Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 101
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں اور اللہ جو حکم بھیجتے ہیں اس کو وہی خوب جانتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ (یونہی اپنی طرف سے) بنا لاتے ہیں بلکہ ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں
(رکوع نمبر 14) اسرارومعارف شیطانی وساوس میں گرفتار کفار کو اس بات پہ بھی اعتراض ہے کہ قرآن پاک کی آیات منسوخ یا تبدیل کیوں ہوتی ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ کا کلام ہوتا تو بھلا اللہ کو کیا پہلے معلوم نہ تھا کہ ایک حکم دیا پھر اسے بدل کر دوسرا دے دیا ، ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ آپ ﷺ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ، کلام خود بناتے ہیں اور کہتے ہیں اللہ جل جلالہ کا ہے ، یہ ان کی جہالت کے باعث ہے ، ورنہ اللہ جل جلالہ تو انسانوں کی سہولت اور بہتری کے لیے منسوخ فرماتے ہیں جبکہ ایک حال میں ایک حکم بہتر تھا ، وہ ارشاد فرمایا جب حالت بدل گئی تو حکم تبدیل کردیا گیا کہئے کہ یہ احکام تو رب جلیل کا پاک فرشتہ لاتا ہے اور اس کی اپنی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ بندوں کے حال کی رعایت فرماتا ہے ۔ صدیوں سے کفر میں مبتلا ایک معاشرے کو ایک دم سے مجبور نہیں کردیا گیا بلکہ یہ اس کی شان ربوبیت کہ بتدریج احکام مکمل فرماتا گیا اور آخر ایک مطلوبہ معاشرہ قائم ہوگیا تو منسوخ ہونا بھی ختم کردیا گیا ، نیز یہ سب ہی تو حق ہے ۔ (کلام اللہ کا اثر اور کیفیت) اور اس میں ایک کیفیت ہے اور اس کا یہ اثر ہے کہ جس دل میں نور ایمان ہو اسے مزید ثبات نصیب ہوتا ہے ، ہدایت نصیب ہوتی ہے یعنی نیک عمل کرنے کو جی چاہتا ہے اور ایک انمول مسرت وشامانی کا عالم دل پہ طاری ہوجاتا ہے ۔ (اخذ کیفیات) مگر یہ سب ان کو نصیب ہوتا ہے جو سرتسلیم خم کرتے ہیں ، ان سے ثابت ہے کہ اخذ کیفیات کے لیے مکمل اور غیر مشروط اطاعت شرط ہے ہاں شیخ سے اطاعت کی حد شریعت ہے ، اس کے باہر اطاعت نہ کی جائے گی ۔ اللہ جل جلالہ کو خبر ہے کہ یہ مشرک کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو فلاں آدمی سکھاتا ہے مفسرین کے مطابق مکہ مکرمہ میں ایک باہر سے آیا ہوا لوہار تھا ، جو آپ ﷺ کی باتیں سنتا تھا تو آپ ﷺ اس کے پاس تشریف رکھتے تھے ، وہ کچھ پہلے کتابوں کا علم بھی رکھتا تھا ، مگر ان میں اتنا شعور بھی نہیں کہ جس آدمی کا کہتے ہیں وہ خود عجمی ہے اور کتاب اللہ کی زبان ایسی فصیح وبلیغ عربی ہے کہ تمام عالم عرب کے سامنے اس کا چیلنج موجود ہے جس کا کوئی جواب نہیں دے سکا ، اور نہ دے سکے گا ، بلکہ ان کے اس معاندانہ رویے کا اثر خود ان پر ایسا پڑتا ہے کہ مزید کفر میں دھنستے چلے جاتے ہیں ، اور اللہ جل جلالہ انہیں ہدایت نصیب ہی نہیں کرتا اور ان کے لیے بہت دردناک عذاب ہے ، یہ افتری کا طعنہ دینے والے خود ہی افتری کرتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور سخت جھوٹ بولتے ہیں اور جو کچھ یہ کہتے ہیں یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور ہاں اگر یہی کفریہ کلمات کہنے پر کسی کو مجبور کردیا جائے مگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو تو محض جان بچانے کے لیے کوئی کلمہ کفر یا کافرانہ فعل کرنا جس پر مجبور کردیا جائے تو اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ (مسئلہ اکراہ) فقہاء کے مطابق اگر کسی کو کلمہ کفر کہنے یا کافرانہ کام کرنے پر اس حد تک مجبور کردیا جائے کہ نہ کہنے سے قتل کا خوف ہو تو ایسا کرنے سے گناہ نہ ہوگا جبکہ دل ایمان پر جما ہوا ہو کیونکہ بعض غریب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو یہ حال پیش آیا جن میں سے اکثر تو شہید ہوئے بعض نے ایسا کہہ کر جان بچائی اور ہجرت کر کے آپ ﷺ کی خدمت میں جا پہنچے لیکن ایسے لوگ جن کے دلوں میں ہی کفر رچ بس گیا ہو ان پر اللہ جل جلالہ کا غضب ہوگا ، دار دنیا میں بھی تباہی کا سامنا کریں گے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے کہ ایمان لانے کے کفر کو پلٹنا بہت بڑا جرم ہے ، شرعا بھی مرتد واجب القتل ہے کہ ان کے اس فعل کا سبب محض دنیا کی طلب ہی ہے جسے انہوں نے آخرت پر محبوب جانا اور یہ ایسا جرم ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ جل جلالہ کبھی ہدایت کی توفیق نہیں بخشتے بلکہ ان کے دلوں پر اس جرم کی پاداش میں مہر لگا دی جاتی ہے اور ان کی سماعت و بصارت بھی ایسی متاثر ہوتی ہے کہ حق پہچاننے سے قاصر ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہمیشہ کی غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں ، اور یہ حال اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا یہ لوگ آخرت میں بہت نقصان میں ہوں گے ، مگر جو لوگ ظلما کفر پہ مجبور کئے گئے مگر مواقع پاکر انہوں نے وطن چھوڑا ، ہجرت کی پھر اللہ کی راہ میں جہاد کئے یا عمر بھر مجاہدہ کرتے رہے اور خواہشات پر صبر کرکے اللہ کی اطاعت اختیار کی ان کے لیے اللہ جل جلالہ کی مغفرت بہت وسیع ہے اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے ۔
Top