Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کردیے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں۔
استحقاق مہاجرین وانصار ومحبین و مخلصین صحابہ کرام کرام ؓ درمال فئی : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” للفقرآء المھجرین الذین اخرجوا ...... الی ...... انک رء وف رحیم “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں بنو نضیر کی جلاوطنی کا ذکر تھا اور یہ کہ ان کے اموال جو بطور فئی حاصل ہوئے ہیں ان کا متولی و متصرف کلیۃ اللہ نے اپنے پیغمبر کو بنایا پیغمبر ہی کو ان پر تسلط و غلبہ عطا کیا گیا اب ان ہی کے اختیار میں ہے کہ جس کو چاہیں اور جتنا چاہیں عطا کریں کسی کو اس میں ذرہ برابر نکتہ چینی کا حق نہیں، اور اللہ نے ان اموال کے مستحق، ذوی القربی، یتامی و مساکین اور اب السبیل بنائے ہیں ان مصارف کے ذکر کے بعد خاص طور پر اب ان آیات میں مہاجرین وانصار اور حضرات مہاجرین وانصار سے محبت رکھنے والوں کا استحقاق بیان کیا جارہا ہے ساتھ ہی مہاجرین وانصار کے ایسے عظیم فضائل اور وہ بلند پایہ قربانیاں ذکر فرمائیں جن کے سامنے ہر شخص گرویدہ ہوجائے جس کے دل میں ادنی درجہ کا بھی ایمان ہو اسی ضمن میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو بھی شخص یا گروہ مہاجرین وانصار سے العیاذ باللہ ثم الیعاذ باللہ بغض رکھتا ہے درحقیقت وہ ایمانی جذبات اور تقاضوں سے قطعا محروم ہے اور بےبہرہ ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو اور اس کو اسلام کی خاطر ہجرت کرنے والوں اور اس کی وجہ سے اپنے وطن جائیدادوں اور خاندانوں کو چھوڑ دینے والے محبوب نہ ہوں اسی طرح وہ شخص بھی ہرگز مومن نہیں ہوسکتا جو ایمان اور پیغمبر خدا کو ٹھکانا دینے اور مدد کرنیوالوں کو محبوب نہ رکھتا ہو تو ارشاد فرمایا۔ یہ مال فئی ان فقراء ومہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکالے گئے انہوں نے اپنی زندگی کی ہر محبوب چیز قربان کی صرف اللہ کا فضل اور رضا مندی چاہتے ہوئے اور اس لیے کہ مدد کریں اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی بیشک یہی لوگ سچے ہیں جن کی صداقت پر انکی بےمثال قربانیاں وجانثاریاں اور اپنے جان ومال سے اللہ اور اس کے رسول کی امداد واعانت کے سورج سے زیادہ روشن دلائل و شواہد ہیں اور اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے ٹھکانا بنایا اس گھر کا یعنی مدینہ منورہ کہ جس میں وہ بستے تھے اور اس سرزمین میں ایمان کو بھی بسایا ان مہاجرین کی مدینہ منورہ آمد سے قبل جن کی حالت یہ ہے کہ محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جو ہجرت کرکے ان کی طرف آئے ہیں نہ صرف محبت بلکہ کمال اخلاق اور بلندی حوصلہ کی نوبت یہاں تک ہے کہ اور اپنے دلوں میں کسی قسم کا حسد اور تنگی بھی محسوس نہیں کرتے اس شرف فضیلت سے کہ جو ان مہاجرین کو دی گئی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان کو فاقہ ہی ہو اور سب پاکیزہ خصلتیں اس بنیاد پر قائم ہیں کہ ان حضرات کے قلوب حرص اور حب مال سے پاک ہیں اور بیشک جو بھی اپنے نفس کی