Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کردیے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں۔
(59:8) للفقراء المھجرین : لام تملیک کا ہے۔ الفقراء المھجرین موصوف صفت۔ مہاجر حاجت مند۔ یعنی ایسے مہاجر جو غریب حاجت مند اور نادار تھے۔ الذین اسم موصول، اخرجوا صلہ۔ ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ، جو نکالے گئے۔ تتبعون : مضارع جمع مذکر غائب ابتغاء (افتعال) مصدر۔ وہ ڈھونڈھتے ہیں۔ وہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں۔ فضلا : بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے۔ بمعنی روزی، رزق، فضل ۔ جیست اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ لتبتغوا فضل من ربکم (17:12) تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل (یعنی روزی) تلاش کرو۔ الفضل کے معنی کسی چیز کے اقتصاد (متوسط درجہ) سے زیادہ ہونے کے ہیں۔ اور یہ دو قسم پر ہے :۔ (1) محمود : جیسے علم و حلم وغیرہ کی زیادتی۔ (2) مذموم : جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا۔ لیکن عام طور پر الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے۔ اور الفضول بری باتوں پر۔ رضوانا ” مفعول ثانی “ یبتغون کا۔ اور اس کی رضا مندی۔ الصدقون : اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ سچے۔ سچ بولنے والے۔ راست باز، سچے لوگ۔ الذین اخرجوا سے لے کر اخیر آیت تک مہاجر حاجت مندوں کی نعمت میں ہے۔ للفقراء المھاجرین کے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ مثلاً :۔ (1) للفقراء المھاجرین بدل ہے اور لذی القربی والیتمی والمسکین مبدل منہ ہے۔ (زمخشری) (2) للفقراء المھاجرین بدل ہے اور والیتمی والمسکین سے بدل ہے اور الیتمی والمساکین وابن سبیل مبدل منہ ہے۔ ذی القربی مبدل منہ میں داخل نہیں ہے۔ (مام شافعی) (3) للفقراء المھاجرین : ذی القربی والیتمی والمسکین سے بدل ہے للرسول سے بدل نہیں ہے۔ (علامہ پانی پتی (رح) ) علامہ موصوف آگے رقمطراز ہیں :۔ للفقراء میں الف لام عہد کا ہے اور معبود وہی لوگ ہوں گے جن کا ذکر اوپر کردیا گیا یعنی ذی القربی والیتمی والمسکین۔ پس یہ بدل الکل من الکل ہے۔ میرے نزدیک فقراء مہاجرین اور وہ لوگ جو آگے ذکر گئے ہیں ان تمام مؤمنوں کو شامل ہیں جو قیامت تک آنے والے ہیں خواہ زردار ہوں یا نادار ۔ جن لوگوں کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے یعنی ذی القربی وغیرہ وہ بھی انہی لوگوں کی ذیل میں داخ (رح) ہیں اس صورت میں فقراء مہاجرین وغیرہ عام قرار پائیں گے۔ اور پہلے جن کا ذکر آچکا ہے وہ خاص مانے جائیں گے اور یہ صورت بدل الکل من البعض کی ہوجائے گی۔ (4) للفقراء المھاجرین بدل ہے لذی القربی سے۔ اس کا عطف لذی القربی پر نہیں ہے۔ (بیضاوی) صاحب تفسیر حقانی فقراء مہاجرین کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ للفقراء المھجرین ۔۔ الخ کہ یہ ان فقراء مہاجرین کو ملنی چاہیے کہ جو اللہ کے لئے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئے ہیں جب عرب میں اسلام کا چرچا ہوا اور اس آفتاب کی کرنیں اس سر زمین پر پڑیں تو مکہ اور دوسری جگہوں کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے مگر جہاں کوئی مسلمان ہوا اس پر اس کی قوم کی طرف سے مصیبتیں آئیں اور مار دھاڑ شروع ہوئی۔ اس لئے گھر بار۔ وطن چھوڑ کر نبی کریم ﷺ کی طرف چلے آتے تھے۔ اب ان کے پاس بجز صبر و فاقے کے اور تھا کیا ؟ ان کو مہاجرین کہتے تھے اس لئے ان پر ترحم دلاتا ہے۔ کہ ان کو بھی دو ۔ ان کی فکر بھی آنحضرت ﷺ کو رہتی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ لوگ صرف یہی بات نہیں کہ ہجرت کرکے چلے آئے ہیں بلکہ ینصرون اللہ ورسولہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اسلام کا لشکر جرار جس نے بڑے بڑے گردن کشوں کو سیدھا کردیا۔ انہیں لوگوں کا تھا۔ اولئک ہم الصدقون یہ سچے لوگ ہیں۔
Top