Mazhar-ul-Quran - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو بیشک سب آدمیوں کو ایک ہی امت (پر) کردیتا (سب ایک ہی راہی پر چلتے) اور ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے
دنیا امتحان کے لئے پیدا کی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میں یہ بھی قدرت ہے کہ سارے جہان کو ایک ہی دین پر رکھتا سب کے سب دین دار رہتے مگر خدا کی مرضی نہ ہوئی۔ کیونکہ دنیا کو اس نے نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے زبردستی دین دار بنانے کے لئے نہیں پیدا کیا۔ اس لئے لوگ الگ الگ فرقے فرقے ہوگئے۔ پھر فرمایا یہ لوگ ہمیشہ مختلف رہیں گے کوئی نصاریٰ ، کوئی یہود، کوئی مجوس، کوئی مشرک، اسی طرح اپنی اپنی عقل کے موافق الگ الگ مذہب قائم کریں گے مگر اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائی گا اور راہ راست دکھائے گا وہ ملت حنفیہ یعنی دین اسلام اختیار کریں گے۔
Top