Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدلتے ہیں حالانکہ جو کچھ وہ نازل کرتا ہے (اس کی مصلحتوں کو) اللہ ہی خوب جانتا ہے تو کہتے ہیں کہ تو ازخود گھڑ لیتا ہے (نہیں نہیں) بلکہ اکثر ان میں سے جانتے ہی نہیں۔
ترکیب : اذا شرطیہ واللہ اعلم بماینزل جملہ معترضہ شرط اور جزا ہیں۔ قالوا جملہ جواب شرط، مفتر صیغہ اسم فاعل افتریٰ یفتری سے ی گر گئی مفتری تھا وھدیً و بشرٰی دونوں محل نصب میں ہیں مفعول لہ ہونے کی وجہ سے ان کا لیثبت پر عطف ہے تقدیرہ لان یثبت۔ اعجمی لسان الذی کی خبر۔ لایہدیہم خبر ہے ان کی الذین یفتری کا فاعل۔ افترا کسی پر جھوٹ سے کوئی بات بنانا۔ العجمۃ الاحقاء وھی ضدالبیان والعرب یقال رجل اعجمی و امراء ۃ عجمیۃ ورجل اعجم وامرۃ عجماء اے لایفصحان۔ وقیل العجمی منسوب الی العجم والاعجمی من لایفصح سواء کان من العرب اوالعجم وقیل الاعجمی من لایفصح والاعجم الذی من العجم وقال الراغب الاصفہانی بالعکس یعنی الاعجمی الذی من العجم والاعجم من فی لسانہ عجمۃ وان کان من العرب۔ تفسیر : اس مقام سے منکرین نبوت کے شبہات کا جواب شروع ہوتا ہے۔ (1) ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب ایک آیت میں کوئی سخت حکم نازل ہوتا اور اس کے بعد کوئی ایسی آیت نازل ہوتی جس میں حکم نرم ہوتا تھا تو قریش کہتے تھے کہ محمد ﷺ تمسخر کرتا ہے ازخود جو چاہتا ہے بنا کر سنا دیتا ہے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (کبیر) یعنی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدلنے سے مراد احکامِ آیات میں نسخ واقع ہونا ہے جس پر کفار قریش کو اعتراض تھا واللہ اعلم بما ینزل جملہ معترضہ ہے کہ انہیں کیا خبر ہے۔ حقیقت قرآن و مصالح نسخ اللہ ہی جانتا ہے پھر اس کا جواب دیتا ہے کہ کہہ دو میں ازخود نہیں بنا لاتا بلکہ جبرئیل خدا کے ہاں سے لے کر نازل ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ تم نسخ کی حقیقت سے جاہل ہو (نسخ کی پوری بحث مقدمہ تفسیر میں ہوچکی) ۔ (2) ولقد نعلم یہ ایک اور بیہودہ شبہ کا جواب ہے جو کفار قریش کرتے تھے مکہ میں بعض غلام فارسی یا رومی بھی تھے جن کو صاف طور پر سے عربی میں بات بھی کرنی نہیں آتی تھی چونکہ وہ عیسائی یا فارسی مذہب سے کسی قدر سن سنا کر واقفیت رکھتے تھے مکہ کے جاہلوں میں وہی لائق اور عالم سمجھے جاتے تھے جیسا کہ دیہات میں ادنیٰ ملا کو بڑا مولوی سمجھ لیتے ہیں۔ قریش کو جب کوئی اور بات عیب کی معلوم نہ ہوئی تو یہی کہہ دیا کہ اس کو روح القدس نہیں بلکہ کوئی بشر یعنی وہی غلام تعلیم کرتا ہے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ اس کو تو عربی میں صاف طور پر بات بھی کرنی نہیں آتی ‘ عجمی ہے اور قرآن فصیح عربی میں ہے یعنی اس کو خود کیا لیاقت ہے جو وہ اور کو ایسے مضامین الہامیہ تعلیم کرے گا اور پھر ان کو اس پاکیزہ عربی زبان میں بھی اس فصاحت سے لائے گا کہ جس کا مثل مکہ کے تمام فصحا سے نہ ہوسکا۔ فائدہ : الحاد میل لحد ادامال عن القصد اور لحد جو قبر میں ایک طرف یعنی مائل وسط سے ہوتی ہے اس لیے اس کو لحد کہتے ہیں۔ ملحد دین سے مائل یعنی برطرف ہوتا ہے اس لیے اس کو ملحد اور اس کے فعل کو الحاد کہتے ہیں۔ ع، ج، م، کا مادہ کلام عرب میں ابہام اور اخفا کے لیے موضوع ہے جس کے بیان میں صفائی نہ ہو اس کو اعجمی کہتے ہیں اور اسی لیے چارپائے کو عجماء اور عرب کے سوا اور ملکوں کے رہنے والوں کو اعجام کہتے ہیں۔
Top