Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
سابقہ سے ربط : ربط : جب اللہ تعالیٰ نے مکلفین کی تین جماعتوں مؤمن، کفار اور منافقین کا ذکر اور ان کی صفات حالات خصوصیات جن سے وہ سعادت مندوبد بخت اور مردود، مقبول ہوتے ہیں بیان کردیں۔ تو یہاں سے ان کو مخاطب فرمایا۔ یہ التفات کی قسم میں ہے۔ پس فرمایا۔ خطابِ عام : یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ : (اے لوگو) حضرت علقمہ نے فرمایا قرآن میں یایھا الناس سے خطاب اہل مکہ کو ہے اور یایھا الذین اٰمنوا سے اہل مدینہ کو خطاب کیا۔ یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے۔ نحو : یا حرف ندا بعید ہے ای اور ہمزہ قریب کے لئے۔ پھر بھولنے والے اور غافل کو آواز دینے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ خواہ وہ بالکل قریب ہو۔ اس کو دور شمار کر کے۔ جب اس سے قریب رہنے والوں کو خطاب کریں۔ تو تاکید کے لئے ہوگا۔ اور اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوگا۔ کہ یہ خطاب بہت قابل توجہ ہے۔ یا ربّ کا مطلب : سوال : دعا کرنے والے کا کہنا۔ یا رب حالانکہ وہ توشہ رگ سے قریب تر ہے۔ جواب : یہ کسر نفسی ہے اور نفس مقام قرب سے بہت دور ہے ْنفس کو مٹاتے ہوئے اپنی کوتاہی کا اقرار ہے اس کے ساتھ ساتھ، کہ اس کی دعا کو قبول کرلینے میں بہت جلدی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ ایّ : الف لام والے منادٰی کے ساتھ لگاتے ہیں۔ جیسا کہ ذو اور الذی کو اسم جنس کی صفت بنانے کے لیے لایا جاتا ہے اور معرفہ کی صفت کیلئے جبکہ اس کو جملہ لائیں۔ یہ اسم مبہم ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرنا ضروری ہے اس لیے اس کے بعد اسم جنس لانا پڑے گا۔ یا جو صفت کیلئے اس کے قائم مقام بن سکے۔ تاکہ اس نداء کا مقصود واضح ہو جو کہ یا کا معمول ہے۔ صفت منادٰی کے تابع ہوتی ہے۔ البتہ ایّ کا لفظ بذات خود مستقل نہیں جیسا اس مثال میں زید یا زید الظّریف۔ اس لیے ایّ اپنی صفت سے الگ نہیں رہا۔ صفت موصوف کے درمیان کلمہ تنبیہ لایا گیا۔ تاکہ نداء کا معنی مؤکد ہوجائے اور اضافت کا بدل بن جائے۔ قرآن مجید میں اضافت کا طریقہ بہت استعمال ہوا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندوں کو نداء دی یعنی اوامر ونواھی وعدے، وعیدیں، عظیم کام بڑے مصائب بتلائے، ضروری تھا بندے ان کی طرف دلوں سے مائل اور متوجہ ہوں۔ جبکہ بندے اس سے غفلت کا شکار ہیں۔ تو پھر مؤکد تبلیغ سے ان کو خطاب کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے اس طرح خطاب کیا گیا۔ ابن عباس ؓ کا قول : اعْبُدُوْارَبَّکُمُ : (اس کو اکیلا جانو) حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں عبادت کا لفظ جہاں بھی قرآن میں ہے اس سے مراد توحید ہے۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ : یہ وضاحت و امتیاز کرنے والی صفت ہے۔ کیونکہ کفار مکہ اپنے ٰالہہ کو رب کہتے تھے۔ تعریف خلق : الخلق۔ معدوم کو ایک اندازے اور درستگی سے ایجاد کرنا۔ معتزلہ کے نزدیک کسی چیز کو اندازے اور درستگی سے بنانا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ معتزلہ معدوم کو شئی مانتے ہیں۔ شئی کی تعریف ان کے ہاں جس کو جانا جائے اور اس کے متعلق خبر دی جائے۔ اہلسنّت کے نزدیک شئی موجود کو کہتے ہیں۔ خلقکم : ابو عمروکے ہاں ادغام کے ساتھ دلیلِ تخلیق : وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ : (اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے ہوئے) اس سے دلیل بیان فرمائی۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے اور ان سے پہلوں کا بھی خالق ہے۔ سو اس لیے کہ وہ اس کے اقراری تھے۔ پس انہیں کہا گیا۔ کہ اگر تم اس کو خالق مانتے ہو تو اسی ہی کی عبادت کرو۔ اور بتوں کی عبادت نہ کرو۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ : (تاکہ تم متقی بن جائو) یعنی اس امید پر عبادت کرو تاکہ تم متقی بن جائو۔ تاکہ اس کے سبب تم عذاب سے نجات پاجائو۔ لعل کا استعمال : لعلّ : کا لفظ ترجی اور طمع کیلئے ہے لیکن سب سے بڑی سخی ذات کی طرف سے طمع دلائی گئی۔ جو کہ حتمی وعدے کی طرح ہوگئی۔ یہ سیبو یہ کا قول ہے۔ قطرب نحوی کہتے ہیں کہ لعل یہاں کَیْ کے ہم معنی ہے یعنی تاکہ تم متقی بن جائو۔ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ : (وہ ذات جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو) نحو : جَعَلَ ، صَیَّرَ کے معنی میں ہے اور الذی صفت کی بناء پر محلا ً منصوب ہے یاھُوَکو مبتداء مانیں تو مرفوع ہے۔ فِرَاشًا (بچھونا) قالین کی طرح کہ اس پر بیٹھتے اور سوتے، آتے جاتے ہو، یہ جعل کا دوسرا مفعول ہے۔ اس میں کوئی دلیل نہیں کہ زمین مسطح یا کروی ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں بوریے کی طرح ہونا ممکن ہے۔ وَالسَّمَآئَ بِنَآئً : (اور آسمان کو چھت) چھت جیسا سورة الانبیاء آیت نمبر 32 میں وَجَعَلْنَا السَّمَائَ سقفا محفوظًا۔ بناء جو مصدر ہے مگر مراد اس سے عمارت ہے۔ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً : (اور اس نے اتارا آسمان سے پانی) مآء سے مراد بارش ہے۔ حکمت تدریج : فَاَخْرَجَ بِہٖ : (پس اس نے نکالا) یعنی بالماء پانی کے ذریعہ۔ پھلوں کا نکلنا۔ اگرچہ قدرت الٰہی سے ہے مگر پانی کو اس کے نکلنے کا ظاہری سبب بنایا۔ جس طرح (ماء الفحل فی خلق الولد) نر کا پانی بچے کی پیدائش میں سبب ہے باقی قدرت باری تعالیٰ بلا سبب پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اسباب، مواد کی ذاتیں (محض قدرت الٰہی کا نتیجہ ہیں) لیکن اللہ تعالیٰ نے اشیاء کی پیدائش میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف تدریج رکھی ہے۔ اور ایک مرتبہ سے دوسرے مرتبہ کی طرف انتقال رکھا۔ تاکہ بصیرت کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے لیے عبرت و حکمت کا باعث ہو۔ مِنَ الثَّمَرٰتِ : (پھلوں سے رزق) مِنَ الثمرات میں مِن کا لفظ تبعیض یا بیان کے لیے ہے۔ (یعنی بعض پھل یا پھل نکالے) نحوی تحقیق : رِزْقًا لَّکُمْ : (تمہارے لیے) نحو : اگر من تبعیض کے لیے ہو تو یہ مفعول لہٗ ہے اور اگر من بیانیہ ہو تو مفعول بہٖ ہے الثمرات فرمایا الثمر اور الثمار نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ پانی سے نکالے جانے والے پھل بیشمار ہیں کیونکہ مراد پھلوں کی جماعت ہے کیونکہ جمع بعض کی جگہ بعض اکیلی آتی ہے کیونکہ جمعیت میں جا کر تمام مل جاتی ہیں۔ نحو : لکم اگر اس سے مراد معین ہو تو پھر یہ جار مجرور رزق کی صفت ہے اور اگر اس کو معنی کے لحاظ سے اسم مانا جائے تو پھر یہ مفعول بہٖ ہے گویا اس طرح فرمایا رزقا ایاکم رزق دینا تمہیں کو رزق خاص تمہارا۔ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا : (پس تم نہ بنائو شریک اللہ کے لیے) یہ امر سے متعلق ہے یعنی تم اپنے رب کی عبادت کرو۔ اور اس کا شریک مت بنائو۔ کیونکہ عبادت کی جڑ اور بنیاد توحید ہے۔ اور یہ کہ اس کا کسی کو ساتھی وشریک نہ بنایا جائے۔ نحو : الذی مبتداء فلا تجعلوا خبر ہے فلا تجعلوا پر فاء اس لیے لائے کہ کلام میں جزاء کا معنی پایا جاتا ہے یعنی وہ ذات جس کی بڑی بڑی نشانیاں تمہارے ارد گرد ہیں اور روشن دلائل اس کی وحدانیت پر گواہ ہیں پس تم اس کے شریک مت تجویز کرو۔ معنی ند : الند : ایسا مثل جو مخالف و منافی ہو البتہ اس مشہور قول لیس للّٰہ ند ولا مند اصل میں یہ جملے جن کو اس کے قائم مقام بنایا جاتا ہے یا جو اس کے منافی مانے جاتے ہیں ان سب کی نفی مراد ہے۔ وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : (حالانکہ تم جانتے ہو) کہ وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی رزق دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق و رازق ہیں یا تعلمون کا مفعول چھوڑ دیا گیا۔ یعنی تم اہل علم ہو اور بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا انتہائی جہالت ہے۔ نحو : جملہ انتم تعلمون۔ فلا تجعلوا کی ضمیر سے حال ہے۔ ربط : وحدانیت کے ثبوت اور ابطال شرک پر حجت قائم کردی۔ کہ اس کو ان کے خلق واحیاء پر قدرت ہے اس نے زمین کو ان کی رہائش گاہ اور مستقر بنایا۔ اور آسمان کو لگے ہوئے خیمے اور قبے کی طرح مضبوط بنایا۔ اور اس طرح کردیا۔ کہ جیسے زمین و آسمان میں پانی اتارنے سے مناکحت کا رشتہ ہو زمین کے پیٹ سے نسل کی طرح بنی آدم کے لیے پھل پیدا کر دئیے۔ یہ سارے دلائل توحید کی طرف رہنمائی کرتے اور شرک کو باطل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ مخلوقات کی کوئی چیز اپنے میں سے کسی چیز کے ایجاد کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔
Top