Al-Qurtubi - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
آیت نمبر 21 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یایھا الناس اعبدوا ربکم علقمہ اور مجاہد نے کہا : ہر وہ آیت جس کی ابتدا میں یا یھا الناس ہے وہ مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور ہر آیت جس کی ابتدا میں یایھا الذین امنوا ہے وہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں : اس قول کا رداس سے ہوجاتا ہے کہ یہ سورة اور سورة نساء مدنی ہیں۔ ان میں یایھا الناس آیا ہے۔ رہا یہ کہ یایھا الذین امنوا جس سورت میں ہے وہ مدنی ہے۔ یہ قول صحیح ہے۔ عروہ بن زبیر نے کہا : ہر حد اور ہر فرض مدینہ طیبہ میں نازل ہوا اور جہاں امم اور عذاب کا ذکر ہے وہ مکہ میں نازل ہوا۔ یہ واضح ہے۔ “ یا ” یایھا میں حرف ندا ہے۔ ای منادیٰ مفرد مبنی بر ضمہ ہے۔ کیونکہ لفظ میں وہ منادیٰ ہے اور ھا تنبیہ کے لئے ہے۔ الناس مرفوع ہے کیونکہ ای کی صفت ہے۔ یہ جمہور نحویوں کے نزدیک ہے، سوائے مازنی کے۔ انہوں نے یا ھذا الرجل میں نصب کے جواز پر قیاس کرتے ہوئے اس میں نصب کو جائز قرار دیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ای کو ضمہ دیا گیا ہے جس طرح مقصود مفرد کو ضمہ دیا جاتا ہے اور ھا کو دوسری یا کے عوض ذکر کیا یا کو ذکر نہیں کیا تاکہ کلام منقطع نہ ہوجائے۔ ھا کو ذکر کیا تاکہ کلام متصل رہے۔ سیبویہ نے کہا : گویا تو نے یا کو دوبارہ ذکر کیا۔ اور اسم ان دونوں کے درمیان ہوگیا جس طرح وہ کہتے ہیں : ھا ھوذا۔ بعض علماء نے فرمایا : جب دو حریف تعریف سے خالی منادیٰ کی صورت میں ذکر کیے اور اس پر معرف باللام المقصود بالنداء کے احکام پر جاری کئے اور اس کے رفع کا التزام کیا کیونکہ وہ مقصود بالنداء ہے، پس انہوں نے ایسی حرکت کے ساتھ اس کو اعراب دیا جس کا وہ مستحق تھا اگر اس کے ساتھ حرف ندا ملا ہوا ہوتا اس بات پر تنبیہ کرتے ہوئے کہ یہ منادیٰ ہے۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ الناس سے کون مراد ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ کفار مراد ہیں جنہوں نے عبادت نہ کی۔ اس پر یہ قول دلالت کرتا ہے وان کنتم فی ریب (البقرہ : 23) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کو شامل ہے۔ پس مومنین کے لئے خطاب ہمیشہ عبادت کرتے رہنے کے لئے ہے اور کفار کے لئے عبادت شروع کرنے کے لئے ہے۔ یہ قول عمدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اعبدوا یہ عبادت کا حکم ہے۔ یہاں عبادت سے مراد اس کی توحید کا اقرار اور اس کے دین کی شرائع کا التزام ہے۔ عبادت کی اصل خضوع اور تذلیل ہے، کہا جاتا ہے : طریق معبدۃ، جب راستہ قدموں سے روندا گیا ہو طرفہ نے کہا : وظیفا وظیفاً فوق مور معبد۔ میں موٹی پنڈلیوں والی اونٹنی کے پیچھے روندے ہوئے راستہ کے اوپر چلا۔ عبادت کا معنی طاعت ہے۔ التعبد کا معنی التنسک (احکام بجا لانا) عبدت فلاناً میں نے اسے غلام بنایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذی خلقکم اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کو خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ عرب اس بات کے مقر تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر بطور حجت اس کو ذکر کیا اور انہیں متنبہ کرنے کے لئے اس صفت کو ذکر کیا۔ بعض علماء نے فرمایا تاکہ انہیں اپنی نعمت یاد دلائے جو اس نے ان پر کی ہوئی ہے۔ الخلق کی اصل میں دو وجہیں ہیں : 1 : تقدیر۔ کہا جاتا ہے خلقت الادیم للسقاء جب تو چمڑے کو مشکیزے کے لئے کاٹنے سے پہلے اندازہ کرے تو یہ جملہ بولے۔ شاعر نے کہا : ولانت تفری ما خلقت وبعد ضالقوم یخلق ثم لا یفری تو وہ ہے کہ جس کا تو اندازہ کرتا ہے اسے کر گزرتا ہے اور بعض لوگ اندازہ کرتے ہیں پھر اس کام کو کر نہیں سکتے۔ حجاج نے کہا : ما خلقت الافریت ولا وعدت الا وفیت یعنی میں نے کبھی اندازہ نہیں کیا مگر اسے کر گزرا۔ اور میں نے کبھی وعدہ نہیں کیا مگر میں نے اسے پورا کیا۔ 2۔ خلق کا دوسرا معنی انشاء اختراع اور ابداع ہے (یعنی پیدا کرنا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتخلقون افکا (عنکبوت :17) اور تم گھڑا کرتے ہو نرا جھوٹ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذین من قبلکم کہا جاتا ہے کہ جب ان کے نزدیک ان کی تخلیق ثابت تھی تو دوسروں کی تخلیق بھی ان کے نزدیک ثابت تھی (تو پھر پہلے لوگوں کی تخلیق کا ذکر کیوں کیا) ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کلام کو تنبیہ اور تذکیر کے لئے جاری فرمایا تاکہ نصیحت میں بلیغ ہوجائے۔ انہیں پہلے لوگ یاد دلائے تاکہ وہ جان لیں کہ جس ذات نے ان سے پہلے لوگوں کو موت دی اور وہ ان کا بھی خالق ہے، انہیں بھی مارے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے لوگوں میں غوروفکر کریں کہ وہ کیسے تھے اور کن امور کی بناء پر ہلاک ہوئے، تاکہ وہ جان لیں کہ انہیں بھی مبتلا کیا جائے گا جیسے وہ لوگ مبتلا کئے گئے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لعلکم تتقون، لعل اعبدوا کے متعلق ہے، خلقکم کے متعلق نہیں ہے، کیونکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے لئے پیدا فرمایا ہے اس نے انہیں تقویٰ کے لئے پیدا نہیں فرمایا۔ اس قسم کا کلام جو کلام الٰہی میں وارد ہے مثلاً لعلکم تعقلون، لعلکم تشکرون، لعلکم تذکرون، لعلکم تھتدون، تو اس میں تین تاویلات ہیں : 1۔ لعل ترجی اور توقع کے معنی میں ہے اور ترجی اور توقع یہ بشر کی چیز میں ہے۔ گویا انہیں کہا گیا یہ کرو اس امید پر کہ تم سمجھ جاؤ، تم نصیحت حاصل کرلو اور متقی بن جاؤ۔ یہ سیبویہ اور زبان عرب کے رؤساء کا قول ہے۔ سیبویہ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق کہا : اذھبا الیٰ فرعون انہ طغیٰ ۔ فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکراو یخشیٰ ۔ (طہٰ ) اس کا معنی ہے تم اپنی اس طمع اور رجا پر جاؤ کہ وہ نصیحت حاصل کرے گا یا ڈرے گا۔ اس قول کو ابو المعالی نے پسند کیا ہے۔ 2۔ عرب لعل کو شک سے پاک لام کی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ معنی یہ ہوگا تاکہ تم سمجھ جاؤ، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ اس پر شاعر کا قول دلالت کرتا ہے : وقلتم لنا کفوا الحروب لعلنا نکف و وثقتم لنا کل موثق فلما کففنا الحرب کا نت عھود کم کلمع سراب فی الملاء متالق تم نے ہمیں کہا : جنگ روک لو تاکہ ہم رک جائیں اور تم نے ہمیں ہر پختہ عہد دیا۔ جب ہم نے جنگ کو روک لیا تو تمہارے عہد صحرا میں سراب کی چمک کی طرح تھے۔ مطلب یہ ہے کہ کفوا الحروب لنکف۔ جنگ کو روکو تاکہ ہم روک لیں۔ اگر لعل یہاں شک کے لئے ہوتا تو وہ ان کے لئے ہر پختہ عہد نہ کرتے۔ یہ قول قطرب اور طبری سے منقول ہے۔ 3۔ لعل اس معنی میں ہے کہ کسی شے سے تعرض کرنا۔ گویا کہ کہا گیا : یہ کرو تعرض کرتے ہوئے تاکہ سمجھ جاؤ یا نصیحت حاصل کرلو، یا متقی بن جاؤ۔ لعلکم تتقون کا معنی ہے تاکہ تم امر الٰہی کی قبولیت کو اپنے اور آگ کے درمیان بچاؤ کا ذریعہ بنا لو۔ یہ عربوں کے اس قول سے ہے اتقاہ بحقہ۔ جب تو اس کے حق کو قبول کرے گویا اس نے اسے اپنا حق دے کر اس کے مطالبہ سے بچاؤ حاصل کرلیا، اسی سے حضرت علی کا قول ہے : کنا اذا احمرالبأس اتقینا بالنبی ﷺ (1) ۔ جب جنگ شدید ہوجاتی تو ہم نبی کریم ﷺ کی ذات کو دشمن سے بچاؤ کا ذریعہ بناتے، عشرہ نے کہا۔ ولقد کر رت المھر یدمی نحرہ حتی اتقتنی الخیل یا بنی حذیم میں نے گھوڑے کو پلٹایا حالانکہ اس کا سینہ زخمی تھا، حتیٰ کہ گھوڑوں نے مجھے میرے بیٹے حذیم کے ساتھ بچایا۔
Top