Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
یعنی (یہ اموال دراصل حق ہیں) ان (لٹے پٹے) ضرورت مند مہاجرین کا جن کو (ناحق طور پر) نکال باہر کیا گیا ان کے گھروں اور ان کے مالوں سے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں اور وہ مدد کرتے ہیں اللہ (کے دین) کی اور اس کے رسول کی یہی لوگ ہیں راست باز
[ 23] اموال فئی کا ایک خاص مصرف فقراء مہاجرین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ حق ہے ان ضرورت مند مہاجریں کا جن کو نکال باہر کیا گیا ان کے گھروں اور ان کے مالوں سے۔ یعنی " للفقرائ " یہاں پر بدل ہے " ذوی القربی وما بعدہ " سے یعنی اوپر جن چار قسموں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ اپنے فقر وا حتیاج کی بناء پر مال فیئی کے مستحق ہیں، مگر ان میں سے یہ حضرات جن کا ذکر اب کیا جا رہا ہے بطور خاص زیادہ استحقاق رکھتے ہیں، جس میں فقراء مہاجرین و انصار اور ان کے بعد قیامت تک آنے والی سب امت کے مستحقین شامل و داخل ہیں، [ معارف، وغیرہ ] سو اموال فئی کا عام مصرف بیان کرنے کے بعد اب اس کے ایک خاص اور اہم مصرف کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مصرف ہے، یعنی فقراء مہاجرین جن کو ان کے گھروں سے بےدخل کردیا گیا تھا، اور ان کو ان کے اپنے اموال سے محروم کردیا گیا تھا، سو ایسے حضرات کو پھر سے بسانے اور ان کی معاشی زندگی کو از سر نو سنوارنے کی ذمہ داری پورے اسلامی معاشرے پر عائد ہوتی تھی، اس لئے سب سے پہلے اسی مصرف کو ذکر فرمایا گیا کہ انہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر، اور اس کے رسول کی اطاعت و اتباع میں، اور اپنے دین و ایمان کی خاطر اپنے گھر بار سب کو چھوڑا اور سب کچھ حق کی خاطر برضا ورغبت قربان کیا۔ چناچہ اس حکم و ارشاد کے مطابق بنی نضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا گیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو دیتے تھے وہ ان کو واپس کر دئیے تھے وہ ان کو واپس کر دئیے گئے۔ کہ بنو نضیر کے اموال فئی سے حصہ ملنے کے بعد حضرات مہاجرین آسودہ خوش حال، اور خود کفیل ہوگئے تھے۔ رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ [ 25] حضرات صحابہء کرام کیلئے راستبازی کا خدائی سر ٹیفکیٹ : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر اور حصر و قصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں راستباز، اور سچے، کہ انہوں نے اپنے قول وقرار، اور دعوی و اقرار کا ثبوت اپنے عمل و کردار سے پیش کردیا، اور دنیا کے سامنے واضح کردیا ہے کہ وہ پکے اور سچے مسلمان ہیں، اور یہ کہ ایمان و یقین کے نور سے ان کے قلوب و بواطن کو ایسا منور اور پختہ کردیا گیا ہے کہ اس کیلئے یہ حضرات ہر قربانی دے سکتے ہیں، اور عملی طور پر پیش اس کا ثبوت دے چکے ہیں، چناچہ انہوں نے اس کیلئے اپنے گھر بار وغیرہ سب کو خیر بار کہہ دیا، سو یہ لوگ اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں، اور انہوں نے اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کیلئے سب کچھ قربان کرکے اپنی صداقت و راستبازی کا عملی ثبوت پیش کردیا ہے، سو حضرات صحابہ کرام کی قدسی صفت جماعت وہ واحد اور بےمثال خوش نصیب جماعت ہے جس کو حضرت حق جل مجدہ، کے کلام حق و صدق ترجمان میں اس قدر صراحت کے ساتھ صدق شعاری اور استنباری کا خدائی سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ سو جو بدبخت ان حضرات کی صداقت و حقانیت اور ان کے ایمان و یقین کا انکار کرے، یا اس میں شک کرے وہ مسلمان کس طرح ہوسکتا ہے ؟ پس ایسے لوگ کافر اور بڑے ہی بدبخت لوگ ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین، ویا اکرم الاکرمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ، جل جلالہ وعم نوالہ،
Top