حرص سے بچایا گیا تو بس ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں اور یہ مال فئی ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ان کے بعد آئے، یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے پروردگار مغفرت فرما ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں اور نہ رکھ ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ اور کینہ ایمان والوں کے لیے اے پروردگار اے ہمارے رب بیشک تو بہت ہی نرمی کرنیوالا مہربان ہے۔ تو یہ ہیں مصارف اور مستحقین اموال فئی جن کے اوصاف ایمان واخلاص کے یہ ہونے چاہئیں، سب سے مقدم اور اعلی مستحق مہاجرین وانصار ہیں کیونکہ وہ اصل اسلام کی عمارت ہیں جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کی اور ایمان کو اپنی بستی ” مدینہ پاک “ میں بسایا، پھر ان کے بعد جو لوگ ان کے ساتھ اخلاص و محبت رکھنے والے ہوں ان کی دعائیں دیتے ہوں انکے قلوب ان نفوس قدسیہ سے بغض وحسد سے پاک ہوں وہ مستحق ہوں گے۔ اسی آیت مبارکہ کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ” اوصی الخلیفۃ بعدی بالمھاجرین الاولین ان یعرف لھم حقھم ویحفظ لھم کر امتھم واوصیتہ بالانصار خیرا الذین تبوؤ الدار والایمان من قبل ان یقبل من محسنھم وان یعفوا عن مسیءھم “۔ کہ میں وصیت کرتا ہوں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو اس بات کی کہ مہاجرین اولین کے ساتھ بہتر معاملہ کرے، ان کا حق پہچانے اور ان کی عظمت و کرامت کو محفوظ رکھے اور اسی طرح اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں خیر اور بھلائی کے لیے، یہ لوگ وہ ہیں جو مدینہ کو پہلے سے مرکز ایمان بنا چکے ہیں اور اس بستی میں پہلے ہی انہوں نے ایمان کو بسالیا تھا اس امر کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کی بھلائیاں قبول کرے، (اور ان کو سرا ہے) اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے۔ (صحیح بخاری) (آیت) ” ولایجدون فی صدورھم حاجۃ ممااوتوا “۔ مکارم اخلاق کی بلندی ترین تعلیم ہے۔ مکارم اخلاق کی بلند ترین تعلیم ہے اور انسان کا اصل شرف اسی میں مضمر ہے کہ وہ کسی دوسرے کی فضیلت و برتری پر حسد نہ کرے، اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر (رح) نے انس بن مالک ؓ کی روایت نقل فرمائی کہ انس ؓ نے بیان کیا کہ ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! ابھی ایک شخص اہل جنت میں سے تمہارے سامنے رونما ہوگا، تو ناگہاں ایک انصاری صاحب نظر آئے، سامنے سے آرہے ہیں اور ان کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہیں اور بائیں ہاتھ میں انہوں نے اپنا جوتا لٹکایا ہوا ہے، راوی بیان کرتے ہیں کہ جب آئندہ روز ہوا تو بھی آنحضرت ﷺ نے ایسا ہی فرمایا، اور پھر وہی شخص اسی شان کے ساتھ رونما ہوئے، پھر تیسرا دن ہوا تو بھی آپ ﷺ نے ایسا ہی فرمایا اور پھر وہی شخص اسی طرح سامنے سے آئے، آنحضرت ﷺ جب مجلس سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ان صاحب کے پیچھے پیچھے چلے اور ان سے الحاح واصرار سے درخواست کی کہ مجھے اپنے