Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (گرفت سے) بچ سکو
آیات 21- 29 اسرارو معارف تفسیر : دنیا میں صرف دو قومیں ہیں : یا ایھا الناس اعبدوار بکم…وانتم تعلمون۔ ایمان وکفر کا فرق اور مومن کے اوصاف اور کافر کی عادات ارشاد فرما کر پوری آبادی میں صرف دو قومیں مقرر فرمائی ہیں۔ ایک مومن دوسری کافر جو محض دعویٰ کرنے سے نہیں بن سکتا بلکہ ایمان اور کفر کا معیار بھی ارشاد ہوا اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے ان کافروں کی نشاندہی بھی فرما دی گئی جو عقائد تو کفر یہ رکھتے ہیں مگر مدعی اسلام کے ہیں ۔ ان کی حرکات فساد کا سبب ہیں جس کو وہ اصلاح کا نام دیتے ہیں یہ کفر ہی کی خطرناک تر قسم ہے کوئی تیسری قوم نہیں جب حق و باطل واضح ہوگیا تو اب صلائے عام ہے ساری نوع انسانی کو کہ سب طرح کی غلط روشیں چھوڑ کر حق کو اپنائو اور اس ہستی کی عبادت کرو ، یعنی اس کی اطاعت اختیار کرو جو تمہارا رب ہے۔ رب اس کو کہتے ہیں جو سب ضرورتمندوں کی تمام حاجات ہر وقت اور ہر جگہ پوری کررہا ہو اور بتدریج ہر شے کو اس کے کمال کی طرف لے جارہا ہو۔ عبادت کی حقیقت اطاعت ہے اور اطاعت کے لئے بنیادی جذبہ جلب منفت ہے یا پھر دوسرے درجے میں دفع ضرر اعمال انسانی کا محرک یہی جذبہ ہے دنیا میں کوئی شخص کوئی کام اس امید کے بغیر ہیں کرتا کہ اس کے کرنے سے فلاں طرح کا نفع حاصل کروں گا۔ جہاں یا جس ہستی سے اس کی امید وابستہ ہوگی وہیں اس کا سر تسلیم خم ہوگا۔ اگرچہ اللہ کریم اپنی ذات میں ایسا ہے کہ ہر حال میں عبادت کا مستحق اور معبود حقیقی ہے مگر یہ بات عام عقول سے بالاتر ہے لہٰذا دعوت عبادت کا سبب اس کی ربوبیت کو رکھا اور فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو کہ وہ تمہارا خالق ہے اور تمہارے آبائو اجداد کا خالق ہے جب تخلیق اس کی ہے تو اس کی بقاء کا ذمہ دار بھی رہی ہے یہاں خالقیت کی دلیل ربوبیت بنایا ہے کہ جب پیدا اس نے کیا ہے تم کو تمہارے آبائو اجداد کو یا تم سے پہلے کی ساری مخلوق کو ، جن ہوں یا فرشتے جو کوئی بھی تم سے پہلے ہے سب اس کی مخلوق ہے۔ نیز من قبلکم سے یہ بھی واضح ہوا کہ امت آخری امت ہے پہلوں کا ذکر فرمایا مگر بعد والوں کے بارے میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ اس کے بعد کوئی امت ہی نہیں۔ اس کی اکیلی ذات خالق ہے باقی سب مخلوق۔ اور مخلوق خود اپنی بقا میں محتاج ہوا کرتی ہے لہٰذا وہ تور ربوبیت کی یا دوسروں کی باقی رکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تو لا محالہ وہی رب ہے اور رہی تمہاری بات تو تمہیں اس کی عظمت کا احساس اور ان کی ذات کی معرفت کا شمہ تب ہی نصیب ہوگا جب تم اس کی اطاعت اختیار کرو گے۔ لعلکم تتقون ، تاکہ تم متقی بن جائو تقویٰ کا ترجمہ ڈر بھی کیا جاتا ہے جو موقع کی مناسبت سے درست ہے مگر یہاں تقویٰ سے مراد ، دلی کیفیت ہے وہ جذبہ ہے جو صدق دل سے اطاعت الٰہی پر کار بند کردے اور اللہ کی ناراضگی انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوجائے۔ انسان کی فضیلت کا سبب معرفت الٰہی ہے : انسان کو یہ استعداد اور قوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی معرفت اختیار کرے ، باقی ساری مخلوق جو تکوینی طور پر اللہ کی اطاعت کررہی ہے اسے یہ استعداد نصیب نہیں ، سورج ہو یا چاند زمین ہو یا موسم اور ہوائیں حتیٰ کہ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہے مگر اطاعت صرف حکم کی کرتے ہیں حکم دیئے جاتے ہیں اور وہ بجا لاتے ہیں ان کے پاس سوائے تعمیل ارشاد کے چارہ نہیں مگر اس کے باوجود حاکم کیسا ہے اور اس کی صفات کیسی کامل اس کی ذات کیسی جمیل اور مصدر حسن و کمال ہے یہ وہ نہیں جانتے اور نہ انہیں اس کے جاننے کی طاقت ہی ملی ہے۔ یہ استعداد نبوت سے تعلق رکھتی ہے جس سے صرف انسانیت کو سرفراز فرمایا گیا ہے۔ انسان کی ذات دو حصوں میں منقسم ہے ایک میں تو اس کا حال ان سے مختلف نہیں مثلاً پیدا ہونا ، مرنا ، صحت وبیماری ، قد کاٹھ ، شکل و صورت فرمایا دہ ہونا ، امیری و غریبی یہ سب چیزیں اس کے بس میں نہیں۔ ان کے ساتھ یہ بھی تقدیر کے دھارے میں بہتا رہتا ہے مگر اس سب کے ساتھ اسے ایک خاص ذوق جمال ودیعت ہوا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے مختلف اشیاء کو حاصل کرنے کا اختیار بھی مکان ، لباس اور غذا تک میں اس کا یہ جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ جہاں اس کے سامنے دنیا کا حسن بکھیر دیا ہے وہاں اسے معرفت ذات کی استعداد بھی دی ہے اگر یہ اس کو کھو دے تو اس کی ساری طلب دنیا کے حسن کو پانے میں صرف ہوتی ہے لیکن اگر یہ اس نقصان سے بچ جائے اور اسے کوئی شمہ معرفت باری کا نصیب ہو تو پھر سارے جہان کے حسن کو اس پہ نثار کردیتا ہے اس حالت کو اس شعر نے خوب بیان کیا ہے۔ ؎ رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یوں کہتے ہیں ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے اگر یہ پروانہ شمع دنیا پر قربان ہونے سے پیشتر رخ روشن کو دیکھ پائے جس کی استعداد اس میں رکھی گئی ہے تو پھر کبھی اس طرف سے نہیں پھرتا یہی اس کا مطلب ہے کہ العنافی ذرۃ اور یہ جذبہ جو اسے ہر حال جمال باری پہ قربان ہونے کو بےقرار کئے رکھتا ہے اس کو تقویٰ کہا گیا ہے اس کے حصول کا سبب اللہ کی عبادت کو قرار دیا ہے کہ اللہ کی ذات شعور وادراک کی وسعتوں سے بالاتر ہے اور کمند خیال کی رسائی سے باہر آنکھیں اس کو دیکھنے کی تاپ نہیں رکھتیں اور کسی چیز سے اس کی مثال دینا ممکن نہیں تو پھر اس کو پالینے کا طریقہ کیا ہے۔ یہی اس کی عبادت اور اطاعت کا واحد راستہ ہے جو جبین اس کی چوکھٹ پر جھکتی ہے وہ اس کے نور سے منور ہوجاتی ہے اور جو دل اس پہ نثار ہوتے ہیں اس کی تجلیات کے مہبط بن جاتے ہیں۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ معرفت کا مدار عبادت پر ہے کہ اور کوئی راستہ نہیں یہی اس کے حصوں کا سبب بھی ہے اور اگر شمہ معرفت کا نصیب ہوجائے تو یہی عبادت اس کا ماحصل بھی ہے کہ پھر سر اٹھانے کو جی نہیں چاہتا اگر کوئی عملاً اطاعت نہیں کرتا یا اپنی مرضی سے عبادات ایجاد کرتا ہے اور مدعی معرفت بھی تو اس کا اعتبار نہیں۔ یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ عبادات سے اگر واقعی معرفت ہو تب عبادت کی صحت کا اعتبار ، ورنہ اسکی صحت مشکوک رہے گی اور اگر معرفت نصیب ہوتی تو پھر مزید عبادت پہ مجبور کردے گی اور وقتی لذائذ اور عارضی کمالات کی طلب نہ رہے گی۔ اور نہ کشف و کرامات کا شوق اگرچہ یہ کمالات اس سے از خود حاصل ہوجاتے ہیں مگر یہ مقصود نہیں رہتے۔ یہ بھی بڑی کٹھن راہ ہے کہ بعض طالبوں کو جب کشف نصیب ہوتا ہے تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے منزل پالی اور ذوق عبادت کم ہوجاتے ہیں جو ان کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے اور بعض تو اس میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ بالآخر یہ کچھ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ سالک کہ یہاں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے اور کسی اللہ کے سوا کسی چیز پر مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ سب راستے کے روڑے ہیں۔ اللھم رزقنا حبک وحب حبیک۔ امین الذی جعل لکم الرضا فراشا۔ وہ ایسا قادر ہے کہ زمین کو تمہارے لئے جائے آراز بنا دیا کہ باوجود اپنی کردی صورت کے ہر جگہ پہ کسی کے لئے سیدھی ہے اور سب کے بسنے کے پورے لوازمات لئے ہوئے ہے کھودو تو سوئی سے کھود سکتے ہو ایسی نرم ہے اور ایسی سخت کہ بڑے بڑے قلعے اٹھا کر کھڑ ہے دبنے کا نام نہیں لیتی۔ امین ایسی کہ ہر متنفس کو اس کا حصہ دے رہی ہے پہلوں کو پچھلوں کا حق نہیں دیتی۔ اور نہ ان کا چھین کر بعد والوں کے لئے رکھتی ہے خزانوں سے پہلے معمور اور آب حیات اس کی رگوں میں جاری ۔ فراش بچھونا یعنی جائے آرام ہے غذا دوا ، لباس ، مکان ہر ضرورت کی شے سے آراستہ ، مگر یاد رہے کہ بچھونا ہے یہاں چندے آرام کرکے اٹھ کر کام پہ بھی جانا ہے۔ یہ مستقل رہائش کی جگہ نہیں بلکہ سستانے کی جا ہے۔ آسمان کو چھت بنایا جو ساری دنیا کو سایہ فگن ہے مگر دنیا کے سہاروں سے بےنیاز ہیں جس سے سب مستفید ہو رہے ہیں مگر جس کی تعمیر یا مرمت کی کسی کو فکر نہیں ، جو سب کو دے رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمے لگایا ہے مگر لیتا کسی سے کچھ نہیں۔ ایک ایسی چھت ، جو دم تعمیر سے قیامت تک ایستادہ ہے نہ دیواروں کی ضرورت نہ ستونوں کی احتیاج اور آسمانوں سے پانی اتارا۔ ایسا قادر ہے کہ پانی کو فضا میں یوں پھیلادیتا ہے جیسے چادر تنی ہو اور بادلوں کو ہوائیں گود میں لئے پھرتی ہیں مگر جب برستے ہیں تو جل تھل کردیتے ہیں۔ پانی ندیوں ، نالوں اور دریائوں سے اچھل اچھل کر باہر نکل پڑتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی قدرت ہے کہ اسے ہوا میں معلق رکھا۔ محاورۃ اوپر سے آنے والی شے کو آسمان سے آنا کہہ دیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اصل میں نزول ماء آسمان سے ہوا ہو۔ پھر صرف پانی کے رہنے میں کمال نہیں بلکہ اس کے زمین پر آنے سے گہائے رنگا رنگ کا ظہور ہوتا ہے فصلیں اگتی اور میوے پکتے ہیں ، بےرنگ وبے ذائقہ پانی طرح طرح کے رنگ اور ذائقے بکھیر دیتا ہے اور تمہاری غذاب کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے غرض تمہاری ذات کی تخلیق اور تمہارے سارے کمالات کی عطا زمین کی پیدائش اور اس کی خصوصیات آسمان کی بناوٹ اور اس کے سارے کمال پانی کا برسنا اور اس کے تمام اثرات یہ سب کیا ہے ؟ اللہ کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے اور اس کی عظمت کی نشانیاں ہیں اور کمالات و انعامات خواہ انسان کی ذات میں ہوں جنہیں نفسی کہا جائے گا خواہ اس کے لرگد پیش جو آفاقی کہلائیں گے سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ اس کے سوا کوئی ہے جو شکم مادور ہی میں خون اور غلاظت میں انسانی صورتیں تخلیق کررہا ہے کس نے زمین بنائی آسمان کس کی صنعت ہے۔ اور کون پانی برسا کر ہریالی تقسیم کر را ہے ۔ اللہ اس کے سوا کوئی نہیں تو کیا تو اس کی اطاعت چھوڑ دے گا اور بادلوں ، پہاڑوں ، درختوں اور پتھروں کو پوجنے لگ جائے گا۔ اگر تو ان اسباب کے پیچھے بھاگا تو پھر یہ اس کثرت سے ہیں کہ تو سب کی پوجا نہیں کرسکے گا اور تجھے اس پوجا سے کچھ حاصل بھی نہ ہوگا کہ یہ سب کچھ خود اپنی ذات میں اللہ کا محتاج ہے۔ لہٰذا اللہ کا مقابل کسی کو نہ بنائو کہ اللہ کی عبادت میں کسی اور کو بھی شریک کر بیٹھو جبکہ یہ جملہ حقائق تم اچھی طرح جانتے بھی ہو اور خوب علم رکھتے ہو کہ یہ روز مرہ کی نشانیاں اسی پہ دلالت کررہی ہیں دراصل اسلام نام ہی توحید باری کا ہے اس کو ماننے کا ہے اس کے کمالات پر یقین رکھنے کا ہے اور دنیا میں امن و سکون کو پانے کا واحد راستہ بھی یہی ہے کہ کوئی بھی انقلاب انسان پر مایوسی طاری نہ کرسکے بلکہ ہر انقلاب میں اللہ کی عظمت کا نشان نظر آئے اور کبھی غیر اللہ یہ امید ہی قائم نہ ہو کہ پھر ناامیدی کا مقابلہ کرنا پڑے۔ ہمیشہ سے امیدوں کا مرکز ایک ذات ہو ۔ جب یہ حال حاصل ہوجائے تو پھر پائوں کی ٹھوکروں سے پہاڑ ہلائے جاسکتے ہیں کہ تائید باری شامل حال ہوتی ہے اور اگر اللہ سے تعلق استوار نہ ہو تو کسی بھی حالت میں آرام نصیب نہیں ہوتا۔ شاہ ہو یا گدا بےچینی اس کا مقدر ہے مگر اس توحید کی نشاندہی کس نے کی انسان کو اللہ کی عظمت سے کس نے روشناس کرایا ، وہ کون ہے ؟ جس نے انسانوں کو غیر اللہ کی پرستش سے نجات دلائی اور ان کی پیشانیوں کو خدائے واحد کے نور سے منور کردیا اور اس کے پاس کون سا نسخہ کیمیا تھا جس نے مس خام کو کندن بنادیا وہ ہستی ہے محمد رسول اللہ ﷺ اور نسخہ کیمیا ہے قرآن مجید۔ اب اگر کسی کے دل میں یہ بات ہو یا آئے کہ معاذ اللہ بیشمار لوگوں نے مذہب ایجاد کئے ہیں آپ ﷺ بھی ان میں سے ایک ہوں گے اور چند عبادات کو ترتیب دے کر مذہب کا تانا بانا بن لیا ہے تو آئو اسی پر بات ہوجائے کہ اگر یہ کلام جو آپ ﷺ نے پیش فرمایا ہے انسانی ہے تو تم بھی انسان ہو اسی طرح کا کلام بنا کر پیش کرو۔ سارا قرآن نہ سہی اس کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مقابل بنا لائو اکیلے نہ سہی کہ مبادایہ کہہ دو کہ اگر ہم پیش نہ کرسکیں تو دنیا میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو یہ کام کردکھائیں تو بھئی ! اللہ کے سوا جسے چاہو بلا لو اور سب مل کر اس کی نظیر تو پیش کرو۔ عرب کا ماحول ایسا تھا کہ سینہ صحرا میں چند بستیاں جہاں کالج نہ سکول ، بلکہ اونٹ اور بکریاں چرانا ان کا پیشہ ، مگر اس کے باوجود قدرتی طور پر فصاحت ، بلاغت ، اللہ نے ایسی عطافر مائی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ لوگ ایسے حالی اشعار و مضامین کہہ جاتے تھے کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جاتے ، ان ہی میں ایک ہستی جو ایک عالی خاندان میں پیدا ہوئی مگر یتیم جس نے کم عمری ہی میں والدہ ماجدہ کی مفارقت بھی دیکھی اور پھر دادا کی جدائی برداشت کی دنیاوی اعتبار سے نہایت حسرت میں بچپن گزرار اور کسی علمی مجلس یا شعروشاعری کی محفل میں کبھی شرکت نہ فرمائی بلکہ جسخاندان میں بچپن بسر فرمایا وہ بکریاں چراتے تھے اور جب آپ ﷺ نے ہوش سنبھالا تو اپنے غریب چچا ابو طالب کی عیالداری دیکھ کر ان کی مدد کے لئے اجرت پر بکریاں چراتے تھے نہ کبھی کوئی شعرکہا نہ قصیدہ لکھا بلکہ قدرتی طور پر ایسا مزاج ودیعت ہوا تھا کہ کبھی ان چیزوں کی طرف مائل ہی نہ ہوئے۔ ہاں امی محض ہونے کے ساتھ وہ اخلاق فاضلہ اور دیانت وامانت کے ساتھ وہ فہم و فراست کہ ذات اقدس سب کے لئے باعث تعلیم اور صادق وامین کہلائی۔ اس طرح قوم کے ساتھ چالیس برس بسر کرنے کے بعد ، وہی ہستی ایسا کلام پیش فرمانے لگی جس کی فصاحت وبلاغت اور معنوی عظمت کے سامنے سب شعراء وادبار کے کلام دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ پھر اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اب آپ ﷺ کی ذاتی شرافت اور صداقت ہی ایمان لانے کے لئے کافی تھی جیسا کہ ولید ابن مغیرہ ؓ نے اہل مکہ کے ایک اجلاس میں کہا تھا ، جو شخص چالیس برس تک کسی انسان پر جھوٹ نہیں بولتا وہ یکایک اللہ پر جھوٹ بولنا شروع کردے یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی اس کے باوجود اگر تمہیں اس کے کلام الٰہی ہونے کا شبہ ہے تو ، وان کنتم فی ریب ممانزلنا علی عبدنا……………اعات للکفرین۔ اس کے چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑے کے مقابل کلا م پیش کرو اور سارے مل کر لائو جس میں یہ فصاحت وبلاغت بھی ہو جس میں پوری انسانی تہذیب بھی ہو جس میں سیاست و حکومت کی راہنمائی بھی ہو جس میں معاشرت اور تجارت بھی ہو ، خاندانی تعلقات سے بحث بھی ہو اور دوستی دشمنی کا معیار بھی۔ قرآن کریم نے وسیع مضامین چند لفظوں میں سمو دیئے ہیں اور پھر الفاظ کی بندش اور عبارات کی روانی ، اس سے بہتر کی بات ہی چھوڑو تم اس طرح کا اس کے مقابل کا کلام ہی پیش کرو ، اور اللہ کے سوا جس کو چاہو مدد کے لئے بلالو لیکن یادر کھو کہ اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کی نظیر پیش نہ کرسکے جو یقینا پیش نہ کرسکے گی تو یہ کلام الٰہی ہے۔ اگر کسی انسانی ذہن نے اسے جمع کیا ہوتا تو یقینا دنیا کے اور انسان بھی اس کا مقابلہ کرتے ممکن ہے اس جیسا یا اس سے بہتر مضمون کہہ لیتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے کہ تخلیق باری اور صنعت انسانی میں بہت بڑا فرق ہے۔ انسان جیٹ طیارے تو بنا سکتا ہے مگر مجھی نہیں بنا سکتا۔ وہ اللہ پیدا کرسکتا ہے بلکہ گھاس کا ایک تنکا قدرتی طور پر اگ سکتا ہے کوئی مشین ان خصوصیات کا حامل نہیں بنا سکتی۔ جب صنعت میں یہ فرق ہے تو قرآن کریم تو اوصاف باری میں سے ہے۔ اور الل ہکا ذاتی کلام ہے غیر مخلوق ہے کہ جس طرح کی ذات قدیم ہے اسی طرح اس کا جملہ صفات بھی قدیم ہیں اس کے مقابلے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیا کی بڑی بڑی کتابیں کس یایک مضمون کو مکمل بیان نہیں کرپاتیں حالانکہ سب صرف انسانی پیدائش سے لے کر موت تک کی بات کرتے ہیں ۔ ان کے مقابل قرآن کریم جو قبل از پیدائش بلکہ اس کار گہ حیات کی تخلیق سے بھی قبل کی بات ارشاد فرماتا ہے اور پھر اس عالم کی پیدائش ، انسان کی پیدائش ، اس کی ضروریات ، ان کے پیدا کرنے کے طریقے اور تمدن و معاشرت سے بحث کرتا ہوا موت اور مابعد الموت کے حقائق بیان کرتا چلا جاتا ہے اور اس مختصر سی دنیاوی زندگی کو آخرت کی اس ابدی زندگی کی بنیاد کے طور پر ذکر کرتا ہے جس کا بیان صرف اور صرف اللہ کی کتاب کو ہی زیبا ہے پھر اس کے ساتھ دنیا میں انسانی عقول نے بیشمار ڈھنگ اپنائے اور طرح طرح کے طرز حیات اختیار کئے مگر ہے کوئی جو مثالی معاشرہ پیش کرسکے جو تعلیمات قرآنی پر عمل کرنے سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ یہ صرف حکایت نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے دشمنان اسلام بھی تسلیم کرنے کے سو ا کوئی راہ نہیں پاتے۔ پھر تہذیب ایک وقت کی ضرورت ہے جب وقت گزرتا ہے ضرورتوں میں تبدیلی آجاتی ہے تو تہذیبیں بھی بگڑتی چلی جاتی ہیں۔ انسان کا بنایا ہوا کوئی قانون ہمیشہ کے لئے کارآمد نہیں رہ سکتا بلکہ وہی قانون ساز ادارے یا افراد ، جو خود اس کو بناتے ہیں پھر اس میں تبدیلیاں لانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ قرآنی قوانین اور اس کی ارشاد کردہ تہذیب ابدی ہے نہ جغرافیائی حدود کی پابند ہے نہ مردار زمانہ سے متاثر ہوتی ہے بلکہ ہمیشہ ہر دور میں اور ہر ملک میں ہر قوم کے لئے یکساں مفید اور قابل عمل ہے صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے کسی معاشرے میں جہاں کوئی خوبی نظر آئے گی ذرا غور کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ اس امر میں ان کا طریق کار وہی ہے جو قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے اس کے اصول اس قدر عظیم ہیں کہ اگر کافر بھی اپنا لے تو آخرت میں ایمان نہ ہونے کی وجہ سے محروم ہے مگر دنیاوی فوائد سے محروم نہیں رتا۔ پھر اس کے ساتھ گزشتہ تاریخی واقعات کا جو صرف بڑے بڑے علماء یہود ونصاریٰ ہی سے مل سکتے تھے ایک ایسی ہستی نے ارشاد فرمائے جس نے دنیا کے کسی مدرسہ میں قدم مبارک نہ رکھا تھا اور اس قدر درست ارشاد فرمائے کہ ان کی واقعی صورت آنکھوں میں پھر گئی۔ چلو ، یہ تو گزشتہ کی بات تھی آئندہ کی خبریں دیکھ لو کس قدر صحیح اور سچ ثابت ہوئیں مثلاً رومیوں کی شکست جو بظاہر ایسی تھی کہ اب کبھی سر نہ اٹھا سکیں گے مگر قرآن کریم نے خبر دی کہ یہ چند سالوں کی بات ہے پھر ان کو غلبہ ہوگا اس وقت یہ اس قدر محال نظر آتا تھا کہ کفار نے شرطیں لگائیں مگر ایسا ہو کر رہا۔ صلح حدیبیہ کے وقت فتح قریب کی بشارت کہ مکہ بھی فتح ہو کر رہے گا اور انشاء اللہ مومنین حضور ﷺ کی رفاقت میں بےخوف وخطر عمرہ ادا کریں گے نہ صرف یہ بلکہ اس سے پیشتر ایک اور بہت بڑی فتح نصیب ہوگی ، چودہ پندرہ سو افراد پر مشتمل ایک لشکر جسے اہل مکہ عمرہ کرنے سے مانع ہیں ان سے صلح کرکے بغیر عمرہ کئے واپس ہورہا ہے اور بظاہر ایسی شرائط صلح طے پائی ہیں کہ کفار پھولے نہیں سمائے اور مسلمان غمزدہ ہیں مگر قرآن نازل ہوتا ہے تو اسے فتح عظیم اور فتح مکہ کا پیش خیمہ قرار دے کر اور بڑی فتح کی بشارت دے رہا ہے اور چشم فلک نے دیکھا کہ حدیبیہ سے واپس آنے والا لشکر خیبر کو رواں ہے اور یہود کے قلعہ بند لشکروں کو تہ تیغ کرتا اور قلعوں کو روندتا ہوا اللہ کی عطا کردہ فتح پر سجدہ شکر ادا کررہا ہے اور اس کے بعد فتح مکہ کا نظارہ کرلو اور قرآن کریم کی پیشگوئیوں کی صداقت دیکھ لو پھر کتنی ایسی خبریں قرآن کریم نے دیں جو لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ تھیں اور جن کا بعد میں ان لوگوں نے اقرار کیا اور پھر اس کی بیان میں نہ آسکنے والی ایک خاص لذت جو اس کے پڑھنے اور سننے سے نہ صرف مومن ہی کو نصیب ہوتی ہے بلکہ کفار کو بھی مسحور کردیتی ہے۔ اس کے علوم ومعارف جن کا احاطہ نہ آج تک ہوسکا اور نہ آئندہ کسی سے اس کا امکان ہے اپنے مختصر سے حجم میں کس قدراسرار رموز رکھتا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے پھر ایسے دعا دی کہ بظاہر جن کام پر یہ لوگ اختیار رکھتے ہوں اس کے بارے میں اعلان کہ یہ لوگ نہ کرسکیں گے جیسے یہود کو دعوت کہ ذرا موت کی تمنا کرکے دیکھو مگر تم کبھی ایسا نہ کرو گے اور پھر باجود انتہائی دشمنی کے وہ اس بارے میں قرآن کو نہ جھٹلا سکے یا اس کی حفاظت کا ذمہ کہ اللہ خود اس کا حافظ ہے اور اس کے دعوے کی صداقت خود قرآن موجود ہے میں ایک زبر یا زیر بھی سارا جہاں مل کر تبدیل نہ کرسکا بلکہ اللہ نے مومنین کے سینوں میں اس کی جگہ بنادی کوئی بڑے سے بڑا عالم اگر ذرا غلطی کر جائے تو بچے بھی پکڑ لیں گے کہ یہ لفظ ایسان نہیں بلکہ اس طرح سے ہے۔ ان تمام حقائق کے ساتھ یہ اعلان کہ تم سب مل کر اس کی کسی چھوٹی سی سورة کے مقابل لکھ نہیں سکتے کہ تم جو کہو گے وہ کلام انسان کا ہوگا اور یہ اللہ کا کلام ہے اور پھر سارا عرت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہا حتیٰ کہ ممکن تھا کہ کوئی ایسی عبارت جو اس کی نظیر تو نہ ہوتی مگر وہ پیش کرکے یہ دعویٰ کردیتے کہ یہ اس کی نظیر ہے ایسا بھی نہ کرسکے اور نہ آج تک اللہ نے کسی کو اس کی بھی توفیق دی ہے کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوتا تو کبھی بھی تاریخ سے ہٹایا نہ جاسکتا کہ جو لوگ جان ومال کو اسلام کے مٹانے پر صرف کر رہے ہیں ان کو چیلنج دیا گیا غیرت دلائی گئی۔ اگر ان کا ذرا بھی بس نہیں چلتا تو ضرور مقابلہ کرتے مگر وہ نہ کرسکے اور یہی نہیں بلکہ قرآن کا یہ دعویٰ اب بھی موجود ہے کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا پاکیزہ اور انسانی مزاج کے مطابق ایک مکمل نظام پیش کرسکتا ہے جسے لوگ اپنے رواجات اور طریقے چھوڑ کر اپناتے چلے جائیں اور وہ تھوڑے عرصے میں دنیا پہ نافذ ہوجائے ہرگز نہیں ! تو پھر اس آگ سے ڈرو جس کی خبر اسی قرآن نے دی ہے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ایسے آدمی جو تعلیمات قرآنی کا انکار کریں جو تیار ہی انکار کرنے والوں کے لئے کی گئی ہے اور منکرین کے لئے آگ ہے تو ماننے والوں کو خوشخبری ہے۔ وبشرالذین امنوا…………وھم فیھا خلدون۔ کہ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اقرار کیا توحید باری اور رسالت محمد ﷺ کا اور جنہوں نے اپنایا تعلیمات قرآن کو وعملوالصلحت ۔ یعنی قرآن کو اپنی عملی زندگی پہ نافذ کرلیا۔ وہ ایسے باغات میں ہوں گے جن کے تحت نہریں بہتی ہیں۔ یہاں ” تحت “ کا ترجمہ نیچے کیا جاتا ہے مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحت سے تابع مراد ہے۔ من تحتھا کا مفہوم : دنیا میں جیسے باغ نہریں کے تابع ہیں یعنی باغ وہاں لگائے جاتے ہیں جہاں نہر ہو جنت میں نہریں باغوں کے تابع ہوں گی اور جہاں باغ ہوں گے وہاں نہر کو ضرور پہنچنا پڑے گا۔ اس کی تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے کہ جنتی کا چشمہ ایک جگہ سے بہہ رہا ہوگا۔ وہ اسے کہہ دے گا کہ اب اس طرف سے بہنا شروع کردو تو وہ اس طرف سے بہنے لگے گا۔ پھر ان باغوں سے انہیں پھل کھانے کو عطا ہوں گے بالکل ایسے ہی دیکھنے میں کہ وہ پہچان کر کہیں گے کہ یہ تو دنیا میں بھی ہمیں ملا تھا اور اس کی صورت میں بھی مشابہت ہوگی مگر لذت جداگانہ ہوگی اور پھر ان کو پاک عورتیں عطا ہوں گی ، پاک عورتوں سے مراد وہ پاک عورتیں بھی ہیں ، جن کی تخلیق ہی جنت میں ہوئی اور وہ مومن عورتیں جو جنت میں داخل ہوگی ، جو عورت کسی کے نکاح میں فوت ہوئی اگر مرد بھی جنتی ہے تو اس کے ساتھ ہوگی اور پھر بعض مرد مومن ہوں گے مگر عورت کافر یا بعض عورتیں جنت میں ہوں گی مگر مرد کافر ، با بعض غیر شادی شادہ جنت میں ہوں گی تو اللہ کریم ان کے آپس میں نکاح فرمائیں گے رہا پاکیزہ ہونا تو یہ جنت کے اوصاف میں سے ہوگا کہ وہاں نہ فضلہ ہوگا نہ تھوک نہ بینڈھ۔ اسی طرح نہ ہی عورت کسی قسم کی ناپاکی سے دوچار ہوگی اور نہ اخلاقی گندگی ناک کو ہوگی بلکہ ہر طرح سے پاک صورت کے عیوب سے پاک ، سیرت کے عیوب سے مبرا۔ جسمانی نقائص سے بالاتر اور ہر طرح کی ناپاکی سے دور ۔ گویا جب جسم جنت میں داخل ہوں گے تو جسمانی ضروریات سیمت جائیں گے کھانا پینا ، لباس ، مکان ، شادی سب کچھ ہوگا اور بہت حسین اور ہر طرح کی ناپاکی سے مبرا ہوگا۔ وہاں نہ نسل چلے گی اور نہ اس کی ضرورت اور تمام نعمتیں ابدی ہوں گی حتیٰ کہ سب جنتی وقت دخول جوان بنادیئے جائیں گے اور جوانی کو بھی خلو اور ہمیشگی ہوگی۔ ان سب لذات پر غالب لذت دیدار باری کی ہوگی جیسے دنیا میں والذین امنواشد حبا اللہ ، ارشاد ہے جنت اس کی مظہر ہوئی گویا تمنائوں کے پورے ہونے کا مقام جنت ہے۔ یہ پاک عورتیں مزاد اخلاق اور شکل و صورت میں ہر طرح سے پاکیزہ ہوں گی اور وہ وبال ہمیشہ رہیں گے یعنی جس قدر نعمتیں انسان چاہتا ہے کہ رہنے کہ بہترین ٹھکانہ ہو رزق کی فراونی ہو ، صحت اور تندرستی ہو اور بہترین رفیق حیات اور یہ سب چیزیں کسی ضائع نہ ہوں تو یہ حقیقتاً اس کے اندر جنت کے حصول کی طلب ہے جو ابدی زندگی کا خاصہ ہے اور اپنی عملی زندگی پہ نافذ بھی کرے۔ امنوا وعملو الصلحت اگر چہ صرف ماننا بھی ایک عمل صالح ہے مگر اپنی بساط تک اس پر عمل کرنا ہی اصل ماننا ہے اور بغیر عمل کے ماننا اگرچہ نہ ماننے سے بہتر ہے مگر ماننے کی ایک کمزور صورت۔ یہاں جنت دوزخ کا اجمال ذکر ہے اور قرآن کا وہ نظریہ کہ انسان لافانی ہے یہ حیات چند روزہ زندگی کی منازل میں سے ایک منزل ہے جو امتحان کا درجہ رکھتی ہے اور اخروی اور ابدی زندگی کا مدارس پر ہے اگر تم نے اللہ کی اطاعت کی تو یقینا فلاح پائو گے ورنہ بہت بڑا خسارہ ۔ اس اخروی زندگی کو بطور نتیجہ ہے ثابت کرنے کے لئے ہی مخلوق کی تخلیق سے بحث کی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گای ہے کہ جب تم کوئی ایسا کام کرنا پسند نہیں کرتے جس کا نتیجہ نہ ہو تو بھلا اس ساری کائنات کا خالق ایسا کیوں کرے گا کہ معاذ اللہ ایک عبث کام کرے اور ایسا فعل جس کا کوئی نتیجہ نہ ہو اسے زیب نہیں دیتا تو نتیجہ کیا ہے کہ یہی کہ اطاعت کرنے والوں کو اپنا قرب بخشے گا جس کا مظہر جنت ہے اور نافرمان بھی اپنے کرتوتوں کے صلہ میں رحمت باری سے دور ہوں جس کا مظہر دوزخ ہے اور تخلیق کا ذکر تے ہوئے ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق بھی بحیثیت مخلوق کے قدرت باری پہ گواہ ہے ، بھلا اس میں کیا حرج ہے کہ مچھر اور مکھی کی مثال دی جائے۔ کفار سے جب قرآن کے اس دعویٰ کا کہ لائو ، اس کی مثل اگر لاسکتے ہو ، جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے ، اللہ کا کلام ہوتا تو مچھر اور مکھی جیسی ادنیٰ مخلوق کا ذکر کرنے کی ضرورت کیا تھی قرآن میں بتوں کی بےبسی اس طرح بیان ہوئی کہ ان سے اگر مکھی بھی کوئی شے چھین لے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے چہ جائیکہ تمہاری حاجت براری کریں مکھی کے ذکر سے بتوں کا عجز بیان کرنا مقصود تھا ، مگر یار لوگوں نے بات نکالی کہ لو اور دیکھو مکھیوں تک کا ذکر ہے اور کہتے ہیں اللہ کا کلام ہے بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت تھی۔ اگرچہ اعتراض بےمحل تھا مگر پھر بھی جواباً ارشاد ہوا کہ اللہ مکھی اور مچھر کے ذکر سے بھلا کیوں شرمائے ، اگرچہ اپنے حجم میں تو یہ چھوٹی سی مخلوق ہے مگر بلحاظ صنعت تو بہت بڑی صنعت ہے۔ اور اس کی قدرت پر گواہ اپنی زندگی گزارنے کے سارے اسلوب جانتی ہے مچھر اپنے لئے غذا حاصل کرتا ہے گھر بناتا ہے ، انڈے اور بچے پیدا کرتا ہے اپنی مرضی سے اڑتا اور بیٹھتا ہے اتنے ننھے سے جسم میں اس قدر سمجھ اور اتنے احساسات کو کس نے جمع کردیا ہے اس کے ایک ایک پر میں رگ وریشے اور ان کی کارکردگی دیکھو۔ مکھی کے ذرا سے سر میں تو دیکھو ، دو آنکھیں جن میں ایک میں تقریباً اٹھارہ ہزار آنکھ ہے کس کی قدرت پر گواہی دے رہی ہیں کون ہے جس نے مکھیوں کو شہد کا چھتہ بنانا سکھایا پھولوں سے رس لے کر شہد بنانا ، ملکہ کا انتخاب اور اس کی اطاعت میں رہنا یا اپنی نسل کو باقی رکھنے کی تدابیر کرنا سکھایا بھلا اس میں شرمندہ ہونے کی کیا بات ہے یہ تو خود عظمت باری پہ گواہ ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ قرآن کریم کے ارشادات ابررحمت کی مثل ہیں ، جیسے بارش یکساں نور و برکت لے کر نازل ہوتی ہے مگر جہاں اس کے سبب باغوں میں پھول کھلتے ہیں وہاں گندگی کے ڈھیروں سے عفونت بھی اٹھتی ہے ۔ اسی طرح قرآن سے مومنین تو راحت و سکون پاتے ہیں اور بدکاروں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا بلکہ اور گمراہ ہوجاتے ہیں اسی گمراہی کا سبب ان کا فسق وفجور بنتا ہے ان کی بدکاری بنتی ہے۔ ایسے لوگ سے جو اللہ وعدہ کرکے توڑ دیتے ہیں کہ ازل سے وعدہ لیا گیا۔ انت بربکم قالوا بلیٰ ، بیشک تو ہی ہماری ہر طرح کی پرورش کرنے والا ہے مگر دنیا میں آکر وعدہ خلافی کی ، اللہ کی اطاعت چھوڑ کر غیر اللہ کے دروازے پر ماتھے رگڑ رہے ہیں یا پھر یہاں ایمان کا دعویٰ کرکے عملاً بدکاری اختیار کرتے ہیں تو یہ لوگ بھی بڑی حد تک اسی وعید کی زد میں ہیں اور جن باتوں کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں چھوڑتے ہیں جنہیں جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین پر فساد پیدا کردیتے ہیں ۔ اپنے خیال کے مطابق خواہ کوئی آجائے کہ وہ قیام امن کے لئے کوشاں ہے اگر اس کا عقیدہ خلاف اسلام ہے تو عقیدہ کا فساد پیدا کرنے والا ہے اور اگر عمل خلاف اسلام ہے تو عملی طور پر مفسد ہے۔ اس بات پر تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اگر امن نصیب ہوا یا انسانیت نے چین کا سانس لیا تو صرف اور صرف اسلام کی گھنی چھائوں میں ، ورنہ لوگ ہر طرف بارود کو آگ دکھا کر امن قائم کر رہے ہیں گناہ صرف گنہگار کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ فاس کا فسق روئے زمین پر تباہی کا باعث بنتا ہے اور اس کی نحوست کی وجہ سے دنیا میں تباہی و بربادی بپا ہوتی ہے جس کے لئے وہ اپنے حصے کے مطابق جوابدہ ہے اور یہ سب کچھ کرکے وہ اپنا نقصان کر رہے ہیں کہ اللہ کی زمین پر فساد پھیلنے والے کبھی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو نہیں ہوسکتے۔ فرمایا ، اے لوگو ! تم اللہ کی عظمت کا اس کی ذات اور صفات کا انکار کس طرح کرسکتے ہو ؟ یعنی کبھی نہیں کرسکتے کہ تم تھے ہی نہیں اس نے تمہیں عدم سے پیدا فرمایا۔ کیف تکفرون باللہ………ثم الیہ ترجعون۔ تم مُردہ تھے ، تخلیق کائنات کے بعد بھی بےجان ذرآت تھے مختلف اغذیہ میں تمہارا وجود منتشر تھا تمہارے وجود کے آبی جز دنیا کے پانیوں میں شامل تھے۔ غرضیکہ آگ ، مٹی ، ہوا اور پانی کے مختلف ذخائر میں تمہارا وجوددور دور تک منتشر اجزاء پر مشتمل تھا پھر اس کی قدرت وسیع کاملہ نے ان کو مختلف مراحل پر جمع فرمایا اور تمہارا تخم صلب پدرا اور سینہ مادر میں جمع کیا پھر وہاں سے تمہارے وجود کی تعمیر شروع فرما کر تمہیں ایک خوبصورت وجود عطا کرکے زندگی بخشی اور اس کا انجام بھی ایک موت ہے جو دوبارہ اجزائے جسمانی کو منتشر کردیتی ہے یہ بات اکثریت کے حکم پر ہے ورنہ انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام مبارک سلامت رہتے ہیں اسی طرح مشاہدہ سے بھی ثابت ہے کہ شہداء کے اجسام صحیح رہتے ہیں۔ دراصل یہاں برزخ کی زندگی بحث نہیں کہ وہ ایک طرح سے عارضی قیام ہے نہ وہاں دارالعمل ہے نہ دارالجزا بلکہ قیامت کا انتظار ہے اور قبر کا عذاب وثواب۔ دراصل اپنی اصلی حیثیت کے مطابق اس انتظار گاہ میں ٹھہرنا ہے۔ سو یہاں صرف مستقل زندگی زیر بحث ہے کہ تمہارے اجزا کو جمع فرما کر تمہیں پھر سے زندگی دے گا جس کے بعد تمہیں کوئی فرصت عمل نصیب نہ ہوگی بلکہ خالق حقیقی کے پاس لوٹ کے جانا ہوگا۔ اس کی بارگاہ میں حاضری دینا ہوگی اس کی پیشی میں کھڑا ہونا ہوگا۔ ھوالذی خلق لکم………وھوبکل شیء علیم۔ وہ ایسی کریم ذات ہے جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہاری خاطر اور خدمت کے لئے پیدا فرمائیں ، صرف اور صرف تمہاری خدمت کرنے کو تمام چیزیں پیدا کردیں اور پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی تو انہیں ٹھیک ٹھیک سات درجوں میں درست فرمایا اور وہ ہر شے سے واقف ہے۔ یہ ارض وسماء یہ ان کی نعمتیں دن رات ، سورج چاند ، پھول پھل ، کھیتی باڑی ، دریا ، سمندر ، بجلی اور ہوا یہ سب قوتیں مخلوق ہیں اسی نے پیدا فرمائی ہیں جو تمہارا خالق ہے تمہاری خدمت کے لئے پیدا کی ہیں اب کس طرح سے جائز ہوسکتا ہے کہ تم اپنے خالق کو چھوڑ کر اپنی خدمت پر مامور مخلوق کو اپنا معبود بنالو اور پھر لطف یہ کہ وہ سب کچھ دیکھ بھی رہا ہے ہر شے سے ہر وقت واقف ہے اور پھر بالآخر تمہیں اس کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنی زندگی کا حساب بھی دینا ہے۔
Top