Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ اور اللہ جسے نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو کافر کہتے ہیں کہ تم تو یونہی اپنے پاس سے بنا لاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر نادان ہیں
کفار کا اعتراض اور اللہ کا جواب تشریح : کفار تو ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کوئی بہانہ ملے تو قرآن اور نبی ﷺ کو جھٹلائیں ان پر الزامات لگائیں۔ اسی طرح جب بھی کبھی کوئی حکم کسی مصلحت کی وجہ سے پہلے سے ذرا مختلف ہوتا تو کفار کہنے لگتے کہ یہ کلام اللہ کا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تو حکیم وخبیر ہے اس کو احکامات بدل کردینے کی کیا ضرورت ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ ان کو بتا دیجیے کہ یہ کلام حضرت جبرائیل لے کر میرے پاس آتے ہیں اور یہ جو احکامات میں تھوڑی سے تبدیلی ہوتی ہے تو یہ بھی اللہ رب العزت کی مصلحت کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مثلاً مکی اور مدنی زندگی کے حالات جیسے جیسے بدلتے گئے ویسے، ویسے مصلحتاً احکامات میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ شروع میں شراب کو حرام قرار نہ دیا، پھر اس کو ناپسندیدگی میں شمار کیا گیا اور پھر یکدم اس کو حرام قرار دیا گیا۔ تو یہ انسان کی فطرت کے مطابق احکامات جاری کیے گئے۔ اسی طرح شروع میں تبلیغ اسلام کی کھلم کھلا اجازت نہ دی گئی بلکہ چھپ چھپا کر تبلیغ کی اجازت دی گئی۔ لڑائی سے منع کیا گیا۔ مگر جب حالات مضبوط ہوگئے اور مسلمان تھوڑی سی طاقت پکڑ گئے مدینہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست بن گئی تو ہجرت سے پہلے تو اعلانیہ تبلیغ کے لیے حکم ہوا اور پھر بعد میں جنگ کا بھی حکم ہوا۔ جبکہ مسلمان جنگ سے گھبرائے تو اللہ نے وعدہ کیا کہ فکر نہ کرو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور پھر فتح کی خوش خبری بھی دی گئی۔ تو یہ سب اللہ کی حکمتیں ہیں جن کو ہم تھوڑا تھوڑا سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زبردست جواب دے رہے ہیں کہ گھبرائو نہیں اور صاف صاف بتا دو کہ : ” اس (قرآن) کو روح القدس آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ قرآن مؤمنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لیے تو یہ ہدایت اور بشارت ہے۔ “ (سورۃ النحل آیت 102)
Top