ساتھ تین روز رہنے کی اجازت دے دیں انہوں نے اس کو منظور کرلیا، تو عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ساتھ تین راتیں گزاریں تو کوئی خاص قابل حیرت عمل نہ دیکھا بجز اس کے کہ رات کو آرام کرکے کچھ حصہ عبادت میں گزارتے اور پھر صبح کے لیے اٹھ جاتے، تین راتیں گزارنے پر میں نے ان سے دریافت کیا کہ اے بندۂ خدا میں نے تین روز تک رسول اللہ ﷺ سے اس طرح سنا جس کے باعچ تجسس میں رہا کہ دیکھوں تمہارا خاص عمل کیا ہے لیکن میں نے تمہارا کوئی حیرت ناک عمل نہیں دیکھا، اس پر ان صاحب نے جواب دیا بس میرے پاس یہی کچھ ہے جو تم نے دیکھا، بیان کرتے ہیں کہ جب واپس ہونے لگا تو مجھ کو پکارا اور فرمایا، اے بندہ خدا میرے پاس بیشک کوئی خاص عمل تو نہیں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ میں کسی شخص سے کوئی حسد اور دل میں قطعا کوئی بغض نہیں رکھتا، عبداللہ بن عمرو ؓ اس کو سن کر فرمانے لگے بس یہی تو وہ خوبی ہے جس کی ہر شخص طاقت نہیں رکھتا، 1 حاشیہ (تفسیر ابن کثیر ج 4۔ ) حسن بصری (رح) سے بھی یہی منقول ہے۔ (آیت) ” یحبون من ھاجر “۔ کا تو یہ مقام تھا کہ مہاجرین جب مدینہ منورہ آئے تو انصار نے کہا اے ہمارے مہاجر بھائیو ! آجاؤ ہم اپنا مال زمینیں نصف نصف برابر اپنے اور تمہارے درمیان تقسیم کرلیں حتی کہ کسی کے پاس دو بیویاں تھیں وہ کہنے لگا میں ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تاکہ تم اس سے شادی کرلو جو تم کو مناسب معلوم ہوبتاؤ اس ایثار واخوت کی دنیا میں ظاہر ہے کیا مثال مل سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ مہاجرین نے بھی عزت نفس اور استغناء کا وہ ثبوت پیش کیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے، فرمایا خدا تعالیٰ تمہارے مال تمہیں مبارک فرمائے بس آپ لوگ ہمیں بازار بتا دو یعنی تعارف کرادو ہم محنت ومشقت سے کما لیں گے۔ (آیت) ” ویؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ “۔ کی تفسیر میں حضرات مفسرین (رح) نے وہ معروف روایت بیان کی ہے کہ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں فاقہ کی مشقت میں مبتلا ہوں میری مدد فرمائیے۔ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کے حجروں کی طرف کسی کو بھیجا شاید کچھ مل جائے لیکن کچھ نہ مل سکا آپ ﷺ نے فرمایا ہے کوئی ایسا شخص جو آج رات اس کی مہمانی کرسکے تو ایک انصاری شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں حاضر ہوں اور اپنی اہلیہ کی طرف گئے اور بتایا کہ یہ صورت حال ہے، اہلیہ نے کہا آج تو بس بچوں ہی کے کھانے کے بقدر ہے اس کے سوا کچھ نہیں، انصاری نے کہا جب رات ہو تو بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دینا اور پھر جب مہمان کھانے پر بیٹھے تو چراغ بجھا دینا تاکہ یہ بات مہمان کو نظرنہ آسکے کہ ہم نہیں کھا رہے ہیں چناچہ ایسا ہی کیا صبح کو جب یہ صحابی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کو اس مرد اور عورت کی یہ بات بہت ہی پسند آئی اور ان ہی کے متعلق اس نے یہ فرمایا (آیت) ” ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ “۔ 