Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم بدلتے ہیں83 ایک آیت کی جگہ دوسری آیت اور اللہ خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے84 تو کہتے ہیں تو تو بنا لاتا ہے یہ بات نہیں پر اکثروں کو ان میں خبر نہیں
83:۔ یہ مشرکین پر شکوی ہے جو قرآن مجید پر شیطانی وسوں سے بےجا شبہات وارد کرتے تھے یہ ان کا پہلا شبہ ہے جو دلیل وحی سے متعلق ہے قرآن مجدی میں جو احکام ابتداء میں وقتی مصالح کی بنا پر نازل کیے گئے تھے جب ان کی ضرورت باقی نہ رہی تو انہیں منسوخ کردیا گیا اس پر مشرکین طعن کرنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بات کہے پھر اسے واپس لے لے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (عیاذا باللہ) یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ یہ محمد کا کلام ہے جسے وہ غلط طور سے اللہ کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ مشرکین ظالم و ایسے بیباک تھے کہحضور ﷺ کو مخاطب کر کے پورے وثوق سے کہنے لگے ” انما انت مفتر “ اے محمد بات صرف یہی ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ہے یعنی اللہ نے یہ کلام نازل نہیں فرمایا (انما انت مفتر) متقول علی اللہ تعالیٰ تامر بشیء چم یبدو لک فتنھی عنہ (روح ج 14 س 231) ۔ 84:۔ یہ درمیان میں جمہ معترضہ ہے جس میں نسخ کی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو کچھ نازل کرتا ہے اس کی مصلحتوں اور اس کے مواقع کو وہ خوب جانتا ہے یہ کور باطن محض نادانی سے اعتراض کرتے ہیں۔
Top