Anwar-ul-Bayan - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔
(11:118) ولا یزالون مختلفین۔ لیکن وہ اختلاف کرنے والے ہمیشہ ہی رہیں گے۔ (اس سے پہلے عبارت محذوف ہے۔ جو بدیں مطلب ہے۔ لیکن بعض حکمتوں کی وجہ سے اس نے ایسا نہ چاہا اب حقیقت یہ ہے کہ وہ لا یزالون مختلفین ۔۔ الخ ولذلک خلقہم اور اسی لئے اس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں ــ۔ ” اس جملہ کا تعلق آیت کے کس حصہ کے ساتھ ہے ؟ بعض نے یہ لکھا ہے کہ اس کا تعلق الا ما رحم ربک کے ساتھ ہے یعنی انسان کی آفرنیش کی غایت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ ور ہوتا رہے اور ہمیشہ ہدایت کی راہ پر گامزن رہے۔ فقال ابن عباس و مجاھد وقتادۃ وضحاک ولرحمتہ خلقہم۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا تعلق اختلاف سے ہے یعنی انسان کو اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کوئی راہ اختیار کرلے۔ اسے کسی ایک راہ پر چلنے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قال الحسن والمقاتل و عطاء ۔ ایماء الاشارۃ للاختلاف ای للاختلاف خلقہم۔ ایک اور قول یہ بھی ہے کہ ذلک کا مشار الیہ اختلاف اور رحمت دونوں ہیں اور واحد اسم اشارہ کا مشار الیہ دو متضاد چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا (10:58) آپ فرما دیجئے یہ کتاب محض اللہ کے فضل اور رحمت سے نازل ہوئی ہے پس چاہیے کہ وہ اس پر خوشی منائیں۔ علامہ قرطبی کے قول کے مطابق اہل عرب ذلک (واحد) کو واحد تثنیہ اور جمع سب کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اب آیت کا مطلب ہوگا کہ اہل اختلاف کو اختلاف کے لئے پیدا کیا اور اہل رحمت کو رحمت کے لئے پیدا کیا گیا۔ علامہ قرطبی کہتے ہیں ھذا احسن الاقوال انشاء اللہ یہ توجیہہ سب سے بہتر ہے۔
Top