2 حاشیہ (صحیح بخاری، مسلم، نسائی، 12) یہ صحابی ابوطلحہ ؓ تھے، ایسا ہی وہ مشہور قصہ ہے جو جنگ یرموق میں پیش آیا تھا کہ چند زخمی لب دم تھے، ان میں سے جس کسی کے سامنے پانی لایا گیا اس نے یہ چاہا کہ بجائے میرے یہ پانی میرا بھائی پی لے اور اس کی جان بچ جائے تو اچھا ہے، ہر ایک دوسرے کی طرف لوٹا تا رہا کسی نے بھی نہ پیا اور سب کے سب اسی طرح پیاس میں تڑپتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنھم وارضاھم) ذوی القربی یتامی اور ابن السبیل میں مستحقین فئی کی قسم اول فقراء ومہاجرین : (آیت) ” مآافآء اللہ علی رسولہ “۔ میں عمومی طور پر ان اصناف و اقسام کا مال فئی میں استحقاق بیان فرمانے کے بعد ان مستحقین میں سب سے اعلی اور مقدم جو گروہ ہے اس کو ذکر فرمایا جارہا ہے کہ وہ فقراء مہاجرین کا گروہ ہے ان کے اوصاف میں سب سے پہلے تو انکی مظلومیت کو (آیت) ” اخرجوا من دیارھم “۔ سے ظاہر فرمایا گیا کہ ان کو ان کے مکانوں سے نکالا گیا اور ان کے اموال ضائع کیے گئے، پھر یہ مظلومیت ان کی محض اللہ کی رضا کے لیے واقع ہوئی تو جس طرح ہر مظلوم کے لیے خواہ وہ کسی طرح بھی مظلوم ہوہمدردی اور اعانت کا جذبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے چہ جائیکہ وہ مظلوم اللہ کی راہ اور اس کی رضا تلاش کرتے ہوئے مظلوم ہوا ہو تو اس فرد پر جس کو خدا سے ذرہ برابر بھی تعلق ہے، ضروری ہے کہ وہ ان مظلومین کے ساتھ ہمدردی اور مدد کے لیے پوری طرح مستعد ہوجائے، مزید برآں یہ مظلوم باوجود مظلوم وبے سہارا ہونے کے وہ ہیں جنہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مدد کی اور اسی جرم میں ان کو ان کے مالوں اور گھروں سے نکالا گیا مظلومیت اخلاص اور اللہ و رسول کی نصرت کے علاوہ ان کے کردار اور مجموعہ عملی زندگی نے یہ ثابت کیا کہ وہ راست باز اور سچے ہیں اور جب وہ لوگ (آیت) ” اولئک ھم الصادقون “۔ کا مصداق ہیں تو ہر ایمان وتقوی والے پر یہ حکم خداوندی عائد ہوتا ہے ، (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین “۔ اس کی تعمیل میں ہر صاحب ایمان کو ان صادقین کے ساتھ ہوجانا ضروری ہے جن کے صادق ہونیکا اعلان خداوند عالم نے فرمادیا۔ مستحقین کی قسم دوئم انصار اور ان کی خصوصیات : استحقاق مہاجرین کے بعد انصار کا استحقاق اور ان کے اوصاف میں سب سے پہلے (آیت) ” تبوؤ الدار والایمان من قبلھم “۔ کا وصف بیان فرمایا کہ انہوں نے ایمان واسلام کو اپنے شہر مدینہ میں ٹھکانہ دیا، دوسری صفت یہ کہ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں، تیسری صفت یہ کہ حسد سے ان کے قلوب پاک ہیں کہ مہاجرین کو جو شرف وفضل ملا اس پر ذرہ برابر حسد یا ملال نہیں، چوتھی، صفت (آیت) ” ویؤثرون علی انفسھم “۔ کہ اپنے اوپر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں خواہ وہ فقروفاقہ میں مبتلا ہوں اور پانچویں صفت یہ کہ وہ مال کی حرص سے منزہ ہیں اور ظاہر ہے کہ یہی اوصاف رشد و فلاح کے ضامن ہیں، لہذایہ گروہ مفلحین اور کامرانوں کا ہوا۔ قسم سوم عام اہل اسلام : (آیت) ” والذین جآء وا من بعدھم “۔ میں گروہ مہاجرین وانصار کے بعد عامۃ المسلمین کو بیان فرمایا کہ وہ مال فئی کے مستحق ہیں اور اس تیسری جماعت کو مال فئی میں حصہ ملنے کے اوصاف ووجوہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ سابقین اولین اور مفلحین کی توقیر وتعظیم کریں ان کے دعائے مغفرت کریں اور ان کے دل میں ان حضرات صحابہ کی طرف سے کسی قسم کی کدورت یا بغض نہ ہو، ان اوصاف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس کسی کے دل میں مہاجرین وانصار کی عظمت و محبت و خیرخواہی کا جذبہ نہ ہو بلکہ بعض ونفرت یا تکدریا طعن وتشنیع اور تحقیر وتوہین ہو، وہ کبھی ان حقوق میں شامل نہیں ہوسکتا جو حقوق اللہ رب العزت نے اہل اسلام کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ان آیات کو تلاوت کرکے فرمایا کرتے خدا کی قسم جو شخص مہاجرین کی طرف سے کدورت رکھتا ہو وہ ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں ہوسکتا۔ 1 جن کو اس آیت میں بیان کیا گیا اور حق تعالیٰ شانہ نے مدح فرمائی۔ چناچہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ (رح) ” منہاج السنۃ “ جلد اول میں ان آیات کا ذکر کرکے لکھتے ہیں۔ وھذہ الایات تتضمن الثناء علی المھاجرین والانصار وعلی الذین جاء وامن بعدھم یستغفرون لھم ویسئلون اللہ عزوجل ان لایجعل فی قلوبھم غلالھم، وتتضمن ان ھؤلاء الاصناف ھم المستحقون للفئی۔ ولاریب ان ھؤلاء الرافضۃ خارجون عن الاصناف الثلثۃ فانھم لم یستغفروا للسابقین وفی قولبھم غل علیھم۔ ففی الآیات الثناء علی الصحابۃ وعلی اھل السنۃ الذین یتولونھم واخراج الرافضۃ من ذلک، وھذا ایفتض مذھب الرافضۃ۔ اور یہ آیتیں مہاجرین وانصار کی مدح پر مشتمل ہیں اور ان لوگوں کی بھی تعریف پر مشتمل ہیں جو انصار ومہاجرین کے بعد آئیں گے اور یہ بعد میں آنیوالے سابقین اولین کے لیے دعاء مغفرت کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمارے دلوں کو مہاجرین وانصار کے کینہ سے بالک پاک وصاف رکھ، نیز ان آیات میں یہ مضمون بھی ہے کہ مال فئی کی مستحق یہ تین جماعتیں ہیں (ان کے سوا اور کسی کا اس میں استحقاق نہیں) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضی ان تینوں قسموں سے خارج ہیں اس لیے کہ وہ مہاجرین وانصار کے لیے دعاء مغفرت نہیں بلکہ ان کے دلوں میں تو مہاجرین وانصار کا کینہ بھرا ہوا ہے، تو ان آیات میں صحابہ کرام کی فضیلت ومدح ہے اور اسی طرح اہلسنۃ کی مدح ہے جو صحابہ کرام سے محبت رکھتے ہیں اور یہ آخری قید رافضیوں کے مذہب کو بالکل چاک کردیتی ہے۔ اور ان کے اس عیب وخبث کی پردہ دری کررہی ہے ان کے سینوں میں بھرا ہوا ہے، اللہم جنبنا عن کل رفض وسوٓء واملاقلوبنا عن حب اصحب نبیک ﷺ وعلی الہ و اصحابہ ...... اجمعین “۔ مستحقین ومصارف مال فئی : حق تعالیٰ شانہ نے مال فئی کے مصارف اور ان کا استحقاق بیان فرمانے کے لیے ارشاد فرمایا، (آیت) ” مآافآء اللہ علی رسول من اھل القری فللہ وللرسول الخ۔ یہ عنوان بالکل اسی طرح ہے جیسے مال غنیمت کے مصارف ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ (آیت) ” واعلموآانماغنمتم من شیء فان للہ خمہ وللرسول “۔ الخ وہاں بھی تین لام ہیں، لام کلام عرب میں استحقاق کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ متعلق کے فرق سے استحقاق کی صورتوں میں بھی فرق ہوگا، اللہ کے لیے مال عنیمت اور مال فئی ہونا ملکیت کے معنی ظاہر کررہا ہے، کیونکہ اللہ ہی مالک الملک اور حقیقی مالک ہے اور للرسول میں تولیت کا مفہوم ادا کررہا ہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے ان اموال کے اصل متولی رسول اللہ ﷺ ہیں مالک حقیقی کی امانت کو بطور امانت ونیابت صرف کرنے کا حق آپ کو امانت ونیابت صرف کرنے کا حق آپ کو حاصل ہے کہ آپ مالک حقیقی کے حکم کے مطابق خرچ فرمائیں گے اور لذی القربی “ ، کالام صرف محل صرف ہونا ظاہر کررہا ہے کہ مال فئی کے یہ مستحق اور مصرف ہیں۔ حضرت ولی قدس سرۂ ازالۃ الخفاء میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ مال فئی اللہ اور اس کے رسول کے اور قرابت داروں یتیموں اور مسافروں کے لیے ہے، فللہ میں خدا کی مالکیت کا بیان ہوا اور للرسول کا مطلب یہ ہوا کہ آپ رسول خدا ہیں۔ خدا کے کام میں لگے ہوئے ہیں، ان کو اتنی فرصت نہیں کہ کمائیں اور اطمینان سے بیٹھ کر کھائیں تو جب وہ خدا کے کام میں لگے ہوئے ہیں تو بمتقتضائے قدر شناسی رسول کانان ونفقہ بھی خدا ہی کے ذمہ ہونا چاہئے اس سے بہتر اور کیا صورت ہوسکتی ہے کہ جو مال خاص خدا کا دیا ہوا ہے اور بغیر منت غیر حاصل ہوا اس میں سے کچھ اس پروردگار کے رسول کے لیے تجویز کیا جائے اور یتیم ومسکین اور ابن السبیل اس وجہ سے کہ ان سے اسباب رزق منقطع ہوئے ہیں مورد رحم ہیں تو ان کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو دینے کا حکم دیا گیا خواہ وہ ذوی القربی ہوں یا ان کے علاوہ ، اس کے بعداللہ رب العزت نے فرمایا، فقراء مہاجرین وانصار اور ان کے متبعین اور ان مہاجرین سے محبت رکھنے والوں کے لیے جن کی کوئی تحدید نہیں بلکہ انکے بعد آنے والے ان مومنین کے لیے جو ان حضرات کو واسطے دعاء مغفرت کرتے ہوں اور ان کے دلوں میں مہاجرین وانصار کے لیے بےپناہ جذبات محبت و عظمت ہوں۔ مالک بن اوس بن حدثان ؓ سے۔ 1 حاشیہ (صحیح بخاری، تفسیر روح المعانی، تفسیر ابن کثیر) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ فاروق اعظم ؓ نے آیت مبارکہ (آیت) ” انما الصدقات للفقرآء والمساکین والعاملین علیھا ..... علیم حکیم “۔ تک تلاوت کی اور فرمایا یہ آیت مصارف صدقات کو بیان کررہی ہے اور وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو صدقات کے مستحق ہیں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” واعلموآ انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل “۔ اور فرمایا اس آیت نے ان لوگوں کو بیان کیا ہے جو مال غنیمت کے مستحق ہیں اس کے بعد سورة حشر کی یہ آیت تلاوت کی۔ (آیت) ” مآ افآء اللہ علی رسولہ من اھل القری ....... الی ....... للفقرآء المھاجرین “۔ اور فرمایا کہ یہ آیت مال فئی میں مہاجرین کا حق بیان کررہی ہے، پھر آیت ”۔ والذین تبوؤالدار والایمان من قبلھم “۔ پڑھ کر فرمانے لگے کہ اس آیت نے مال فئی میں انصار کا حق بیان کیا ہے اور اخیر میں (آیت) ” والذین جآء وا من بعدھم “۔ پڑھ کر فرمانے لگے کہ اس آیت نے تمام مسلمانوں کا احاطہ کرلیا ہے، جس سے ثابت ہوگیا کہ بیت المال اور مال فئی میں ہر مسلمان انصار کا حق بیان کیا ہے اور اخیر میں (آیت) ” والذین جآء وا من بعدھم “۔ پڑھ کر فرمانے لگے کہ اس آیت نے تمام مسلمانوں کا احاطہ کرلیا ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ بیت المال اور مال فئی میں ہر مسلمان کا حق ہے، اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھ لینا کہ ایک چرواہے کا حق بھی اس کے گھر پہنچا کرے گا بغیر اس کے کہ اس کی پیشانی پر پسینہ بھی آئے ہر مسلمان کا حق اس تک پہنچ کررہے گا خواہ وہ کسی بھی دور دراز مقام پر ہو۔ ، مافئی اور مال غنیمت میں فرق : مال فئی شریعت کی اصطلاح میں اس مال کو کہا جاتا ہے جو کافروں کے قبضہ سے مسلمانوں کو بغیر جہاد اور قتال کے حاصل ہوجائے کفار محض رعب سے یا صلح کرکے ان اموال اور علاقوں سے دست بردار ہوجائیں تو ان اموال کو فئی کہا جائے گا۔ مال غنیمت وہ ہے جو جہاد و قتال کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہو اور مسلمانوں کی جانفشانیوں سے ملے پہلا مال یعنی مجاہدین کو ان کی سعی اور کوشش کے بغیر محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اس وجہ سے اللہ نے اس میں تصرف کا حق کلیۃ اپنے پیغمبر کو عطا فرما دیا کہ جس طرح چاہیں وہ بیان کردوہ مصارف میں اس کو خرچ کریں برخلاف مال غنیمت کے کہ وہ مجاہدین کی محنت اور مشقت سے حاصل ہوتا ہے تو اس میں مجاہدین کا حصہ رکھا گیا اور خمس کے علاوہ وہی اس کے مستحق قرار دئیے گئے، یہی وجہ ہے کہ مال فئی کا کوئی مصرف متعین نہیں، جمیع مصالح مصلحین، مسلمین امیر و فقیر سب پر خرچ کیا جاسکتا ہے بخلاف زکوٰۃ، خمس اور مال غنیمت کے کہ مصارف متعین اور محدود کردیئے گئے ، جیسا کہ قرآن کریم نے ان کی وضاحت اور تعیین کردی۔ استحقاق کی اقسام : اصول شریعت کی رو سے استحقاق دو قسم کا ہے، ایک استحقاق قوی جس کو استحقاق فعلی اور استحقاق شخص بھی کہا جاتا ہے اور یہی استحقاق حقیقی ہے۔ دوسرا استحقاق ضعیف ہے جس کو استحقاق انفعالی اور استحقاق نوعی بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ استحقاق مجازی ہے، استحقاق قوی وہ ہے جس کا منشاء امروجودی ہو جیسے مال غنیمت میں مجاہدین اور غانمین کے استحقاق کا منشاء ان کا جہاد ہے جو کہ امر وجود ہی ہے اسی بناء پر (آیت) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ “ میں غنیمت کو مجاہدین کی طرف منسوب کرکے یہ ظاہر کردیا کہ غنیمت کی تحصیل مجاہدین کی سعی اور جدوجہد کے باعث ہے۔ استحقاق ضعیف وہ ہے کہ جس کا منشاء امر عدمی ہو جیسے صدقات میں فقراء و مساکین کا استحقاق ان کی ناداری اور مفلسی کی وجہ سے ہے جو کہ امر عدمی ہے، اسی وجہ سے فقراء کو دعوی کا حق نہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ کسی خاص شخص معین کو فقراء و مساکین میں سے دیا جائے، واللہ اعلم بالصواب، (ہذا من افاضات حضرۃ الوالد مولینا محمد ادریس کاندھلوی (رح))
Top