Tadabbur-e-Quran - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا چھوڑتا اور وہ برابر اختلاف میں رہیں گے
118۔ 119:۔ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ . اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۔ ہدایت و ضلالت کے معاملہ میں قانونِ الٰہی : یعنی اللہ اگر سب کو ایک ہی امت بنادینا چاہتا تو وہ ایسا کر تو سکتا تھا، کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں تھا لیکن اس نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اس جبر کو پسند نہیں فرمایا بلکہ اس نے نیکی اور بدی دونوں کو ان کے انجام کی تفصیل کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ ان میں سے جس کو چاہیں اختیار کرلیں۔ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کریں گے تو اس کا صلہ آخرت کی ابدی زندگی کی کامرانیاں ہیں اور اگر بدی کی راہ اختیار کریں گے تو آخرت میں اس کی سزا بھگتیں گے۔ ولایزالون مختلفین۔ یعنی جب اللہ نے اس معاملے میں جبر کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ لوگوں کو اختیار دیا ہے تو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہر شخص نیکی ہی کی راہ اختیار کرے گا بلکہ بہتیرے ان میں سے ایسے بھی نکلتے رہیں گے جو تمام تعلیم و تذکیر کے بوجود، اپنے نفس اور شیطان کی پیروی میں بدی ہی کی راہ اختیار کریں گے اور اسی پر جئیں گے، اسی پر مریں گے۔ الا من رحم ربک۔ یعنی بدی کی راہ اختیار کرنے سے وہی لوگ محفوظ رہیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہو۔ یہ بات یہاں سیاق کلام کے اندر مضمر ہے کہ رحمت خداوندی کے سزاوار وہی ہوسکتے ہیں جو اپنے سمع و بصر اور عقل و دل کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں اور آنکھیں رکھتے ہوئے ٹھوکریں کھائیں۔ ولذلک خلقہم یعنی اللہ نے تو لوگوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے انتخاب و اختیار سے اپنے آپ کو اپنے رب کے فضل و رحمت کا سزوار بنائیں۔ یہ امتحان انسان کی خلقت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس سے گزرے بغیر کوئی شخص رحمت خداوندی کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ و تمت کلمۃ ربک لاملئن جہنم من الجنۃ والناس اجمعین۔ یعنی جو لوگ اس امتحان میں فیل ہوجائیں گے۔ ان کے حق میں تیرے رب کی یہ بات پوری ہو کے رہے گی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا حوالہ ہے جو ابلیس کے جواب میں ارشاد ہوا تھا اور جس کی تفصیل دوسرے مقام میں ہے کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ سے انکار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں ذریت آدم پر ایسے گھیرے ڈالوں گا کہ تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہیں پائے گا، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ ایسے تمام جنوں اور تمام انسانوں سے جہنم کو بھردوں گا۔
Top