملکیت بحال تھی۔ پھر جب مسلمان اہل فارس یعنی ایرانیوں پر غالب آگئے اور ان ایرانیوں نے ہی مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا۔ نبطیوں نے مقابلہ نہیں کیا تھا تو ان کی زمینیں اور گردنیں اسی حالت پر باقی رہنے دی گئیں جس پر یہ ایرانیوں کے زمانے میں تھیں۔ چونکہ ان نبطیوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصہ نہیں لیا تھا اس لئے ان کی زمینیں اور گردنیں صلح کی بنا پر حاصل ہونے والی زمینوں کے معنی میں ہوگئیں۔ البتہ اگر یہ مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیتے تو اس صورت میں مسلمان ان کی زمینوں اور گردنوں کے مالک بن جاتے۔ حسن بن صالح کی یہ توجیہ اس صورت میں احتمال کے درجے میں قابل قبول ہوسکتی تھی۔ اگر حضرت عمر ؓ اپنے ان رفقاء کے مقابلہ میں جنہوں نے آپ سے سواد عراق کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا کتاب اللہ کی دلالت سے استدلال نہ کرتے۔ حضرت عمر ؓ نے جو استدلال کیا تھا وہ حسن بن صالح کی بیان کردہ توجیہ سے بالکل مختلف تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر ؓ نے سواد عراق کی اجارہ کے طور پر وہاں کے باشندوں کے حوالے اس لئے کردیا تھا کہ غانمین نے بطیب خاطر اس بات کو قبول کرلیا تھا۔ اجرت کو خراج کا نام دیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الخراج بالضمان خراج یعنی اجرت اور آمدنی کا استحقاق تاوان کی ذمہ داری کی بنیاد پر ہوتا ہے) آپ کی اس سے مراد خرید شدہ غلام کی اجرت ہے جب اسے عیب کی بنا پر واپس کردیا جائے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات کنی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے سواد عراق پر خراج عائد کرنے اور اسے غانمین کے درمیان تقسیم نہ کرنے کے سلسلے میں غانمین کی رائے اور ان کی رضامندی معلوم نہیں کی تھی۔ بلکہ آپ نے صرف صحابہ کرام سے مشورہ کیا تھا اور جن حضرات نے تقسیم کا مطالبہ کیا تھا ان کے سامنے اپنی بات کو دلائل سے واضح کردیا تھا۔ اگر حضرت عمر ؓ غانمین کی رضامندی اور ان کی خوشی معلوم کرتے تو یہ بات بھی روایات کے ذریعے اسی طرح منقول ہوتی ہے جس طرح رفقاء کے ساتھ آپ کی بحث واستدلال اور مراجعت منقول ہوئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات منقول ہوئی ہے اور اس کا ذکر بھی ہے۔ اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” ہم لوگوں کے سردار تھے۔ ہمیں حضرت عمر ؓ نے سواد عراق کا چوتھائی عطا کیا تھا۔ ہم تین سالوں تک یہ چوتھائی ادا کرتے رہے۔ پھر جریر حضرت عمر ؓ کے پاس آئے ، آپ نے ان سے کہا : ” بخدا اگر میں تقسیم کرنے والا نہ ہوتا اور اس تقسیم کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو تم لوگ اسی طرح چوتھائی وصول کرتے رہتے جس طرح پہلے وصول کرتے رہے لیکن اب میرا خیال یہ ہے کہ تم لوگ اسے مسلمانوں کو واپس کردو۔ “ چنانچہ جریر نے ایسا ہی کیا اور حضرت عمر ؓ نے انہیں انعام کے طور پر اسی دینار دیے۔ پھر ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی امیر المومنین ! میری قوم نے آپ کے ساتھ ایک بات پر مصالحت کرلی ہے لیکن میں اس مصالحت پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوں گی جب تک آپ میری مٹھی سونے سے نہ بھردے گے، ایک نرم رفتار اونٹ اور ایک سرخ رنگ کی جھالردار چادر نہ دیں گے۔ چناچہ حضرت عمر ؓ نے یہ چیزیں اس عورت کو دے دیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں یہ دلیل موجود نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے انہیں زمینوں کی ملکیت بھی عطا کردی تھی۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے انہیں پہلے خراج کا چوتھائی عطا کیا تھا بعد میں یہ مناسب سمجھا کہ انہیں خراج کی بجائے صرف ان کے وظائف دیے جائیں جو تمام لوگوں کو دیے جاتے تھے تاکہ سب کے ساتھ یکسانیت کا برتائو ہوجائے۔ یہاں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان لوگوں کی رضامندی حاصل کرکے یہ قدم اٹھایا تھا جب کہ آپ نے یہ واضح کردیا تھا کہ آپ کی رائے میں ان سے اب یہ مراعات واپس لے کر مسلمانوں پر لوٹا دی جائے اور یہ بھی واضح کردیا تھا کہ آپ کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ آپ کے خیال میں یہ بات مسلمانوں کے حق میں بہتر اور زیادہ سود مند تھی۔ رہ گیا عورت کا معاملہ تو آپ نے یہ چیزیں اسے بیت المال سے دی تھیں کیونکہ آپ کے لئے ایسا کرنا جائز تھا ۔ آپ لوگوں کے قبضے سے سواد عراق کا خراج وغیرہ واپس لئے بغیر بھی انہیں بیت المال سے دے سکتے تھے۔ معترض کا یہ کہنا کہ خراج اجرت ہے کئی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اجارہ اگر ایک مدت کے لئے ہو تو جب تک مدت معلوم نہ ہو یہ درست نہیں ہوتا۔ نیز اہل سواد یا تو غلام تھے یا آزاد ، اگر غلام تھے تو آقا کا اپنے غلام سے اجارہ کرنا جائز نہیں ہوتا اور اگر آزاد تھے تو پھر کیسے جائز ہوگیا کہ ان کی گردنیں تو اصل جزیہ پر رہنے دی جاتیں اور ان کی اراضی ان کی ملکیت میں نہ رہنے دی جاتی۔ نیز اگر وہ غلام ہوتے تو ان کی گردنوں کا جزیہ لینا جائز نہ ہوتا۔ کیونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غلاموں پر کوئی جزیہ نہیں ہوتا۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کھجور اور دوسرے درختوں کا اجارہ جائز نہیں ہوتا جبکہ حضرت عمر ؓ نے کھجور کے درختوں نیز دوسرے اشجار کا خراج وصول کیا تھا جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ خراج اجرت نہیں ہے۔ خراجی زمین اور اس کا اجارہ خراجی زمین کی خرید اور اسے اجارہ پر لینے کے جواز کے بارے میں فقہا، کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اوزاعی کا بھی یہی قول ہے امام مالک نے کہا ہے کہ میں خراجی زمین اجارہ پر لینے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ شریک نے بھی خراجی زمین کی خریداری کو مکرو سمجھا ہے انہوں نے کا ہے کہ خراجی زمین خرید کہ اپنی گردن پر ذلت نہ سوار کرلو۔ طحاوی نے ابن ابی عمران سے اور انہوں نے سلیمان بن بکار سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے المعانی بن عمران سے خراجی زمین میں فصل کاشت کرتے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے منع کردیا۔ اس پر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ خو د خراجی زمین میں کاشت کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا، بھتیجے ! برائی کی بات میں تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کوئی مسلمان خراجی زمین کرایہ پر لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس طرح ان کے جانوروں کو کرایہ پر لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ امام شافعی نے یہ کہا ہے کہ حضور ﷺ کی حدیث (لا ینبغی لمسلم ان یودی الخراج ولا لمشرک ان یدخل المسجد الحرام کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ خراج ادا کرے اور کسی مشرک کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ مسجد حرام میں داخل ہوجائے) میں جزیہ کا خراج مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے خراجی زمین خریدی تھی، حضرت ابن مسعود ؓ کے واسطے سے حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لاتت نروا الضیعۃ فترغبوا فی الدنیا زمینیں حاصل نہ کرو کہ پھر تمہیں دنیا سے رغبت پیدا ہوجائے گی ) حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا تھا۔” رازان کی بات رازان میں ہے اور مدینہ کی بات مدینہ میں ہے۔ “ حضرت ابن مسعود ؓ کی راذان میں زمین تھی اور رازذان خراج کا علاقہ تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضرت علی ؓ کے بیٹوں حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ نے سواد عراق میں زمینیں خریدی تھیں۔ یہ بات دو معنوں پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ یہ زمینیں وہاں آباد لوگوں کی ملکیت تھیں اور دوسری بات یہ کہ مسلمان کے لئے ان کی خریداری مکروہ نہیں تھی۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے اہل خراج میں سے مسلمان ہوجانے والوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر یہ اپنی زمینوں پر آباد رہیں تو ان کی زمینوں سے خراج وصول کیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ذمیوں کی زمین کی خریداری کو ناپسند کیا تھا۔ انہوں نے یہ کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ذمی کافر کے گلے میں جو چیز لٹکادی ہے اسے اپنے گلے میں نہ لٹکائو۔ “ حضرت ابن عمر ؓ سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔ ان کا قول ہے۔” اپنے گلے میں ذلت کو آویزاں نہ کرو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زمین کا خراج ذلت نہیں ہے کیونکہ ہمیں سلف کے مابین اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر ذمی کے قبضے میں خراجی زمین ہو اور وہ مسلمان ہوجائے تو اس کی زمین سے خراج بدستور وصول کیا جائے گا۔ البتہ اس کے سر سے جزیہ ختم ہوجائے گا۔ اگر خراج میں ذلت ہوتی تو اسلام لانے کی وجہ سے اس سے خراج ساقط ہوجاتا ۔ حضور ﷺ کا ارشاد (منعت العواق قفیزھا ودرھمھا عراق نے اپنے قفیر (ایک پیمانہ) اور اپنے درہم کی ادائیگی روک دی) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر بھی واجب ہے کیونکہ آپ نے یہ بتایا کہ مسلمان مستقبل میں اللہ کا حق ادا کرنے سے باز رہیں گے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے (وعدتم کما بداتم اور پہلی حات کی طرف لوٹ گئے ) ذلت مسلمانوں پر واجب نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلمانوں کی طرف سے کافروں پر واجب ہوتی ہے۔ قول باری (والذین تبو و الداروالایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ۔ اور ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے اور یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں) یعنی …واللہ اعلم …جو کچھ اللہ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فئے دلوائے وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا اور ان لوگوں کا جوان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یعنی انصار مدینہ۔ حضرات مہاجرین اگرچہ حضرات انصار سے پہلے اسلام لے آئے تھے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو حضرات مہاجرین کی ہجرت سے پہلے دارالاسلام اور ایمان میں قرار پکڑے ہوئے تھے اور یہ حضرات انصار تھے۔
Top