Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
21۔ (آیت)” یایھا الناس “ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ، یایھا الناس “ کا خطاب اہل مکہ کو ہے اور ” یا ایھا الذین امنوا “ سے اہل مدینہ کو خطاب ہے اور یہاں خطاب ، خطاب عام ہے مگر یہ کہ نابالغ اور پاگل انسانوں کو شامل نہیں ہے ” اعبدوا “ وحدوا ‘(صرف ایک خدا کی عبادت کرو) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں عبادت کا حکم وارد ہے اس سے مراد توحید ہے (آیت)” ربکم الذی خلقکم “ خلق کسی شیء کی ایجاد اس طرح پر کہ اس سے پہلے اس کی مثال موجود نہ ہو۔ (آیت)” والذین من قبلکم “ ان کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے ۔ (آیت)” لعلکم تتقون “ تاکہ تم عذاب سے نجات پاجاؤ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کا معنی ہے کہ تم تقوی کی امید پر ہوجاؤ ، بایں طور کہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پردہ اور بچاؤ میں آجاؤ گویا لعلک میں لعل کا تعلق مخاطبین سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم تمہارے پیچھے ہے جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے جیسے فرمایا (آیت)” فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر اویخشی “ یعنی اس کو دعوت دو حق کی طرف اور تم اس امید پر ہوجاؤ کہ وہ نصیحت قبول کرلے گا ، (یعنی فرعون) تو یہاں بھی اس امید کا تعلق (جو لعل کے لفظ سے سمجھی جارہی ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ہے کہ تم اس امید کے ساتھ فرعون کو دعوت دو ، شاید وہ سمجھ جائے گا نصیحت قبول کرلے گا ، سیبویہ فرماتے ہیں کہ لعل اور عسی کے دونوں حرف ترجی یعنی امید کے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوں تو مضمون کو ثابت کرتے ہیں ۔
Top