Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ
: اے لوگو
اعْبُدُوْا
: عبادت کرو
رَبَّكُمُ
: تم اپنے رب کی
الَّذِیْ
: جس نے
خَلَقَكُمْ
: تمہیں پیدا کیا
وَالَّذِیْنَ
: اور وہ لوگ جو
مِنْ
: سے
قَبْلِكُمْ
: تم سے پہلے
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تَتَّقُوْنَ
: تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو اپنے اس رب کی عبادت کیا کرو کہ جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ
ترکیب : یا حرف ندا ایہا الناس منادیٰ اعبدوا فعل بافاعل ربکم اس کا مفعول موصوف ‘ الذی موصول ‘ خلقکم صلہ جملہ فعلیہ معطوف علیہ و الذین من قبلکم ای والذین خلقہم من قبل خلقکم صلہ موصول جملہ ہو کر معطوف ہوا معطوف علیہ اور معطوف مل کر دونوں صفت ہوئے ربکم کی۔ لعل مشبہ بفعل کم اسم تتقون جملہ اس کی خبر الذی موصول جعل فعل بافاعل لکم متعلق بجعل الارض مفعول اول فراشا مفعول ثانی۔ واؤ حرف عطف السماء معطوف برالارض یعنی جعل السماء بناء مفعول ثانی یہ سب جملہ صلہ ھوا الذی کا وانزل فعل بافاعل من السماء من ابتدائیہ متعلق ہے انزل سے مائً مفعول انزل کا فاخرج فعل بافاعل بہ ای بالماء متعلق ہے اخرج کے من الثمرات میں من تبعیضیہ بمعنی بعض الثمرات مفعول ہوا اخرج کا اور رزقالکم مفعول لہ ہوا یا رزقا مفعول بہ ہے اخرج کا اور من الثمرات اس کا بیان ہے فلا تجعلوا فعل بافاعل للہ متعلق ہے لاتجعلوا کے اندادًا مفعول ہے اور انتم تعلمون جملہ فعلیہ خبر یہ حال ہے ضمیر فاعل لاتجعلوا سے پس انزل معہ جمیع متعلقات معطوف ہوا جعل پر اور صلہ میں داخل ہوا اور یہ موصول و صلہ دوسری صفت ہے رب کی۔ تفسیر : یعنی اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو کہ جس نے تم کو اور تم سے جس قدر پہلے ہیں سب کو معدوم سے موجود کردیا پھر جو اس قدر قدرت و عظمت رکھتا ہے وہی مستحق عبادت ہے نہ کہ تمہارے خیالی معبود اور وہمی پروردگار اور عبادت اس لیے کرو کہ اس سے تم کو صفت تقویٰ حاصل ہوجائے گی کیونکہ عبادت ہمہ تن جناب باری کی طرف بعجز و انکسار متوجہ ہونے کو کہتے ہیں۔ پس جب بندہ اپنی روح سے اور اپنے جسم سے اس کی طرف متوجہ ہوتا اور اس کے آگے سر عجز و نیاز رکھتا ہے تو اس کی روح پر انوار باری تعالیٰ کی ایسی چمک پڑتی ہے جیسی آفتاب کی آئینہ میں۔ جب یہ حال ہوگا تو بالضرور متقی ہوجاوے گا اور سعادت ابدی کا حصہ پاوے گا۔ دنیا میں دیکھئے جب گھڑی دو گھڑی لوہا آگ میں رہتا ہے تو اس کی صحبت سے گرم بلکہ انگارا ہوجاتا ہے اور جب پھول کو کسی کپڑے میں رکھتے ہیں تو وہ خوشبو سے بس جاتا ہے۔ الغرض ہر موثر کا متاثر میں اثر ہوتا ہے۔ پھر جناب باری کا روح پر اثر نہ پڑنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ضرور قوی اثر پڑتا ہے کہ جس سے کبھی کبھی بندہ سے برخلاف اسباب عادیہ وہ باتیں بھی سرزد ہونے لگتی ہیں جو فوق قدرت انسانیہ سمجھی جاتی ہیں اور چونکہ عبادت بندہ اور خالق میں ایک عجیب رابطہ اور نسبت شریفہ ہے تو اس لیے ضرور ہوا کہ یہ فعل کسی اور کے ساتھ نہ کیا جائے لہٰذا معبود کی شناخت بھی بیان کردی ہے کہ رب وہ ہے جس نے تم کو اور تم سے سب پہلوں کو پیدا کیا اور وہ ہے کہ جس نے تمہارے آرام کے لیے زمین کو فرش بنا دیا یعنی اس کے ایک ٹکڑے کو چوطرفہ پانی سے باہر لایا اور پھر اس کو نہ ایسا نرم کیا جیسا کہ گارا یا ہوا۔ نہ ایسا سخت و مدور کیا کہ جس پر سے انسان لڑک پڑے بلکہ ایسا کہ اس پر تمام لوگ رہتے اور سوتے اور بیٹھتے اور چلتے پھرتے ہیں یہ بڑی بھاری نعمت ہے اور رب وہ ہے کہ جس نے آسمان کو تم پر خیمہ بنا دیا گویا زمین فرش اور آسمان اس کی چھت ہے اور پھر اس رب نے اس گھر میں رکھ کر تمہاری روزمرہ دعوت اور ضیافت کا بھی عجیب سامان کیا کہ اوپر سے پانی برسایا اور اس سے رنگ برنگ کے پھول اور پھل پیدا کئے کہ جن کو تم کھاتے ‘ آرام و راحت پاتے ہو اور جس میں یہ تین وصف نہیں وہ حقیقی رب نہیں اول تمام مخلوقات کا پیدا کرنا۔ دوم آسمان کو خیمہ اور زمین کو فرش بنا کے اس پر تکلف مکان میں رکھنا۔ سوم قسم قسم کے کھانے کھلانا اور جو رب نہیں وہ عبادت کے قابل بھی نہیں۔ اس لطیف بیان سے تمام خیالی معبودوں کی عبادت اور بتوں کی پرستش کو باطل کردیا۔ فرمایا کہ باوجود اس علم کے جو ہر انسان کو عطا ہوا ہے خدا کا کسی کو شریک نہ بناؤ اس میں اشارہ ہے کہ مشرکین ذرا بھی غور و تامل کریں تو کسی کو شریک نہ بنائیں۔ متعلقات : لعلِ : زبان عرب میں اس جگہ کو بولتے ہیں کہ جہاں کسی چیز کے حاصل ہونے کی توقع اور امید ہوتی ہے اور یقین نہیں ہوتا ہے۔ گو اس لحاظ سے جناب باری تعالیٰ کا اس کلمہ کو استعمال میں لانا محال معلوم ہوتا ہے مگر خدائے تعالیٰ کا استعمال کرنا جب محال ہو تاکہ جب اس کو کسی چیز کے علم میں شک و تردد ہوتا لیکن چونکہ وہ بندوں کے محاورہ میں کلام کرتا ہے اور جس موقع پر بندے اس کلمہ کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی کرتا ہے جس طرح کہ رحمت و غضب منہ و قدم وغیرہا الفاظ کا استعمال ہوا ہے اب یہ تاویلات کرنا کہ لعل بمعنی کے ہے یا توقع بحال مخاطب ہے بےفائدہ ہے۔ انداد : ند کی جمع ہے اور ند اس کو کہتے ہیں کہ جو برابر کا مخالف ہو۔ مشرکین گو کسی کو خدا کے برابر ذات میں نہ سمجھتے تھے مگر جب عبادت و استعانت ‘ نذرو نیاز ‘ ادب وتعظیم ان کی بھی اسی طرح کرتے تھے کہ جس طرح خدا کی تو گویا انہوں نے اپنے معبدوں کو خدا کے برابر سمجھا۔ لعلکم تتقون : اگرچہ بظاہر عبادت اور تقویٰ ایک ہی چیز ہے اور اس تقدیر پر کلام کی یہ صورت ہوجاوے گی عبادت کرو تاکہ تم عبادت کرنے والے ہوجاؤ لیکن ابتداء کے لحاظ سے تقویٰ اور عبادت دو چیز ہیں۔ کس لیے کہ عبادت کے معنی نسبت عبودیت کی تصحیح کرنا ہے اور اس کا درجہ اخیر تقویٰ ہے اولین یہ ہے کہ تقویٰ کے لغوی معنی مراد لیے جائیں یعنی عبادت کرو تاکہ روح کو قوت اور نفس بہیمیہ کو ضعف حاصل ہو جس سے گناہوں سے بچو اور غضب الٰہی سے مامون اور محفوظ رہو اور اسی لیے ارباب کشف نے فرمایا ہے کہ جس قدر ذکر الٰہی اور اس کی طرف توجہ کرنے سے روح کو صفائی اور گناہوں سے نفرت ہوتی ہے وہ مہینوں کی ریاضت اور نفس کشی اور فاقہ سے حاصل نہیں ہوتی چناچہ کلام ربانی میں بھی آیا ہے ان الصلوٰۃ تنہٰی عن الفحشاء والمنکر کہ نماز، زنا اور بری باتوں سے روکتی ہے من جملہ اور فوائدِ عبادت کے ایک بڑا فائدہ تصحیح اخلاق فاضلہ ہے۔ نکات : (1) اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس آیت میں عبادت کا حکم دیا کہ جو خدا اور بندہ میں نہایت عمدہ رابطہ ہے اور چونکہ عبادت نفس پر نہایت شاق اور سخت گراں گزرتی ہے اور علاوہ اس کے آنحضرت (علیہ السلام) کے عہد میں تمام عالم میں مخلوق پرستی کی اندھیریاں ابر سیاہ کی طرح محیط تھیں بالخصوص مکہ میں عموماً بت پرستی تھی اور صدہا لوگ الحادو دہریت کی وادی ضلالت میں حیران و سرگرداں تھے۔ نہ عالم کی ابتدا نہ انتہا مانتے تھے ‘ نہ اس عالم کے بانی کا وجود تسلیم کرتے تھے ‘ نہ عالم آخرت کے ثواب و عقاب جزائے اعمال کے معتقد تھے جیسا کہ آج کل یورپ میں ایسے ہزاروں آدمی ہیں پس ان لوگوں کو مخاطب بنا کے بلا دفع شکوک عبادت کا حکم دینا اپنی ذات وصفات کا ثبوت نہ کرنا مفید مدعٰی نہ تھا اسی لیے خدا تعالیٰ نے اسی آیت میں ان باتوں کا تدارک کردیا۔ اعنی یوں نہ کہا کہ میری عبادت کرو یا خدا کی عبادت کرو بلکہ یوں فرمایا کہ اپنے رب یعنی ہر وقت پرورش کرنے والے کی عبادت کرو اور یہ جبلی بات ہے کہ جب کسی شخص سے طاعت لینی مقصود ہوتی ہے تو اس کو اپنی نعمتوں اور بخششوں کو یاد دلاتے ہیں۔ اس وقت آقا و لی نعمت کے اطاعت کرنے کو از خود دل چاہا کرتا ہے اس لیے اعبدو اربکم فرمایا اس کے بعد نفس کو اور بھی نعمائِ بےحد یاد دلا کر عبادت کا مشتاق کیا اور مشقت عبادت کو آقا نامدار کے بےحد احسانوں کے مقابلہ میں نہایت سبک کردیا کہ الذی خلقکم والذین من قبلکم اس رب کی عبادت کرو کہ جس نے تم پر بےحد احسان کیا کہ تم کو اور تمہارے بزرگوں کو پیدا کیا۔ نہ یہ کہ کچھ دام لے کر مول لیا جس حالت میں کہ چند روپے دے کر خرید لینے سے غلام پر کیسے کچھ حقوق عبادت وطاعت فرض ہوجاتے ہیں چہ جائیکہ جس نے زندگی عطا فرمائی اور ہاتھ پائوں ناک وغیرہ صدہا بےبہا نعمتیں عطا کیں اور یہ عنایت نہ صرف تم پر بلکہ تمہارے آباؤ اجداد پر بھی ہے یعنی تم قدیمی خانہ زاد اور پروردئہ نعمت ہو جب بندہ ان معانی کا لحاظ کرے گا تو اس پر سو جان سے فدا ہوگا ؎ اے خدا قربان احسانت شوم ایں چہ احسان ست قربانت شوم اس جملہ سے جس طرح نفس کو مشقت عبادت اٹھانے پر آمادہ کردیا اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت کردیا کہ عبادت خاص اسی کی ذات پاک کا حق ہے۔ کس لیے کہ خدا کے سوائے جن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو ان میں کسی نے بھی نہ تم کو پیدا کیا ہے نہ تمہارے باپ دادا کو نہ تمہاری پرورش کی ہے کیونکہ جس طرح تم محتاج اسی طرح وہ چیزیں بھی۔ ان کو بلاوجہ کسی امر کا مالک سمجھ کر عبادت کرنا خیال باطل اور ظلمت ہیولانیہ کا مقتضی ہے۔ سینکڑوں جاہل حضرات اولیاء و انبیاء 1 ؎ و ملائکہ و دیگر غیر محسوس چیزوں اور ارواح غیر مرئیہ کو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری حاجات کو پورا کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی پرستش نہ کریں تو ہمارے کاروبار میں فرق آجاوے اور وہ لوگ ہم کو مضرت پہنچائیں اور اس پر اتفاقاً مراد کا حاصل ہوجانا یا کسی عبادت میں اتفاقاً کوئی حادثہ پیش آنا ان کے خیال باطل کی اور بھی قوی دلیل ہوجاتا ہے مگر درحقیقت یہ قوت وہمیہ کی کاریگری ہے اور کچھ نہیں جس طرح شب کو تنہا مکان میں عوام کو مردہ سے ڈراتی اور بلند مکان پر چلنے سے پائوں لڑکھڑاتی ہے۔ اسی طرح ان لوگوں سے نفع و نقصان پہنچنے کا اعتقاد بھی یہی قوت متوہمہ دلاتی ہے ورنہ امکان اور احتیاج میں دونوں برابر پھر عبادت ناحق ہے اور جس طرح اس برہان نے شرک کی جڑ کو کاٹ دیا اسی طرح اس نے الحاد اور دہریت کے درخت کو بھی جڑ پیڑ سے اکھاڑ دیا کیونکہ اپنا حادث ہونا اور عالم نیست سے ہست میں آنا تو ایسا بدیہی امر ہے کہ جس میں کسی ملحد یا دہر یہ کو کچھ بھی شک نہیں۔ جس دہریہ سے چاہے پوچھ دیکھئے کہ تمہاری کتنی عمر ہے وہ ضرور بیس، تیس، چالیس، پچاس کوئی عدد یقینی یا تخمینی بیان کرے گا جس کے یہ معنی کہ ہم کو موجود ہوئے اتنے برس ہوئے۔ اب اس سے پوچھئے کہ آیا آپ خود بخود پیدا ہوگئے یا کسی نے تم کو پیدا کیا ہے اور پھر وہ پیدا کرنے والا ممکن ہے یا واجب۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا۔ ورنہ واجب الوجود ہوجاتا اور ہمیشہ سے پایا جاتا اور پھر معدوم نہ ہوتا کیونکہ جس کا وجود اپنا ہوتا ہے وہ ہمیشہ رہتا ہے، یہ بدیہی بات ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ممکن نہیں ورنہ تسلسل لازم آوے اور پھر اس ممکن کے پیدا کرنے والے اور پھر اس کے پیدا کرنے والے میں کلام کیا جاوے اور یہ سلسلہ کسی واجب الوجود کی طرف منتہی مانا جاوے گا جس نے ہم کو اس خوبی اور محبوبی کی شان میں پیدا کیا وہ رب ہے جس کا ہر زبان میں ایک جدا نام ہے اور جب وہ خالق ہے تو اس میں علم وقدرت ‘ حیات ‘ ارادہ وغیرہ وغیرہ عمدہ صفات بھی ہیں خواہ وہ عین ذات ہوں یا خیر خواہ لاعین ولاغیر۔ (2) خدائے پاک نے منکر کے روبرو اس آیت میں چند دلائل سے اپنا وجود اور اپنی صفات کا ثبوت نہایت خوبی سے کردیا اور لطف یہ ہے کہ وہ دلیلیں بیان کیں کہ جو اس کے انعام بیحد اور لطف سرمد کو بھی بیان کرتی ہیں اور وہ دلیلیں یہ ہیں (1) مکلفین کا پیدا کرنا، (2) ان کے 1 ؎ عیسائی اب تک حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا جانتے ہیں اور ان سے استعانت کرتے ہیں دعا مانگتے ہیں۔ یہودی بھی حضرت عزیر (علیہ السلام) اور بہت سے صلحاء و امراء کو قاضی الحاجات ‘ دافع البلیات جانتے تھے۔ مشرکین عرب نے حضرت ابراہیم و اسماعیل ( علیہ السلام) کے نام سے بت خاص خانہ کعبہ میں پرستش کے لیے رکھ چھوڑے تھے اور لات و منات وغیرہ اصنام کی پرستش جو صلحاء تھے عام دستور تھا۔ ہنود اب تک اپنے بزرگوں کی نام نہاد صورتوں کو پوجتے ہیں مہاد یوبشن کرشن، رامچندر ہنومان وغیرہ کی صورتیں اب بھی مندروں شوالوں میں نصب ہیں۔ ان پر قربانی کرتے ہیں، نذریں چڑھاتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں ان کو نافع وضار سمجھتے ہیں یہی عبادت ہے۔ اسی کو نبی آخر الزمان ﷺ کی معرفت حق سبحانہ منع و حرام قرار دے کر اپنی ذات سے مخصوص فرماتا ہے۔ اسلام کے منجانب اللہ ہونے کی ایک ہی دلیل کافی ہے۔ 12 منہ بزرگوں کا اور ان سے پہلے جس قدر چیزیں ہیں کہ جن کو اس کے وجود سے نہایت تعلق ہے اور جن کو جاہل خالق یا شریک خالق سمجھ بیٹھا ہے پیدا کرنا۔ (3) زمین کا اس ہیئت سے پیدا کرنا کہ جس پر لوگ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ (4) آسمان کا پیدا کرنا کہ جس کی تاثیرات سے زمین کی چیزیں نشوونما پاتی ہیں۔ (5) بارش سے ہر قسم کا غلہ اور پھل اور اناج کا پیدا کرنا کہ جو حیوانات کی زندگی کا سبب ہے۔ (3) ان دلائل کے بیان کرنے میں بھی ایک عجیب لطف رکھا ہے اور وہ یہ کہ مخاطب کے ذہن میں جو چیز مقدم تر قابل استدلال تھی اس کو مقدم کیا اور جو مؤخر تھی اس کو بعد میں ذکر کیا۔ پس سب سے مقدم انسان اپنی ذات اور اپنے حالات پر بخوبی غور کرسکتا ہے اور اسی لیے کسی عارف نے فرمایا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ اس لیے سب سے پیشتر یہ فرمایا کہ الذی خلقکم انسان جب اپنے حالات پر غور کرے گا اور یہ دیکھے گا کہ میں ہمیشہ سے نہیں ہوں بلکہ آناً فاناً میرا وجود اور اس کے متعلق سب باتیں کہیں اور سے عطا ہوتی ہیں اور یہ بھی سمجھے گا کہ وہ معطی نہ انسان ہے (کیونکہ انسان باہم برابر ہیں) نہ کوئی اور ممکن کیونکہ ہر ممکن محتاج ہے پھر اسی طرح جب اپنے قوائے باطنہ اور ظاہرہ میں غور کرے گا تو بلاشک جہل کا پردہ اٹھ جاوے گا اور اس کو چشم بصیرت سے ممکنات سے بالاتر ایک واجب الوجود نظر آئے گا۔ جس کے وجود کے سامنے جملہ وجودات نیست ہیں چہ جائیکہ کوئی اس کا شریک ہو ع بخدا غیر خدا در دو جہاں چیزے نیست اور وہ واجب الوجود جملہ صفات کمال سے آراستہ و پیراستہ بھی دکھائی دے گا اور جب وہ معبود حقیقی جو جمال و کمال ہے اس طرح اور اس خوبی سے متجلی ہوگا تو پھر کس پروانہ کی مجال ہے کہ اس پر فدا نہ ہو ؎ سرو می جنبد بصحن بوستان در ہوائے قامت دلجوئے تو یہ ہیں معنی اس آیت کے یا ایھا الناس اعبدوا الآیہ اور الذی خلقکم الخ اور الذی جعل لکم الارض فراشا پہلے الذی سے دلائل النفس شروع ہوتے ہیں کیونکہ اور مخلوق میں نظر و استدلال کرکے مقصود تک پہنچنے کی بہ نسبت اپنے اندرونہ و بیرونہ حالات اور ظاہر و باطن صفات میں غور کرکے شاہد مقصود کی بارگاہ اقدس تک پہنچنا اسہل ہے۔ کس لیے کہ حضرت انسان بجائے خود ایک جہاں ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں قدرت کے نمونہ ہیں اور ہر ایک نمونہ قدرت جمال جہاں آرا کے لیے آئینہ ہے اور ہر ایک آئینہ بغور نظر کرنے کے بعد معبود حقیقی کا رونما ہے۔ پھر اس عالم صغیر کی بھی دو قسم ہیں ایک تو یہی غور کرنے والا خود ہی اس کی دلیل ہے۔ دوم اس کے ہم نوع و ہم جنس و ہم صنف دیگر لاکھوں کروڑوں قسم قسم کے انسان جو اس سے پہلے آئے اور چلے گئے ان میں غور و نظر کرنے سے ایک تو وہی قدرت کے نمونہ نظر آئیں گے دوسرے ان کی وہ آمد و شد ایک دوسرا جلوئہ قدرت دکھائے گی کہ یارب یہ بیشمار مخلوق جن میں بڑے بڑے زور آور ‘ قد آور ‘ حسین و جمیل ‘ والی ملک ‘ اہل کمال بھی تھے جن کی یادگاریں اب تک ان کے حال پر آیہ فاعتبروا یا اولی الابصار پڑھ کر اشک حسرت بہار ہی ہیں۔ کہاں سے آئے تھے اور کیوں آئے اور کیوں چلے گئے اور کہاں گئے اور اب جو آرہے اور جا رہے ہیں کہاں جاتے ہیں کیا کوئی اور جہان ہے جہاں سب جمع ہوتے جاتے ہیں ؟ کیا بااختیار و خود آئے یا بےاختیار اور بےاختیار ہی چل دیے ؎ لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے تھوڑی دیر اس کتاب قدرت کے مطالعہ کے بعد قلب پر ایک عجیب نورانیت پیدا ہوجاتی ہے اور پر دئہ راز کھل جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اکتساب حسنات وسعادت کے لیے آئے تھے جو اس جہاں کا توشہ اور حیات جاودانی کا ذریعہ ہے اس لیے یا ایہا الناس اعبدوا ربکم کا حکم محکم اس قادر کریم کی عین رحمت ہے۔ اس کے بعد دلائلِ آفاق قائم کئے جن سے رب اور اس کی ربوبیت اور پھر اس کے لیے عبادت قائم کرنا ان اشیائِ مذکورہ ذیل میں نظر کرنے سے بخوبی منکشف ہوجاتا ہے فقال الذی جعل لکم الارض فراشًا یعنی اس رب کی عبادت کرو کہ جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنا دیا اس مقام پر اپنی قدرت و ربوبیت کے تین نشان بتائے اول یہ کہ اس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا، زمین جو پانی یعنی سطح بحر سے منکشف ہے جس کا بہت سا حصہ خط استویٰ سے شمالی طرف اور قدرے جنوبی طرف ہے جس کی تصریح جغرافیوں میں ہے وہی مسکن حیوانات و اشجار بلکہ وطن بنی آدم ہے۔ یا یوں کہو ان چلتے پھرتے ‘ ہنستے بولتے ‘ دل لبھانے والے اشجار کا یہی کھیت ہے اب خواہ اس کو ساکن کہو یا متحرک کروی کہو یا بیضوی اس تحقیق فلسفیانہ سے کوئی بحث نہیں مگر اس کو قابل سکونت بنی آدم کردیا ہے۔ نہ پانی کی طرح نرم نہ ایسی سخت کہ اس پر نباتات نہ اگیں نہ اس کی کرویت بنی آدم کی بودوباش کے منافی ہے بلکہ اس پر رہ کر ہر طرح سے آرام پاتے، اس کے منافع حاصل کرتے ہیں۔ یہ مراد ہے فرش بنانے سے جو چیز کسی کے لیے مسخر ہوتی ہے اس کو بھی محاورئہ عرب میں فرش سے بطور استعارہ وکنا یہ تعبیر کرتے ہیں۔ اب اس میں تھوڑی دیر غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ کرئہ ارض جس کی طبیعت ایک ہے کس نے ان مقامات سے بلند کردی۔ اگر یہ اس کا طبعی کام ہوتا تو ہر جگہ مساوی ہونا چاہیے تھا پھر صرف بلند کرکے سطح بھر سے بالا ہی نہیں کیا بلکہ اس میں پہاڑ اور پہاڑوں میں سے چشمے اور انہار اور گونا گوں اشجار ایسے پیدا کئے جن کے بغیر انسانی تمدن باطل یا ناقص ہے اور یہ سب کچھ اتفاقی کام نہیں بلکہ ایک بڑے مدبر عاقبت اندیش کا ایسا حکیمانہ فعل ہے جس میں عمیق نظر اور کامل غور کے بعد (صدہا باریکیاں واضح ہوتی جاتی ہیں) وہی رب نظر آتا ہے۔ اسی کو عقل ولی النعمۃ اور آقا اور وحدہ ‘ لاشریک مانتی ہے پھر ایسا آقا جو بنی آدم کے لیے ایک ایسا مسکن ایسی حکمت سے بنائے اگر وہ عبادت کے قابل نہیں تو اور کون ہوسکتا ہے ؟ اس کے بعد دوسرے نمونہ قدرت کا ذکر فرماتا ہے اس میں اسفل سے اعلیٰ کی طرف رجوع ہے اور یہ مناسب بھی ہے کس لیے کہ زمین کا فرش ہونا ہر ایک کے پیش نظر ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں۔ برخلاف اس دوسرے نمونہ کے وہ کیا ہے والسماء بناء کہ آسمان کو تمہارے لیے بنایا یعنی چھت بنا دیا جیسا کہ ایک جگہ آیا ہے والسماء سقفا محفوظا، اتنی بات کہ ہمارے اوپر ایک نیلگوں گنبد بنا ہوا ہے جس میں صدہا ثوابت و سیارے ‘ چاند سورج کس صنعت سے دورے کرتے ہیں کہ جہاں عقل حیران ہوتی ہے مسلم الکل ہے۔ اس قدر مضمون میں تو نئے فلسفہ کا اختلاف ہے نہ پرانے کا اور تورات و اناجیل و دیگر کتب سماویہ یا مذہبیہ میں جہاں خدا یا اس کے پیغمبروں نے خدا کے آثار قدرت و جبروت کا نشان دیا ہے اور آسمان کو نمونہ قدرت بنایا ہے وہاں آسمان سے یہی معنی مراد ہیں جو عامہ بنی انسان کی فہم میں آتے ہیں اور جس کو وہ اپنے محاورات میں مستعمل کرتے ہیں مگر عقلانے جو حقائق الاشیاء دریافت کرنے میں موشگافی کی اور زمین کا مرحلہ طے کرکے آسمان تک پہنچے تو بلحاظ تحقیقات اختلاف پیدا ہو اور ہونا بھی چاہیے تھا کس لیے کہ حکمائے قدیم کا مدار استدلال پر تھا اب کا اور ہے جوں جوں علوم و فنون ترقی کرتے گئے اور آلات تحقیقات نئے نئے ایجاد ہوتے گئے ان پہلی تحقیقات کے خلاف باتیں ثابت ہوتی گئیں اور یہ سلسلہ نہ کسی حد پر جا کر منتہی ہوا ہے نہ ہوگا۔ ممکن ہے کہ آج کل کی جدید تحقیقات آیندہ کسی زمانے میں غلط اور جاہلانہ خیالات ثابت ہوجائیں اس لیے اسلام اور الہام اور الہامی کتابوں کو ان حقائق سے کوئی بحث نہیں نہ ان کا فرض منصبی ہے۔ یہ ادنیٰ کام یہاں کے عقلاء و حکماء کے سپرد ہے ان کا کام (علوم روحانیہ و تزکیہ نفس اور مرنے کے بعد آنے والی نئی زندگانی کے مفید کام اور سچا اعتقاد) بتانا ہے۔ حکمائے قدیم و جدید کا آسمانوں کی حقیقت میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ قدیم حکماء ‘ کرہ ارضی ‘ مائی ‘ ہوائی ‘ ناری کو یکے بعد دیگرے پیاز کے چھلکوں کی طرح باہم لپٹا ہوا بتلا کر ان کے اوپر یکے بعد دیگرے سات آسمان اور ان پر آٹھواں آسمان اور اس پر نواں فلک الافلاک بتلاتے ہیں اور ہمارے اکثر علماء آٹھوں کو عرش نویں کو کرسی کہتے ہیں اور اس تحقیق قدیم کی طرف زیادہ مائل ہیں حکمائِ قدیم یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین ساکن ہے اور آسمان مع ان ثوابت و سیارات کے ان میں جڑے ہوئے ہیں زمین کے گردا گرد گھومتے ہیں۔ قرآن اس سے ساکت ہے مگر بعض احادیث اس کے قدرے مؤید معلوم ہوتی ہیں حکمائِ جدید کہتے ہیں کہ آسمان فضائِ محض کا نام ہے کوئی جسم نہیں زمین بھی دیگر سیارات و ثوابت کی طرح ایک تارا ہے جس طرح اور تارے آفتاب کے گرد گھومتے ہیں زمین بھی گھومتی ہے اور ستاروں میں لاکھوں کروڑوں کوس کا فاصلہ ہے اور ایک دوسرے سے لاکھوں ہزاروں حصہ بڑا ہے اور حرکت بھی ان کی ایسی تیز ہے کہ بعض ستارے ایک گھنٹہ میں بیس بیس ہزار میل سے زیادہ مسافت طے کر جاتے ہیں مگر ایک ایسے بالاتر مدبر نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ وہ باہم ٹکڑانے نہیں پاتے۔ عقلا نے ریلوں کے کیا کیا انتظام کیے مگر پھر باہم لڑ جاتی ہیں یہ اس کی قدرت کاملہ کا بڑا نمونہ ہے۔ جو کچھ ہو بہر طور آسمان قدرت الٰہیہ کا ایک بڑا نمونہ ہے اور قرآن مجید کا یہی مقصود ہے جس پر نہ حکمت قدیم حملہ کرسکتی ہے نہ نیا فلسفہ۔ اگر ستارے اور اس کی بناوٹ اور اس کے نور کی طرف غور کیا جائے اور اس کروڑوں پدموں کوسوں کی فضا کو دیکھا جائے (جس میں زمین سے ہزاروں لاکھوں حصہ بڑھ کر کرہ ہیں اور جس طرح یہ چھوٹا سا کرہ ایک عالم ہے اور اس میں کیا کیا حیوانات و نباتات ہیں۔ ان میں جو ہزاروں کروڑوں عالم ہیں کیا کچھ ہوگا اور وہ اتنے ہیں کہ جن کی تعداد نہ فلسفہ قدیم بتلا سکتا ہے نہ جدید ‘ بلکہ کروڑوں کر ات عظیمہ تو بعد مسافت کی وجہ سے نظر ہی نہیں آسکتے۔ اب کوئی حکیم جدید و قدیم ان کے اندر کی کائنات اور وہاں کے اسباب تعیش اور وہاں کی سردی و گرمی ‘ نور اندھیری کی کیفیت تامہ بتا سکتا ہے تو اس کی عظمت ‘ و سعت ‘ قدرت آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوجائے الا لہ الخلق والامر۔ تیسرا نمونہ قدرت وانزل من السماء ماء ہے کہ اس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس سے انسانی خورش گو نا گوں پیدا کی جن میں درجات متفادتہ رکھے اور اس گھر کا یہ دسترخوان الٰہی ہے جس پر دوست و دشمن سب کھاتے ہیں ؎ ادیم زمین سفرئہ عام اوست چہ دشمن بر ایں خوان یغماچہ دوست آسمان سے پانی اتارا یعنی ابر سے۔ اب ابر کی حقیقت (کہ وہ ابخرات ارضیہ میں جو اوپر جا کر برودت کی وجہ سے متکاثف ہوجاتے ہیں اور پھر ان سے پانی برستا ہے) خدا نے بیان نہیں فرمائی جو کچھ ہو مگر اس میں بھی تامل اور غور کرنے سے عقل حیران ہو کر قدم قدم پر کھڑی ہوجاتی اور زبان حال سے پھر پکار اٹھتی ہے کہ اے خدا تو ہی ہے سب اسباب کا سلسلہ تیری ہے ہاتھوں میں ہے تو جب چاہتا ہے سلسلہ اسباب میں رخنہ ڈال دیتا ہے اس پر اثر مرتب نہیں ہونے دیتا۔ ان سب باتوں کو بتا کر فرماتا ہے اب تو تم کو اس کا جلال و کمال معلوم ہوگیا اب جان بوجھ کر رسم و تقلید آبائی میں اس کا شریک نہ ٹھہرائو۔ مسئلہ : شرک حرام ہے خدائے تعالیٰ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرنا چاہیے نہ کسی کو اس کی ذات وصفات میں حصہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ فائدہ : چونکہ اعمال صالحہ کے لیے ایمان شرط ہے اس لیے کفار و مشرکین پر صرف ایمان و توحید فرض ہے اس کے بعد دیگر احکام فرض ہوں گے۔ جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ کفار و مشرکین صرف اپنے فریضہ ایمان و توحید کے ترک کرنے کے عذاب میں معذوب ہوں گے نہ دیگر احکام کے لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ دیگر احکام بھی ان پر فرض ہیں کس لیے کہ اس آیت میں لفظ الناس کافر اور مومن سب کو شامل ہے اور سب سے عبادت طلب ہے حالانکہ عبادت اعمال و احکام میں داخل ہے۔ اس لیے اول فریق نے جواب دیا کہ عبادت سے مراد توحید ہے۔ مگر یہ توجیہ بعید ہے بلکہ کفار سے بھی اعمال صالحہ مطلوب ہیں اور ان کا کفران عبادات سے مانع نہیں جس طرح کہ حدث وجوب صلوٰۃ سے مانع نہیں بلکہ یہ معنی کہ اے کفار عبادت کرو ایمان لا کر نماز پڑھو یعنی وضو کرکے فان من لوازم وجوب الشیء وجوب ما لا یتم الابہ۔ ہاں یہ مسلم ہے کہ ایمان لانے کے بعد حالت کفر کی عبادات کی قضا اس پر لازم نہیں آتی۔ ربط : اس سے پہلے آیت میں خدا نے عبادت کا حکم دیا تھا اور عبادت مقبول عنداللہ اور غیر مقبول عند اللہ کا فرق صرف عقل سے نہیں ہوسکتا اس میں نبی اور الہام کی سخت ضرورت ہے جب تک نبی کا دامن ہاتھ میں نہ ہوگا کوئی شخص اس دریائے بیکنار سے پار نہ ہو سکے گا ؎ محال ست سعدی کہ راہ صفا تواں رفت جز در پئے مصطفیٰ اس لیے ضرور ہوا کہ جناب نبی (علیہ السلام) کی نبوت بھی اس دلیل سے ثابت کی جاوے کہ جو قرآن کا منجانب اللہ ہونا بھی ثابت کرے تاکہ نبی اور اس کی کتاب کی پابندی اور اتباع سے خدا تعالیٰ کی عبادت مرغوبہ سرزد ہو اور متقی ہو کر دارین میں صلاح و فلاح پائے یا یوں کہو کہ حق سبحانہ مادہ اور مادیات سے پاک، بندہ مادی، یہ نہ اس کو دیکھ سکتا ہے نہ اس سے بات کرسکتا ہے۔ اب اس کی مرضی اور غیر مرضی کا علم ہو تو کیونکر۔ رہا ادراک عقلی اول تو عقول متفاوت پھر قوت متوہمہ اور متخیلہ کا تعارض جن میں عادات و رسم و رواج ‘ صحت و مرض ‘ جوانی و بڑھاپے تجربہ اور غیر تجربہ کو بہت دخل ہے اس لیے یہ جوہر نورانی ان اشیاء کے تلے ایسا دبا رہتا ہے جیسا کہ آفتاب سخت آندھیوں اور ابر کے تلے۔ اس لیے ادراک عقلیہ میں بنی آدم کے عقلاء کی آراء میں سخت مخالفت پیدا ہوتی ہے کوئی ایک چیز کو پسندیدہ خدا اور موجب ثواب جانتا ہے۔ دوسرا اسی کو موجب غضب الٰہی اور باعث عذاب تصور کرتا ہے۔ اس لیے ایک نفس قدسی کی ضرورت ہوئی جس کی عقل ان چیزوں سے پاک ہو اور اس کو روحانی انکشاف ہو اس کا مادہ اس کی روح پر غالب نہ ہو اس پر وہ مؤیدمن اللہ بھی ہو جس کے کشف و ادراک کی صحت و درستی کا بندوں کی ہدایت کے لیے اس رحیم نے ذمہ بھی لے لیا ہو ایسے شخص کو نبی یا رسول کہتے ہیں۔ یہی خدا کی مرضی اور عدم مرضی اور اس کی ذات وصفات اور دیگر راز سربستہ سے بندوں کو خبر دے سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بغیر نبی کے اتباع کے انسان اس وادی پرخار اور بحر ذخار سے پار نہیں ہوسکتا اور اقرار رسالت 1 ؎ نجات کے لیے ضروری ثابت ہوگیا۔ اب ان آیات میں خدا تعالیٰ اپنے نبی کی نبوت عربوں کے مذاق کے مطابق ثابت کرتا ہے جس طرح کہ پہلی آیات میں اپنی توحید ثابت کی تھی فقال : 1 ؎ کلکتہ میں عرصہ گزرا کہ ایک تیز طبع راجہ رام موہن نام بنگالی اہل اسلام اور پادریوں کی کتابوں سے واقف ہو کر اپنے قدیم مذہب بت پرستی اور عجائب پرستی سے بیزار ہوا مگر وہ شخص باخدا نہ تھا اس لیے اس نے مذہب حقانی کو قبول کرنا اپنی قوم کے روبرو نہایت شاق جان کر ایک اور نیا مذہب اسلام سے اخذ کیا اور اس میں کسی قدر یورپ کے ملحدوں کے خیالات اور کچھ عیسائیوں کی عبادات کو بھی ملا کر ایک معجون مرکب بنایا اور برائے نام اس کو قدیم مذہب ہنود کا عطر کہہ کے براہم دھرم نام رکھا اور حکیمانہ تقریروں پر اس کی شہرت اور شیوع کا دارومدار رکھا پھر اس کے بعد ایک شخص درندوناتھ اس کے خلفاء میں سے کھڑا ہوا اور اس مذہب کو فروغ دیتا رہا اس کے بعد 1857 ء میں بابو کسیب چندرسین جو انگریزی میں خوب یدطولیٰ رکھتے تھے اس مذہب کے سرپرست بنے اور بعض یورپ کے شہروں میں اپنے خیالات حکیمانہ پھیلاتے پھرتے۔ یورپ کے لوگ مذہب عیسوی کے بےہودہ عقائد سے از حد نفور ہیں انہوں نے شاید اس کو غنیمت جان کے قبول بھی کیا ہو۔ اس مذہب کے یہ اصول ہیں : آسمانی کتاب قران یا وید تورات وغیرہ کوئی بھی نہیں بلکہ آسمانی دو کتاب ہیں، اول طبعی خیالات، دوم وہ اصلی صداقتیں جو اخلاق ‘ خدا اور بقا کی بابت ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) سے نہ معجزہ ممکن ہے نہ کبھی سرزد ہوا ہے اور نہ ان سے خدا نے بطریق وحی یا الہام کلام کیا ہے نہ اس قسم کی نبوت کی کچھ ضرورت ہے بلکہ عقل کافی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اپنے اپنے وقت میں بزرگ اور ناصح اور امورات دینی میں فائدہ بخش تھے مگر وہ معصوم نہ تھے، نہ ان پر دینی ترقی کا خاتمہ ہوگیا بلکہ ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے اس میں حضرت موسیٰ و عیسیٰ و محمد و نانک و کبیر سب شریک ہیں یعنی نبوت کے جو معنی اہل اسلام اور اہل کتاب کے ذہن میں ہیں یہ اس کے منکر ہیں۔ اس مذہب میں ہندو، عیسائی، مجوسی جو ان باتوں کے معتقد ہیں سب شریک ہیں۔ مرنے کے بعد صرف عمدہ کمالات کی خوشی کا نام جنت اور برے ملکات سے تاسف کرنے کا نام جہنم ہے۔ وسیلہ نجات عبادت ہے اور عبادت کے چار رکن ہیں۔ حمدِ الٰہی، روحِ الٰہی کا اپنی روح میں مراقبہ کرنا، خالق کا ہر دم شکر گزار رہنا، اس سے دعا مانگنا، برہمو سماج مذہب کا خلاصہ ہے اور جو تفصیل چاہیے تو ان کے رسائل اور کتب کو دیکھئے، بالخصوص رسالہ خلاصۃ الاصول کو۔ اب چند روز ہوئے کہ بابو کسیب چندرسین مرگئے مگر صدہا بنگالی اور بہت سے اور لوگ بھی اس کی فصاحت و بلاغت سے ان کو اس زمانے کا نبی مانتے ہیں نعوذ باللہ منہ۔ اس مذہب کی ایجاد سے موجد کی دو غرض تھیں۔ ایک یہ کہ یہ مذہب صلح کل ہے، رعایا اور گورنمنٹ میں جس قدر خرخشہ مخالفت مذہبیہ سے پیش آتے ہیں وہ سب فرو ہوجائیں گے۔ گورنمنٹ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ دوم یہ مذہب برائے نام تو وہی قدیم مذہب ہنود کہلائے گا مگر مخالفوں کے اعتراضات سے کہ جو پیشتر اس مذہب پر پڑتے ہیں نجات حاصل ہوجائے گی۔ کھانے پینے کی جو بیجا قیودات اس مذہب میں تھیں سب اٹھ جاویں گی۔ سفر یورپ اور وہاں سے تعلیم پانے کے مواقع جاتے رہیں گے۔ مذہب نیچری : شہر دہلی جب شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں نہایت تنزل کو پہنچا اور وہاں کے علماء ‘ شرفاء ‘ اہل ہنر جو عہد سلطنت حضرت شاہجہاں سے آباد تھے، ادھر ادھر پریشان ہو کر نکل گئے تو اس زمانہ میں خاص کشمیر یا اس کے نواح کے کچھ لوگ آ بسے، فدا حسین رسول شاہی اور دیگر قلندر بنگ نوش شبلی ٹوپی والے آزاد اسی قوم میں گزرے ہیں۔ ان میں سے بعض خان صاحب اور بعض مرزا اور بعض سید اور میر صاحب کہلاتے ہیں۔ اس قوم کے بعض لوگوں نے اس بڑی سلطنت میں کچھ رسوخ بھی حاصل کیا تھا اور کوئی مقرر لقب بھی خریدا تھا اسی کنبے میں سے ایک شخص سید احمدخان صاحب بہادر بھی پیدا ہوئے۔ یہ شخص ابتدا میں مولوی مخصوص اللہ صاحب نبی رئہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہو کر کسی قدر صرف و نحو سے آشنا ہوئے اور تعویذ گنڈے بھی سیکھے لیکن جب یہ نسخہ نہ چلا تو گورنمنٹ برٹش کی طرف رجوع کیا اور اپنی لیاقت خداداد سے کوئی اچھا عہدہ بھی پایا پھر تو پکے وہابی متبع مولوی اسماعیل صاحب ہوگئے اور ایک کتاب آثار الصناد٭ید لکھ کر شہر کے اہل علم و فضل میں بھی شہرت اور عزت حاصل کی اس عرصہ میں غدر ہوگیا اور سید صاحب اپنی خیر خواہی اور حکام رسی سے بڑی ترقی کر گئے اور اپنی خوش بیانی اور عالی دماغی سے انگریزوں میں بڑے فاضل یا فلاسفر یا رفارمر مانے گئے اور سی ایس آئی کا لقب حاصل کیا اور کچھ عجب نہیں کہ گورنمنٹ برٹش 1857 ء کے فساد سے (کہ جس کا منشاء صرف توہمات جاہلانہ تھے) پر غدر ہو اور سید صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے گورنمنٹ کو نہ صرف اطمینان دلایا بلکہ خیالات مذہبیہ کے گرانے کا بھی بیڑا اٹھایا ہو یا اپنی ترقی اور خیر خواہی کے لیے یہ خیال از خود سید صاحب نے پیدا کیا ہوا اور غالباً یوں ہی ہوگا کیونکہ گورنمنٹ کو ان باتوں کی طرف چنداں خیال نہیں خیر ہرچہ باشد مگر اس شخص نے اسی ارادہ سے ایک کتاب تبیین الکلام بائیبل کی تفسیر میں لکھ کر عیسائیوں اور مسلمانوں کو باہم ملانا اور ایک بنانا چاہا مگر اس امر محال کے وقوع میں سید صاحب ناکام رہے۔ اس عرصہ میں سید صاحب نے کلکتہ میں برہمو سماج مذہب کو ہونہار دیکھا اور اس کے اصول کو یورپ کے فلاسفروں اور ایشیا کے معلموں کے مطابق خیال پا کر از حد پسند کیا اور جو دل میں مراد تھی اس کو بلامحنت و مشقت پا لیا، لیکن یہ بات نہ تنہا ان کے دلی مقصد بلکہ ان کے شان کے بھی خلاف تھی کہ وہ کھلم کھلا اسلام کو ترک کرکے ایک بنگالی بابو کے مرید اور امت کہلاتے مگر دل میں یہ سوچا کہ برائے نام تو اسلام ہو مگر اس کو برہمو سماج مذہب کے مطابق کیجئے۔ لفظ نبی اور ملائکہ اور جبرئیل اور جنت دوزخ و وحی والہام و شیطان بلکہ سماء جن کو تو بحال خود رہنے دیجئے اور ہر مسلمان سے کہئے کہ میں ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہوں تاکہ مسلمانوں کو مجال تکفیر نہ ہو اور ان الفاظ کے معانی بالکل پلٹ دیجئے۔ نبی صرف رفارمر کہ جس میں بڑھئی لوہار کے کام کے مانند اس وعظ گوئی کا ملکہ ہو اور نبوت ہر زمانے میں پائی جاتی ہے بلکہ ہر قوم اور پیشہ میں دیکھو۔ نظامی و جامی کو پیغمبر ان سخن کہتے ہیں۔ اس زمانے میں بابو کسیب چندرسین بھی نبی ہیں اور انگلینڈ میں بھی فلاں فلاں شخص نبی ہیں۔ نبی کے لیے معجزہ یا کرامت جس کو خرق عادات کہتے ہیں شرط نہیں۔ یہ صرف پرانے خیالات ہیں بلکہ خرق عادات ممکن ہی نہیں۔ الہام یا وحی خیالات فطری کا جوش ہے اور جبرئیل جو اس کو لاتا ہے کوئی شخص خاص نہیں وہ اس نبی کی قوت ہے جو فطرت کے موافق فوارہ کی طرح اچھل کر اسی پر گرتی ٭ دراصل آثار الصنادید سید صاحب کی تالیف کردہ کتاب نہیں ہے بلکہ مرزا سنگین بیگ شاہ جہاں تہار کے رہنے والے مولانا بخشی محمود کے پوتے بحکم سرجان چارلس متکاف ایک کتاب موسوم بہ سیر المنازل لکھی جو دراصل فارسی میں ہے جس کو میں نے قلعہ کے عجائب خانہ میں داخل کردیا ہے جس کا دل چاہے جا کر دیکھ لے اور آثار صنادید سے مقابلہ کرے۔ حضرات دہلی کے حالات جو کہ آخر کتاب آثار الصنادید میں مذکور ہیں یہ سید صاحب کی ذاتی تحقیق ہے۔ 12 حقانی ہے اور یہی معنی نزول کے ہیں ملائکہ اشخاص متحیزہ بالذات نہیں قرآن میں جو لفظ ملائکہ یا ملک یا جبرئیل آیا ہے اس سے انسان کی قوت ملکیہ مراد ہے۔ جس طرح شیطان سے قوت بہیمیہ اور جن سے ایک جنگلی قوم کہ جو لوگوں سے پوشیدہ رہتے تھے اور جنت و دوزخ صرف خوشی و غمی کا نام ہے۔ باقی حوریں اور نہریں اور میوے جو قرآن اور نبی (علیہ السلام) نے بیان فرمائی ہیں وہ محض رغبت اور خوف دلانے کو اس خوشی و غم کو ان چیزوں کے ساتھ تفسیر یا تشریح کردی ہے ورنہ کچھ نہیں۔ آسمان سے مراد بلندی اور جوّ ہے اور چونکہ یہ بعد غیر متناہی اور متصل یکے بعد دیگرے ہے اس لیے اس کو سبع سمٰوات کے ساتھ تعبیر کیا۔ وقس علی ہذا۔ یہ باتیں سید صاحب کی تفسیر اور پر چہ تہذیب الاخلاق میں موجود ہیں۔ مقدمہ تفسیر میں ان کے حوالے بقید سطر و صفحہ مندرج ہیں اور آیندہ بھی ہم ان اقوال کو نقل کریں گے اب یہ کچھ ضرور نہیں کہ سید صاحب حرف بہ حرف بنگالی بابو کے معتقد ہوں بلکہ ممکن ہے کہ ان سے بھی ترقی کر جائیں، کیونکہ اول تو سید صاحب دلی کے رہنے والے ہیں، دوم اس خاندان کے نونہال (یا اب شجر کہنہ) کہ جو مذاہب میں پیشوا ہونے کے جبلی لیاقت رکھتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک بنگالی دال بھات کھانے والے سے کہ جس کا بڑا سرمایہ انگریزی دانی ہے پیچھے رہ جائیں ؟ اس لیے سید صاحب نے ایک جدید اسلام کی بنیاد ڈالی اور پر چہ تہذیب الاخلاق مطبوعہ 1296 ہجری صفحہ 41 سے 43 و 100 میں یوں تحریر فرمایا ہے الاسلام ھو الفطرۃ و الفطرۃ ھو الاسلام اسلام جو ہے وہ فطرت ہے اور فطرۃ جو ہے وہ اسلام ہے اور فطرت اسلام کا دوسرا نام ہے۔ لامذہبی بھی درحقیقت اسلام ہے کیونکہ لامذہب بھی کوئی مذہب رکھتا ہے اور وہی اسلام ہے الخ اور وہی عین فطرت و نیچر ہے جو آدمی نہ کسی نبی کو مانتا ہو اور نہ کسی اوتار کو اور نہ کسی کتاب الہامی کو اور نہ کسی حکم کو کہ جو مذاہب میں فرض اور واجب سے تعبیر کئے گئے ہیں بلکہ صرف خدائے واحد پر یقین رکھتا ہو وہ آدمی کسی مذہب میں نہیں ہے مگر مسلمان ہے اور جو لوگ خدا کے بھی قائل نہیں ہیں وہ بھی مسلمان ہیں کیونکہ الخ ان کے اہل جنت ہونے میں کیا شک باقی رہا، انتہا اس تائید میں سید صاحب اس حدیث کو پیش کرتے ہیں۔ من قال لا الہ الا للہ دخل الجنۃ و ان زنی و ان سرق علی رغم انف ابی ذر۔ سید صاحب کی تعریف اسلام جدید کے بموجب تو جو شخص جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کا منکر بلکہ سخت مخالف ہو جیسا کہ ابوجہل وغیرہ وہ بھی مسلمان اور جنتی ہے بلکہ کل بنی آدم اول سے اخیر تک مسلمان اور جنتی ہیں خواہ وہ کیسا ہی عقیدہ رکھیں اور کچھ ہی کریں۔ اس اسلام جدید کی اس قدر حدود وسیع کرنے سے سید صاحب کے چند اغراض اور ایک وجہ ہے۔ غرض اول یہ کہ نہ تنہا بنگالی بابو نے اپنے مذہب کو ایسا وسیع کیا کہ کسی طرح ہندو دھرم سے باہر ہی نہیں ہوتا خواہ گائے کا گوشت کھائے خواہ وید اور اوتاروں کا منکر ہو بلکہ سید صاحب نے تو اس سے بھی بڑھ کر اسلام جدید کو وسعت دی کہ کفر منصوص کو بھی اسلام کا مصداق بنا دیا تاکہ ان کے مریدوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل رہے۔ دوم یہ کہ جو چیزیں اسلام حقیقی کے بالکل برخلاف ہیں اور ان پر پابندی کی سخت تاکید اور ان کی مخالفت پر بڑی تہدید ہے ان کے ترک و استعمال سے کچھ محذور لازم نہ آوے۔ پھر حکام کی خوشنودی یا نفس کی خواہش سے ان کو عمل میں لائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ کوئی خانہ کعبہ ہی کیوں نہ گرائے اور قرآن مجید اور اس کی ہدایتوں پر قہقہہ ہی کیوں نہ اڑائے۔ نعوذ باللہ آنحضرت (علیہ السلام) سے جس قدر چاہے دشمنی کرے اور سور کھائے، شراب پئے تو بھی پکا مسلمان جنتی رہتا ہے۔ اس پر اور مسلمانوں کو کوئی اعتراض کا محل نہیں۔ سوم اس وقت جو عیسائی حاکم ہیں ان کو بھی غیر نہ جانیں نہ مخالفت مذہبی نہ ان کے تعصبات کو خیال میں لائیں کیونکہ وہ بھی تو مسلمان ہیں۔ حقیقت میں حکام رسی کا یہ عمدہ ذریعہ سید صاحب کے ہاتھ آیا۔ صرف برائے نام مسلمان رہ کر جو چاہو سو کرو اور وجہ یہ ہے کہ جب سید صاحب بابو کسیب چندر سین کی تقلید میں لندن تشریف لے گئے اور وہاں خطبات احمدیہ ایک کتاب لکھ کر بابو صاحب کی طرح یورپین کو اپنا مرید بنانا چاہا تو لوگوں نے سید صاحب پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ نیچر اس کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر اتباع نبی عربی کوئی شخص مہذب اور نہایت علوم کا ماہر نجات نہ پائے اور باستثنائے اہل اسلام تمام یورپ بلکہ کل بنی آدم جہنم میں جائیں، اس لیے سید صاحب نے اسلام جدید کو وسیع کیا پھر سید صاحب نے اپنے خیالات کی ترقی کے لیے ایک مدرسہ علی گڑھ میں قائم کیا اور ایک اخبار تہذیب الاخلاق جاری کیا اور اس پر بس نہ کرکے قرآن مجید کی تفسیر اور قرآن مجید کو اپنے اسلام جدید کے مطابق بنانا چاہا۔ اس زمانے کے امراء تو نام پر مرتے ہیں جہاں ان کو سبز باغ دکھلایا (کہ اس مدرسہ سے اہل اسلام کو دینی و نیوی ترقی ہوگی) جھٹ معین و مددگار ہوگئے اور گورنمنٹ برٹش میں ان کی معیت کو عمدہ ذریعہ تقرب سمجھا۔ اور بعض وہ لوگ بھی کہ جن کو انگریزی خیالات نے بےقید کردیا اور وہ برائے نام مسلمان ہونا کافی سمجھتے ہیں۔ اس مذہب کے معین و مددگار بن گئے اور بعض تو صرف کوٹ پتلون پہن کر جنٹلمین کہلانے کے لیے سید صاحب کے دین میں آئے۔ ایک پادری صاحب اپنے ایک رسالہ تنقید الخیالات مطبوعہ الٰہ آباد مشن پریس 1882 ء میں سید صاحب کے اس ایجاد خاندانی کو اور بات پر محمول کرتے ہیں وہ یہ کہ سید صاحب کی نظروں میں پادریوں اور حکمائِ یورپ کی روشنی علم و تحقیقات سے اصول اسلام نہایت کمزور اور لغو معلوم ہوئے لیکن سید صاحب نے اسلام کو ترک کرنا مناسب نہ جانا۔ برائے نام اس کو قائم رکھ کر ایک نیا اسلام ایجاد کیا کہ جو اصول حکمائِ یورپ پر مبنی ہو اور جس پر کسی قسم کا اعتراض وارد نہ ہو اور نیز بااعتبار مشقت عمل و قید حلال و حرام کے بھی بہت آسان ہو۔ میرے نزدیک پادری صاحب کا یہ خیال خام ہے کیونکہ سید صاحب کو مذہب عیسوی کی حقیقت معلوم ہے۔ شاید حکمائے یورپ و دہریان فرنگ کے ملمع کار خیالات نے پریشان کیا ہو تو کیا عجب مگر سید صاحب نہ علوم قدیم سے واقف نہ نئے علوم اور جدید فلسفہ سے بہرہ رکھتے ہیں۔ اپنی علمی کمزوری سے فلسفہ جدید سے اسلام کا شکست کھانا تسلیم کر بیٹھے اور اصول اسلام کی تاویلیں کرنے لگے، حالانکہ اسلامی اصول پر فلسفہ جدید کا کوئی قوی اعتراض ہی نہیں پڑتا۔ دوم فلسفہ جدید اور سائنس حال کا یہ حال ہے کہ یوماً فیوماً اس میں تنسیخ ہوتی چلی جاتی ہے۔ جن بعض مسائل کو دس برس آگے یورپ میں حق سمجھا جاتا تھا آج ان کے معتقد کو جاہل خیال کیا جاتا ہے پھر آیندہ کون ضمانت کرسکتا ہے کہ موجودہ مسائل غلط ثابت نہ ہوں گے۔ جن کے زور پر اسلام پر اعتراض قائم کیا جاتا ہے۔ اب میں پادری صاحب کے باقی اقوال نقل کرتا ہوں تاکہ ناظرین کو میری رائے کی تصدیق ہو۔ قولہ سید صاحب تہذیب الاخلاق جمادی الاول 1296 ھ صفحہ 10‘ 20 و 1297 ہجری صفحہ 202 وغیرہ میں فرماتے ہیں کہ اسلام کی وہ حالت مجموعی جو تیرہ سو برس سے دنیا میں کہلایا درحقیقت وہ اسلام نہ تھا وہ تو علمائِ محمدیہ کا تراشا ہوا یا قرآن و حدیث کے درست مطلب نہ سمجھ کر نکالا ہوا اسلام تھا اگرچہ اس میں درست بھی ہے تو اسی قدر درست تھا جس پر کچھ اعتراض نہ پڑتا ہو اور جتنی باتوں پر علوم سے یا غیر اشخاص سے اعتراض وارد ہوئے ہیں وہ سب نقصان کی باتیں ہمارے بزرگ عالموں کی غلطی سے اسلام میں قرار پکڑے ہوئے تھیں وہ حقیقی خیالات اسلام کے نہ تھے وہ گویا کاٹ کی ہنڈیا تھی جو اس وقت جل رہی ہے۔ مراد ان کی یہ ہے کہ جس کو آج تک امت محمدیہ نے اسلام سمجھا وہ اسلام نہ تھا اسی لیے تو جو اعتراض دنیاوی علوم کی روشنی سے یا مخالفوں سے اس پر وارد ہوئے وہ سب برحق نکلے اور وہ اسلام پوری شکست کھا گیا۔ فی الحقیقت جو سچا اسلام ہے وہ درست ہے اور مضبوط۔ گویا وہ اسپات کی ہنڈیا ہے اور وہ آج تک سب محمدی ﷺ علماء سے پوشیدہ رہا۔ اب ہم اس کو تیرہ سو برس بعد ظاہر کرتے ہیں اور اس کا خیال اس زمانے میں صرف مجھ سید احمد خاں ہی کو آیا ہے اور میں اپنا فرض سمجھ کر ان خیالوں کو ظاہر کرتا ہوں۔ الخ لیکن سید صاحب یہ نہیں بتا سکتے کہ کس عہد تک اس درست راہ پر مسلمان رہے تھے تاکہ ہم اس عہد کے خیالات کا مقابلہ سید احمدخاں صاحب کے خیالات سے کریں۔ الخ پس میں نے سید صاحب کے خیالات پر حتی المقدور بہت فکر کیا کہ وہ کیا کہتے ہیں پر مجھے معلوم ہوا کہ سید صاحب کا خیال ہرگز درست نہیں محض غلط بات ہے کہ اسلام قدیم اسلام نہ تھا اور اسلام جدید جو سید صاحب دکھاتے ہیں درست اسلام ہے۔ قدیمی اسلام جس کو وہ کاٹ کی جلتی ہنڈیا بتلاتے ہیں یقیناً وہی حقیقی اسلام ہے جو محمد ﷺ نے اپنی امت کو دیا تھا۔ پر وہ نیا اسلام جس کو انہوں نے اس زمانے میں نکالا اور اہل ہند کے سامنے پیش کیا ہے وہ ہرگز اسلام نہیں ہے بلکہ اس میں اکثر وہ خیالات بھرے گئے ہیں جو ہندوئوں کے ایک برہمو فرقے کے ہیں اور وہ یہی چند روز سے شہر کلکتہ میں نکلے ہیں یا ان لوگوں کے بعض خیالات اسلام میں داخل کئے ہیں جو قدیم زمانہ سے آج تک انبیائی سلسلہ کے مخالف ہیں جن کو دنیاوی عقلمند کہتے ہیں۔ ان خیالوں کو سید صاحب فقرات میں لپیٹ کر اسلام میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دعویٰ سن کر شروع میں مجھے خیال آیا تھا کہ شاید سید صاحب اسلام کے وہ زوائد جو پیچھے سے اس میں پیدا ہوگئے ہیں کاٹ چھانٹ کر دکھا دیں گے لیکن اب جو کچھ کہ انہوں نے دکھلایا اس سے معلوم ہوا کہ وہ تو کہیں سے کہیں چلے گئے۔ حقیقی اسلام ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور ایسا چھوٹا کہ بہت ہی دور رہ گیا۔ اس لیے علمائِ محمدیہ نے ان کی نسبت سخت فتوے لکھے ہیں۔ اسلام فی الحقیقت وہی ہے کہ جس کو مسلمانوں نے حضرت محمد ﷺ سے پایا۔ یا یوں کہو کہ اسلام وہ ہے کہ جو قرآن و حدیث سے متبادر اہل زبان کے ذہن میں آیا اور ابتدائے دعویِٰ نبوت سے بیس برس تک دنیا میں حضرت محمد ﷺ نے قولاً و فعلاً اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ بات تو
Top