Mufradat-ul-Quran - At-Tur : 32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ : یا حکم دیتی ہیں ان کو اَحْلَامُهُمْ : ان کی عقلیں بِھٰذَآ : اس کا اَمْ هُمْ : یا وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سکھاتی ہیں ؟ بلکہ یہ لوگ ہیں ہی شریر
اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِھٰذَآ اَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۝ 32 ۚ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر : 125- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» . ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ' میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
Top