Maarif-ul-Quran - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر چاہتا تیرا رب کر ڈالتا لوگوں کو ایک رستہ پر اور ہمیشہ رہتے ہیں اختلاف میں،
اختلاف مذموم اور محمود
پانچویں آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی امت و ملت بنا دیتا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے تو تمام انسانوں کو زبردستی قبول اسلام پر مجبور کر ڈالتے سب کے سب مسلمان ہی ہوجاتے ان میں کوئی اختلاف نہ رہتا مگر بتقاضائے حکمت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کسی کو کسی عمل پر مجبور نہیں کرتے بلکہ اس نے انسان کو ایک قسم کا اختیار سپرد کردیا ہے اس کے ماتحت وہ اچھا یا برا جو چاہے عمل کرسکتا ہے، اور انسان کی طبائع مختلف ہیں اس لئے راہیں مختلف ہوتی ہیں اور عمل مختلف ہوتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ دین حق سے اختلاف کرتے ہی رہیں گے بجز ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی، یعنی انبیاء (علیہم السلام) کا اتباع کرنے والے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف سے مراد اس جگہ دین حق اور تعلیم انبیاء کی مخالفت ہے، اجتہادی اختلاف جو ائمہ دین اور فقہاء اسلام میں ہونا ناگزیر ہے اور عہد صحابہ سے ہوتا چلا آیا ہے، وہ اس میں داخل نہیں، نہ وہ رحمت الہٰی کے خلاف ہے بلکہ مقتضائے حکمت و رحمت ہے، جن حضرات نے ائمہ مجتہدین کے اختلاف کو اس آیت کی رو سے غلط، خلاف رحمت قرار دیا ہے، یہ خود سیاق آیت کے بھی خلاف ہے اور صحابہ وتابعین کے تعامل کے بھی۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
Top