Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 78
تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ۠   ۧ
تَبٰرَكَ اسْمُ : بہت بابرکت ہے نام رَبِّكَ : تیرے رب کا ذِي الْجَلٰلِ : جو صاحب جلال ہے وَالْاِكْرَامِ : اور کریم ہے۔ صاحب اکرام ہے
(اے محمد ﷺ تمہارا پروردگار جو صاحب جلال و عظمت ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے
(55:78) تبارک۔ وہ بہت بڑا برکت والا ہے۔ تبارک سے جس کے معنی بابرکت ہونے کے ہیں۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس فعل کی گردان نہیں آتی۔ صرف ماضی کا ایک صیغہ مستعمل ہے اور وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے۔ اسم ربک۔ ربک مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ اسم مضاف کا ۔ تیرے رب کا نام۔ ذی الجلا مضاف مضاف الیہ ۔ ذوا بمعنی والا۔ صاحب، اسم ہے اس کے ذریعہ اسمائے اجناس و انواع سے موسوم کیا جاتا ہے اسماء ستہ مکبرہ میں سے ہے۔ یعنی ان چھ اسموں میں سے ہے کہ جب ان کی تصغیر نہ ہو اور وہ غیر یائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان کو رفع کی حالت میں واؤ زبر کی حالت میں الف اور زیر کی حالت میں ی آتی ہے جیسے ذا ذوا ذی، ہمیشہ مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے اور اسم ظاہر ہی کی طرف مضاف ہوتا ہے ضمیر کی طرف نہیں۔ اس کا تثنیہ بھی آتا ہے جمع بھی۔ ذی الجلال صاحب جلال، بمعنی عظمت و بزرگی۔ یہ جل یجل کا مصدر ہے جلال کے معنی عظمت قدر کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سے مخصوص ہے۔ والاکرام : واؤ عاطفہ الاکرام معطوف اس کا عطف الجلال پر ہے۔ ای وذی الاکرام بمعنی باعظمت ہونا۔ دوسرے کو عزت دینا اور اس پر کرم کرنا۔ بروزن افعال مصدر ہے۔ اکرام کے دو معنی آتے ہیں۔ ایک یہ کہ دوسرے پر کرم کیا جائے یعنی اس کو نفع ایسا پہنچایا جائے کہ جس میں کھوٹ نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ جو چیز عطا کی جائے وہ عمدہ چیز ہو۔ ذوالجلال والاکرام میں لفظ اکرام دونوں معنی پر مشتمل ہے۔ کرم کا لفظ جہاں بھی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفت میں آیا ہے وہاں احسان و اکرام الٰہی مراد ہے۔ ذی الجلال والاکرام : رب کی صفت ہے اس لئے بحالت زیر آیا ہے۔
Top