Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جس نے تمہیں اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کو پیدا کیا ہے تاکہ تم پرہیزگاربن جاؤ
عبادت کا مطالعہ تشریح : اس آیت مبارکہ میں پہلی دفعہ انسان کو مخاطب کرکے عبادت کے لئے کہا جارہا ہے۔ اس سورت کے شروع میں متقین کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد کفار کے بارے میں بتایا گیا اور پھر منافق کی توضیح کی گئی ہے۔ اب پوری نوع انسانی کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ عبادت گزاری کی دعوت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اپنے رب یعنی خالق ومالک کو اس کی صفات اور مصنوعات سے پہچانو، اس نے تمہیں پیدا کیا اور ان تمام لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اس میں دنیا کا فانی ہونا بھی بتایا گیا جب انسان خالق حقیقی کو پہچان لیتا ہے تو پھر وہ کامل عبد متقی کی راہ اختیار کرلیتا ہے جب نیکی کی راہ مل جاتی ہے تو پھر اللہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا بہت آسان ہوجاتا ہے عبد کا مطلب ہے اللہ کے احکامات کو عاجزی اور ادب سے ماننے والا، یوں تقویٰ اختیار کرنے کی راہ کھل جاتی ہے اور جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اللہ اس کو آسان اور واضح کرتا چلا جاتا ہے اس کی راہ پر چلنے کے لئے سب سے پہلے توحید، پھر نماز، پھر روزہ، پھر زکوٰۃ، پھر حج یہ عقائد و عبادات اور احکامات ہیں جن کو پورا کرنے سے انسان مرد کامل بن جاتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی ذاتی فائدہ ہرگز نہیں بلکہ خود انسان کے لئے تقویٰ ، روحانی ترقی، معرفت و سکون اور دنیا و آخرت کی سربلندیاں حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر ہر انسان متقی بن جائے تو معاشرہ تمام برائیوں سے بالکل پاک صاف ہوجائے اور دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ اسی طرح آیت 21 میں کڑک اور چمک کا ذکر کیا گیا جو کہ بہت بڑی قدرتی طاقتیں ہیں یہ زمین کو ذرخیزی میں بہت مدد دیتی ہیں۔ اسی طرح قرآن میں فضائی چھت سات حصوں پر مشتمل ہے جس کا ذکر اکثر جگہ پر کیا گیا ہے۔ سورة نباء میں واضح طور پر کہا گیا ہے۔﴿وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا۝ 12ۙ﴾ تمہارے اوپرسات مضبوط رکاوٹیں ہیں۔ اسی ضمن میں آیت نمبر 22 میں بھی پانی کے آسمان سے نازل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حقیقت کو 1980 میں ناسا (NASA) نے ثابت کیا کہ آسمانوں کی طرف سے برفانی تودے زمین کی طرف گرتے رہتے ہیں جو کہ فضائی چھت کی رگڑ سے بخارات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اور پھر قطروں کی صورت میں زمین پر گرتے رہتے ہیں اور انسان کے لیے انتہائی پاک صاف پانی کا بندوبست رب کریم کرتے رہتے ہیں۔ اب تک یہی معلوم ہوا کہ پورا قرآن پاک ایک مقصد سے دوسرے مقصد تک موتیوں کی طرح پرویا گیا ہے پہلے سورة فاتحہ اور پھر سورة بقرہ کی ابتداء ایک کے بعد دوسرا موضوع آتا جارہا ہے۔
Top