Al-Qurtubi - At-Tur : 32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ : یا حکم دیتی ہیں ان کو اَحْلَامُهُمْ : ان کی عقلیں بِھٰذَآ : اس کا اَمْ هُمْ : یا وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سکھاتی ہیں ؟ بلکہ یہ لوگ ہیں ہی شریر
ام تا مرھم احلا مھم بھذا، احلام سے مراد ان کے عقول ہیں۔ ھذا سے مراد آپ کی ذات پر جھوٹ بولنا ہے۔ ام ھم قوم طاغون ،۔ یا بغیر عقل کے وہ سر کشی کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ام بل کے معنی میں ہے۔ بلکہ انہوں نے سرکشی کرتے ہوئے کفر کیا اگرچہ ان کے لئے حق ظاہر ہوا۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے کہا گیا : کیا وجہ ہے کہ آپ کی قوم ایمان نہیں لائی۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت دانشمند ہونے سے بیان کی ہے ؟ فرمایا : وہ ایسی عقلیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق نصیب نہیں فرمائی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے ؛ احلامھم سے مراد ان کے اذہان ہیں کیونکہ عقل کافر کو نہیں دی جاتی اگر اس کے پاس عقل ہوتی تو وہ ایمان لے آتا، کافر کو ذہن دیا جاتا ہے تو پس یہ ذہن اس پر حجت ہوتی ہے، ذہن عموما علم کو قبول کرتا ہے، عقل علم میں تمیز پیدا کرتا ہے اور امرو نہی کی حدود کی مقادیر کا اندازہ لگاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے ایک روایت مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ! فلاں نصرانی کتنا دانشمند ہے ؟ فرمایا : ایسا کہنے سے رک جا کافر کے ہاں عقل نہیں ہوتی کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا وقالو الو کنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحب السعیر، (الملک) حضرت ابن عمر ؓ کی مروی حدیث میں ہے، ، ایسا کہنے سے رک جا کیونکہ عقل مند وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرتا ہے، ، اسے ترمذی حکیم ابو عبد اللہ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے۔ ام یقولون تقولہ وہ کہتے ہیں اس نے خود اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے مراد قرآن حکیم ہے تقول سے مراد ایسا قول ہے جسے میں تکلیف سے کام لیا گیا ہو۔ عموماً یہ لفظ جھوٹ میں استعمال کیا جاتا ہے یوں جملہ بولا جاتا ہے ؛ ہے جس میں تکلف سے کام لیا یا ہو۔ عموماً یہ لفظ جھوٹ میں استعمال کیا جاتا ہے یوں جملہ بولا جاتا ہے : قولتنی مالم اقل واقولتنی مالم اقل یعنی تو نے مجھ پر دعویٰ کیا۔ تقول علیہ یعنی اس پر جھوٹ بولا۔ اقتال علیہ اپنی مرضی سے تصرف نے کہا : ومنزلۃ فی دار صدق و غبطۃ وما اقتال من حکم علی طبیب صدق اور رشک کے گھر میں مقام پو مرتبہ ہے طبیب نے میرے بارے میں اپنی مضری سے حکم نہیں لگایا ۔ پہلا ام انکار کیلئے اور دوسرا ام ایجاب کے لئے ہے یعنی معاملہ اس طرح نہیں جس طرح وہ کہتے ہیں بل لا یومنون۔ بلکہ وہ انکار کرتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے ایمان نہیں لاتے۔
Top