Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 78
تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ۠   ۧ
تَبٰرَكَ اسْمُ : بہت بابرکت ہے نام رَبِّكَ : تیرے رب کا ذِي الْجَلٰلِ : جو صاحب جلال ہے وَالْاِكْرَامِ : اور کریم ہے۔ صاحب اکرام ہے
(اے محمد ﷺ تمہارا پروردگار جو صاحب جلال و عظمت ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے
تبرک اسم ربک ذی الجلل والاکرام۔ تبرک یہ برکۃ تے تفاعل کا وزن ہے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ ذی الجلل عظمت والا۔ یہ بحث بھی پہلے گزر چکی ہے۔ عامر نے ذوالجلال پڑھا ہے اور اسے اسم کی صفت بنایا ہے یہ اس امر کو قوت بہم پہنچاتا ہے کہ اسم میں مسمی ہے باقی قراء نے ذی الجلال پڑھا ہے انہوں نے ذمی کو ربک کی صفت بنایا ہے گویا اس کے ساتھ اس اسم کا ارادہ کیا ہے جس کے ساتھ سورت کا آغاز کیا فرمایا : الرحمن اس اسم کے ساتھ آغاز کیا اور انسان اور جنوں کی تخلیق کا ذکر کیا، آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا ذکر کیا، ان میں اپنی تدبیر کا ذکر کیا اور فرمایا : کل یوم ھو فی شان۔ پھر قیامت، اس کی ہولناکیوں اور جہنم کی صفت کا ذکر کیا پھر جنتوں کی صفت کا بیان کیا پھر سورت کے آخر میں بیان کیا تبرک اسم ربک ذی الجلل والاکرام۔ یعنی وہ اسم جس کے ساتھ سورت کا آغاز کیا۔ گویا انہیں آگاہ کیا کہ یہ سب کچھ تمہارے لیے میری رحمت سے پیدا ہوا ہے میں نے اپنی رحمت سے تمہیں پیدا کیا، تمہارے لیے آسمان، زمین، جنت اور دوزخ بنائے یہ سب کچھ تمہارے لیے رحمن کے اسم سے وقوع پذیر ہوا تو اس اسم کی مدح کی پھر کہا : ذی الجلل والاکرام۔ یعنی وہ ذات کے اعتبار سے جلیل ہے، افعال میں کریم ہے۔ قراء نے اس میں اختلاف نہیں کیا کہ سورت کے آغاز (3) میں وجہ کی صفت بنائیں جب کہ حالت رفعی میں ہو۔ یہ اس امر پر دال ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مومن جس کو ملیں گے جب وہ اس کا دیدار کریں گے، حسن جزا، خوبصورت ملاقات اور اچھی عطاء سے خوش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ 1 ؎۔ صحیح، قاری، کتاب المناقب، مناقب عمر بن الخطاب، ؓ ، جلد 1، صفحہ 520 2 ؎۔ درمنثور، جلد 6، صفحہ 214 3 ؎۔ مراد آیت نمبر 27 ہے۔
Top