Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
(اے لوگو ! بندگی کرو اپنے رب کی، جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآئَ بِنَائً ص وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَـآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰاتِ رِزْقًالَّـکُمْج فلَاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًوَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (اے لوگو ! بندگی کرو اپنے رب کی، جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتارا آسمان سے پانی۔ پھر نکالے اس سے پھل تمہارے کھانے کے لیے، پس نہ ٹھہرائو کسی کو اللہ کا مقابل اور تم جانتے ہو) (البقرۃ : 21 تا 22) سورة البقرۃ کے آغاز میں پروردگار نے اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ یہ کتاب وہ ہے جس کے مُنَزَّل مِنَ اللّٰہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اس لیے جو طالب ہدایت اس سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے اسے پڑھنا چاہے، اسے اطمینان ہونا چاہیے کہ یہ کتاب، اللہ ہی کی کتاب ہے، اسی نے نازل فرمائی ہے۔ جس طرح اس کا علم ہر طرح کی نارسائی اور ہر طرح کی غلطی سے پاک ہے، اسی طرح اس کی کتاب بھی فکری اور عملی رہنمائی دیتے ہوئے کسی فکری نارسائی، کسی عملی تضاد اور کسی عصبیت کی شکار نہیں ہوتی۔ البتہ اس سے استفادہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کے اندر کم سے کم تقویٰ پایا جاتا ہو۔ وہ ذہنی شعور سے بہرہ ور ہو، مشاہدے کی قوت رکھتاہو، مشاہدات سے صحیح نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت سے محروم نہ ہو اور اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ میری زندگی بےمقصد نہیں، میرا پیدا کرنے والا یقینا میری زندگی کے بارے میں ایک دن مجھ سے باز پرس کرے گا۔ یہ تقویٰ کی پہلی منزل ہے، قرآن کریم سے استفادہ کے لیے یہ بنیادی شرط ہے، جس کے بغیر قرآن کریم سے استفادہ ممکن نہیں۔ چناچہ اس استفادہ کے عمل کے نتیجے میں وہ صفات پیدا ہوتی ہیں جن سے یہ استفادہ کا عمل مکمل ہوتا ہے پھر ان صفات کا ذکر کرنے کے بعد ان صفات کے حاملین کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے اس ہدایت پر ہیں جس کی دعا انھوں نے اھدنا الصراط المستقیم کی صورت میں کی تھی اور یہی لوگ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے جو قرآن کریم سے استفادہ کے لیے پہلی شرط سے ہی محروم ہوں۔ ان لوگوں میں دو طرح کے افراد ہیں۔ ایک تو وہ جنھوں نے بالکل اس روشنی سے آنکھیں بند کرلی ہیں اور اس کے سامنے اپنے دل و دماغ کے دروازے مقفل کردیئے ہیں۔ ان لوگوں کو قدرت ہدایت حاصل کرنے سے بالکل محروم کردیتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی روش سے اپنے آپ کو اس محرومی کا مستحق بنادیا ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی اس روشنی کے لیے آنکھیں کھولتے ہیں، اس کی طرف بڑھنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے مفادات، تعصبات، نفسانی خواہشات، دنیوی علائق اور کردار کی کمزوریاں انھیں اس طرف بڑھنے نہیں دیتیں۔ یہ بھی عموماً ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ قرآن کریم سے استفادہ کے حوالے سے اور حق کو قبول کرنے کی نسبت سے انسانوں کی تقسیم کا ذکر کرنے کے بعد پیش نظر آیت کریمہ سے قرآن کریم نے اپنی دعوت پیش کرنا شروع کی ہے۔ جس کے لیے آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے ہیں اور جس کے لیے قرآن کریم کا نزول ہوا ہے۔ دعوت کو پیش کرنے سے پہلے انسانوں کی صفات کے اعتبار سے تقسیم کی گئی ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہی ایک تقسیم ہے جو فطری بھی ہے اور منطقی بھی۔ اس کے علاوہ انسانوں نے خود جتنی تقسی میں کررکھی ہیں۔ وہ سب مصنوعی اور غیر فطری ہیں اور وہ انسانیت کے لیے نہایت مہلک اور تباہ کن ہیں اور اس تقسیم کا ذکر بھی اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ لوگ قرآن کریم کھولنے سے پہلے اچھی طرح اپنا جائزہ لے لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اگر واقعی ہدایت حاصل کرنا مقصود ہو اور قرآن کریم کا پیغام سمجھنے کی خواہش ہو تو پھر ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ قرآن کریم نے قرآن سے استفادہ کے لیے جن صفات کو لازم ٹھہرا یا ہے۔ کیا وہ ہم میں موجود بھی ہیں یا نہیں اور اگر ان میں کمی محسوس ہو تو قرآن کریم کے طالب کو اس کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔ قرآن کی دعوت تمام نوع انسانی کے لیے ہے اس دعوت کو پیش کرنے کے لیے پروردگار نے الناس کہہ کر پوری نوع انسانی کو خطاب کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کی دعوت نہ صرف عربوں کے لیے ہے اور نہ صرف بنی اسماعیل کے لیے بلکہ پوری نوع انسانی اس کی مخاطب ہے۔ جہاں کہیں کوئی انسان بستا ہے اور جہاں جہاں دھرتی پانی دیتی ہے۔ قرآن کریم ان سب کے لیے ہدایت ورہنما ہے۔ اس لیے پروردگار نے قرآن کریم کو ذکرللّعالمین قرار دیا ہے یعنی یہ قرآن تمام اہل دنیا کے لیے نصیحت ہے اور آنحضرت ﷺ کو اسود واحمر کا رسول اور رحمت للّعالمین کے خطاب سے یاد فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر رنگ کے آدمی کی طرف اور دنیا کے ہر علاقے کی طرف اللہ کے رسول اور اس کی رحمت بن کر آئے ہیں۔ آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح یہ نہیں فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کی بھیڑوں کو اکٹھا کرنے آیا ہوں اور نہ دیگر انبیاء کی طرح صرف اس قوم تک اپنی دعوت کو محدود رکھا، جس کی طرف وہ مبعوث ہوئے تھے بلکہ حالات نے جیسے ہی آپ کو مہلت دی آپ نے سلاطین عالم کے نام مکاتیب لکھ کر انھیں اللہ کی ہدایت کی طرف بلایا اور صاف صاف فرمایا کہ اسلام لے آئو تو بچ جاؤ گے، ورنہ تمہاری اور تمہاری رعایا کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔ یہ پوری نوع انسانی کی طرف ایک ہادی اور ایک ہدایت نامے کا آنا ایک ایسا مژدئہ جاں فزا ہے جس پر جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ آپ کی ختم نبوت اور آپ کی نبوت و رسالت کی وسعت نے پوری دنیا کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا کہ اب تمہیں الگ الگ مذاہب کا انتساب الگ الگ رہنے پر مجبور نہیں کرے گا ملکوں کا الگ الگ رہنا انتظامی مجبوری ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کوئی مجبوری نہیں کہ انسانوں کے دل و دماغ الگ الگ انتسابات رکھیں اور یہ انتسابات انھیں کبھی اکٹھا نہ ہونے دیں۔ ہندو قیامت تک کے لیے ہندو رہیں اور یہودی اور عیسائی قیامت تک کے لیے یہودی اور عیسائی رہیں۔ کیونکہ ان کے مذہب نے انھیں یکجائی کی تعلیم نہیں دی۔ لیکن اسلام کا عالمگیر ہونے کا دعویٰ یہ وحدت کی ایک ایسی بنیاد ہے جس میں سارے مذاہب اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے جو دعوت پیش کی ہے اس میں سارے انبیائے کرام پر ایمان لانے کو لازم ٹھہرایا ہے۔ البتہ اس نے فکری اور عملی رہنمائی کے لیے قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ہی کی رہنمائی کو آخری سند سمجھنے پر اس لیے اصرار کیا ہے کہ پہلے مذاہب اپنی افادیت کھو بیٹھے، ان پر نازل ہونے والی کتابیں تحریف اور ترمیم کا شکار ہوگئیں۔ بڑے سے بڑے مذہب کے پاس بھی جزوی حقیقت باقی رہی، وہ حقیقت کے بڑے حصے کو کھو چکے، شریعت خیانتوں کی نذر ہوگئی۔ رسم و رواج اور خود ساختہ چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا گیا۔ حالات کے دبائو اور ایمان میں کمی کے باعث دین اور شریعت کا حلیہ بگڑتا چلا گیا۔ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے امتوں کی متاع گم گشتہ از سرنو انھیں عطا فرمائی۔ اس لیے یہاں اپنی دعوت کے آغاز میں تمام انسانوں کو خطاب فرماکر انہی حقائق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم اور آں حضرت ﷺ کی دعوت کو سمجھنے کے لیے دو باتیں ذہن میں رہنی چاہئیں۔ 1 آپ کوئی نئی دعوت لیکر تشریف نہیں لائے اور نہ قرآن کریم کوئی نئی دعوت پیش کررہا ہے۔ بلکہ یہ وہی دعوت ہے جسے تمام انبیائے کرام نے پیش کیا۔ قرآن کریم نے مختلف مواقع پر گزشتہ انبیائے کرام کی دعوت کا حوالہ دیا ہے اور ان کے الفاظ کو بھی دھرایا ہے۔ وہ بعینہ وہی الفاظ ہیں جس کا یہاں ذکر فرمایا جارہا ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی دعوت نئی ہوتی تو یقینا سابقہ انبیائے کرام سے کچھ نہ کچھ مختلف ہوتی۔ لیکن اس دعوت کا بعینہ سابقہ انبیائے کرام کی دعوت کے مطابق ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ سابقہ انبیاء کی امتوں نے جس دعوت کو گم کردیا اور جس میں انھوں نے تحریف اور ترمیم کر ڈالی قرآن کریم اسی دعوت کو جامعیت اور کمال کے ساتھ نہ صرف پیش کررہا ہے بلکہ پہلی امتوں کی خیانتوں پر تنقید اور گرفت بھی کررہا ہے۔ 2 اس دعوت پر جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا بنیادی نقطہ وہی ہے جو انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کسی نہ کسی کی رہنمائی کا محتاج ہے۔ زندگی سے متعلق بنیادی تصورات، کائنات سے انسان کا رشتہ، انسانوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت اور اس حوالے سے حقوق و فرائض کی شناخت، یہ کم سے کم ضرورتیں ہیں۔ جو ہر انسان کو شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد پیش آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان ضرورتوں کا جواب کون دے ؟ اور اس کے ساتھ ہی دوسری بات یہ کہ اجتماعی زندگی کا تصور اجتماعی زندگی کے اداروں کے بغیر ناممکن ہے۔ کوئی سا ادارہ بھی وجود میں لانے سے پہلے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ادارے کا سربراہ کون ہوگا ؟ اس ادارے کی پالیسی طے کرنے کا اختیار کسے ہوگا ؟ جو لوگ اس ادارے میں کام کریں گے ان کی رہنمائی کون کرے گا ؟ اور وہ کس کے سامنے جواب دہ ہوں گے ؟ جب تک ان سوالوں کو جواب نہ مل جائے اس وقت تک کوئی ادارہ وجود میں نہیں آسکتا اور اگر آجائے تو چل نہیں سکتا۔ گھر انسان کا پہلا ادارہ ہے۔ جس گھر میں یہ طے نہیں کرلیا جاتا کہ میاں بیوی کی صورت میں شوہر اس گھر کا سربراہ ہے اور ماں باپ اور اولاد کے ہوتے ہوئے باپ کو یہ مقام یہ حاصل ہے۔ اس وقت تک وہ گھر کبھی سلامتی سے زندگی کا سفر جاری نہیں رکھ سکتا کیونکہ گھر چار دیواری اور چھت کا نام نہیں۔ میاں بیوی میں باہمی محبت، اولاد پر شفقت اور بچوں کی طرف سے احترام سے گھر وجود میں آتا ہے۔ جس گھر میں بچے ماں باپ کا احترام نہ کریں، ماں باپ بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہ نکال سکیں اور میاں بیوی باہمی تعلقات میں خیانت کریں تو وہ گھر ہوتے ہوئے بھی گھر کہلانے کا مستحق نہیں۔ یہی حال باقی سب اداروں کا بھی ہے کہ جب تک سربراہی اور مرکز اطاعت کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا اور اطاعت کی حدود طے نہیں ہوتیں اس وقت تک کسی ادارے کا چلنا ناممکن ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو غور کیجئے کہ زمین انسان کا گھر ہے جہاں انسانوں کو زندگی کی ایک مہلت ملی ہے اور اسی مہلت عمل کے بارے میں قیامت کے دن باز پرس ہوگی۔ کیا اس گھر میں بسنے کے لیے سب سے بنیادی سوال اس کے سوا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے کہ اس گھر میں رہنے والوں کو کس کی رہنمائی میں زندگی گزارنی ہے اور کس کی اطاعت کرنی ہے اور ان کے اپنے ارادوں اپنی خواہشوں اور اپنی امنگوں کی حدود کیا ہیں ؟ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہوجائے اس وقت تک یہ زمین حیوانوں کا مسکن تو ہوسکتی ہے انسانوں کا مسکن نہیں بن سکتی۔ اسی لیے ہر پیغمبر نے سب سے پہلے اسی سوال کو اٹھایا کہ لوگو ! ذرا غور کروتم کس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاروگے اگر تم اس کے لیے عقل کو رہنما بنائو جو یقینا اللہ کا سب سے بڑا عطیہ ہے تو ذرا غور کیجئے کہ ہر آدمی کی عقل دوسرے سے متفاوت ہے اور قوموں کا باہمی غور وفکر کا معیار بےپناہ اختلاف رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے اندر عقل کے علاوہ کچھ اور بھی داعیات ہیں۔ اس کے اندر خواہش کا جذبہ بھی ہے امنگوں کی فراوانی بھی ہے، مفادات کا ہنگامہ بھی ہے، اشتعال اور محبت کی بےپناہی بھی ہے اور یہ جذبات ایسے ہیں جو بہت دفعہ عقل پر غلبہ پالیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر عقل کو بنیادی انسانی معاملات میں رہنما تسلیم کرلیاجائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ زندگی کے بارے میں کوئی ایک متعین زاویہ نگاہ، ایک متعین فکری اسلوب، ایک متعین ضابطہ حیات، کبھی وجود میں نہیں آسکتا۔ اس لیے انسانی زندگی کی صحت و سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی رہنمائی اس ذات کے سپرد کی جائے جو ان تمام کمزوریوں سے پاک ہو اور انسان کو اس کی اطاعت کا پابند کیا جائے جس کی اطاعت کرتے ہوئے آدمی کبھی کسی تحفظ ذہنی اور جذباتی ناہمواری کا شکار نہ ہو۔ اس لیے ہر پیغمبرنے اپنی قوم سے کہا یا قوم ! اُعْبُدُوا اللّٰہَ ” اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو “ وہی ذات ہے جس کی رہنمائی ہر غلطی سے مبرا ہے اور اسی کی اطاعت ہے جو تمہیں ہر کمزور جذبے سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں قرآن کریم نے بھی اسی دعوت کو پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ اُعْبُدُو رَبَّکُمْ ” اپنے رب کی عبادت کرو “۔ عبادت کا مفہوم عبادت کے معنی اور مفہوم کے حوالے سے سورة الفاتحہ کی تشریح کے ضمن میں ہم مفصل گفتگو کرچکے ہیں۔ جس میں ہم نے بتایا تھا کہ عبادت کا اصل معنی غلامی ہے اور غلامی میں چونکہ آقا کی اطاعت لازمی ہوتی ہے، اس لیے اطاعت بھی عبادت کے مفہوم میں شامل ہوگئی۔ جب یہ غلامی ایک ایسی ذات کی ہو جو خالق ومالک اور معبودبھی ہو تو پھر اس غلامی کا حق پرستش کی صورت میں ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے پرستش کا مفہوم بھی عبادت میں شامل ہوگیا۔ اب جب ہم قرآن کریم میں عبادت کا حکم پڑھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے اللہ کی غلامی کرواسی کی اطاعت کرو، اور اسی کی پرستش کا حق ادا کرو۔ اگر کوئی شخص اللہ کی غلامی کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس کی نماز نہیں پڑھتا یعنی اس کی پرستش نہیں کرتایا اس کے احکام کے اطاعت نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی غلامی نہیں کررہا کیونکہ اس کی غلامی اطاعت اور پرستش کے بغیر نہیں ہوتی اور دوسری بات اس سے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ غلام اپنے آقا کا جزوی غلام نہیں ہوتاوہ اپنے آقا سے کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں آپ کا غلام ضرور ہوں لیکن میں آپ کی اطاعت نہیں کروں گا اور نہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں آپ کی فلاں بات تو مانوں گا فلاں نہیں مانوں گا۔ اگر وہ غلام ایسا کہے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کے آقا کی برہمی کا عالم کیا ہوگا۔ وہ یا تو اسے سخت سزا دے گا اور یا اسے کسی اور آقا کے حوالے کردے گا۔ بالکل اسی طرح ہم اللہ کے غلام ہیں ہماری غلامی جز وقتی نہیں بلکہ ہمہ وقتی ہے۔ ہم اپنے اللہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم مسجد میں تو آپ کے غلام ہیں سو نماز پڑھیں گے لیکن مسجد سے باہر نکل کر پھر ہم آپ کے غلام نہیں ہیں یا غلام تو ہیں لیکن آپ کی اطاعت کے پابند نہیں ہیں۔ ہم کاروبار کریں گے تو اپنی مرضی سے ملازمت کریں گے تو اپنے طریقے سے حکومت چلائیں گے تو اپنی خواہش اور اپنے مفادات کے مطابق، ملک میں آئین وہ نافذ کریں گے جسے ہم خود بنائیں گے۔ غرضیکہ پوری زندگی ہماری مرضی سے چلے گی البتہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کے کان میں تیر انام ضرور پھونکیں گے۔ لیکن پھر اس کی تعلیم و تربیت کے لیے پلٹ کر تیری کتاب اور تیرے رسول کی سنت کو کبھی نہیں دیکھیں گے۔ مرنے پر تیرے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نماز جنازہ بھی پڑھیں گے اور تیری کتاب کی تلاوت سے ایصال ثواب بھی کریں گے۔ لیکن تیری کتاب جو ہمیں قانون اور آداب سکھاتی ہے اسے ہم کبھی جاننے کی بھی کوشش نہیں کریں گے۔ اس روش کو کوئی بھی عقل مند آدمی نہ اطاعت کہہ سکتا ہے نہ پرستش اور غلامی تو اس سے بھی بڑھ کر اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردینے کا نام ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے۔ اس میں ایک تو اللہ کی عبادت پر دلیل پیش کی گئی ہے اور دوسرا ایک تعریض کی گئی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اے انسانو ! تم جانتے ہو کہ تم مخلوق ہو تم نہ تو از خود پیدا ہوئے ہو اور نہ کسی دوسری مخلوق نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تم چاہے مشرکین سے تعلق رکھتے ہو یا اہل کتاب سے تم سب اللہ ہی کو اپنا خالق سمجھتے ہو۔ تمہیں خود اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ جو کسی چیز کو بناتا یعنی تخلیق کرتا ہے وہ چیز اس بنانے والے کی ہدایات کی پابندی کرتی ہے یا کسی اور کے اشاروں پر چلتی ہے اور اس چیز پر حکم چلانے کا حق اس کے موجد اور اس کے خالق کو ہے یا کسی اور کو ؟ تم تسلیم کرو گے کہ یہ حق یقینا موجد اور خالق کو ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ جب تم مانتے ہو کہ تمہیں اللہ نے پیدا فرمایا ہے تمہیں اس نے عدم سے وجود بخشا آج تم اپنے آپ کو کچھ بھی سمجھو لیکن تمہارا وجود اسی کا مرہونِ منت ہے۔ اگر وہ تمہیں پیدا نہ کرتا تو تمہارا کہیں وجود نہ ہوتا اور پھر پید اکرکے تمہاری حفاظت نہ کرتایا پیدائش کے عمل میں جو وقت ماں کے پیٹ میں گزرتا ہے اس میں اگر وہ نگرانی نہ کرتا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں ہلاکت سے نہ بچا سکتی۔ اور پھر اگر وہ تمہیں صرف جسم عطاکرکے چھوڑ دیتاوہ بیشمار صلاحیتیں اور جذبات جس سے انسانی زندگی کی ہمہ ہمی ہے اگر وہ تمہیں عطا نہ کرتا تو تم پیدا ہونے کے بعد بھی دھرتی کا بوجھ ہونے کے سوا کچھ نہ ہوتے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ جس ذات کے احسانات کے بوجھ تلے تم دبے ہوئے ہو بجائے اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کے تم دوسروں کی بندگی کرتے ہو حالانکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے محسن کو پہچانو اور صرف اسی کی بندگی کرو۔ مِنْ قَبْلِکُمْ کا مفہوم یہ جو فرمایا کہ جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے ان کو بھی پیدا کیا۔ اس میں تعریض یہ ہے کہ جس کی تم مخلوق ہو تو تم سے پہلے پیدا ہونے والے بھی تو اسی کی مخلوق ہیں۔ مخلوق کو اگر خالق ہی کی بندگی کرنی چاہیے۔ تو جو تم سے پہلے پیدا ہوئے ہیں تو کیا انھیں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنا جائز ہے ؟ یقینا انھیں بھی اللہ ہی کی بندگی کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح اللہ کے بندے ہیں۔ بندہ ہونے کے اعتبار سے تم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ تم نے اپنے جیسے بندوں کو اللہ کی بندگی اور عبادت میں شریک کرلیا اور ان کے مجسمے اور بت بنا کر ان سے مرادیں مانگنے اور پرستش کرنے لگے کیونکہ تمام مشرک قومیں جن کا ہم آسمانی کتابوں میں تذکرہ پڑھتے ہیں ان کے بیشتر معبود وہی لوگ تھے، جو اپنی زندگی میں اپنی نیکیوں کے باعث لوگوں میں مقبول ہوگئے۔ پھر ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے پہلے ان سے عقیدت کا اظہار کیا، پھر رفتہ رفتہ یہ عقیدت پرستش اور بندگی کی صورت اختیار کرگئی۔ مشرکینِ عرب کے جن مشہور بتوں کے نام ہم سنتے ہیں ان میں بیشتر عرب کی تاریخ کی ہر دل عزیز اور نیک نام شخصیتیں تھیں۔ جو اپنے کارناموں کے باعث لوگوں میں مقبولیت اختیار کرگئیں۔ لوگوں نے ان کے مرنے کے بعد ان کی تصویریں بنائیں، پھر ان کے مجسمے بنے، آہستہ آہستہ ان کی پوجا شروع ہوگئی۔ یہاں ان کے نام نہاد ان معبودوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جارہا ہے کہ یہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق تھے تو تم نے ان کو خدا کیوں بنالیا ؟ اس آیت کریمہ کے اسلوب پر غور کیجئے ! یہ فرمایا جارہا ہے کہ ” لوگو ! بندگی کرو اپنے رب کی “۔ اس کے بعد فرمایا ” وہ رب جس نے تمہیں پیدا کیا “۔ براہ ِراست یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے خالق کی پوجا اور بندگی کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکینِ عرب اور دوسری قومیں بھی اللہ کو خالق ہونے کے اعتبار سے وحدہٗ لاشریک مانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ کے سوا مخلوقات کا خالق کوئی نہیں، سب کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ لیکن جہاں تک رب ہونے کا تعلق ہے، وہ اللہ کو بھی رب مانتے تھے اور اس کے سوا اور نہ جانے کس کس کو انھوں نے اللہ کی صفت ربوبیت میں شریک کررکھا تھا۔ سورة فاتحہ کے درس میں ہم نے رب کے لفظ کی بھی وضاحت کی ہے وہاں دیکھ لینا چاہیے۔ اس وقت صرف یہ عرض کرنا ہے کہ یہاں شائد اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اے مشرکینِ عرب ! تم نے تو اپنے بتوں اپنے بزرگوں، اور اپنے قومی سرداروں کو اللہ کی ربوبیت میں شریک کررکھا ہے۔ اسی طرح اے اہل کتاب ! تم اپنے احبار ورہبان کو رب بنا چکے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رب تو صرف وہ ذات ہے جو تمہاری خالق بھی ہے۔ اسی کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ چونکہ اسی کی صفت ربوبیت زندگی بھر تمہاری تربیت کرتی، ضروریاتِ زندگی فراہم کرتی اور نوازشات سے گراں بار کرتی رہتی ہے کہ وہ تمہاری رب ہو یعنی اسے حِلّت و حرمت کا اختیار ہو وہی تمہارے لیے آخری سند اور اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہو۔ اسی کے احسانات کا تقاضا ہے کہ اسی کے سامنے سجدہ شکر بجا لایا جائے اور اسی کے احکام کے سامنے سر جھکایا جائے۔ اس طرح سے اللہ کی ربوبیت کا ذکر فرماکر اسے ہر طرح کی پرستش، بندگی اور غلامی کا مستحق ٹھہراکر اور اسے خالق قرار دے کر، تمام اہل مذاہب کے مسلمہ عقیدے کو بنیاد بناکر، اس کے لازم کی حیثیت سے دلیل کے طور پر پیش فرمایا۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ” لوگو ! بندگی کرو اپنے رب کی “ ، کیونکہ رب ہی اپنے احسانات اپنی کرم فرمائیوں اور اپنے مربی ہونے کے باعث ہر طرح سے تمہاری بندگی کا مستحق ہے۔ مزید فرمایا کہ اس لیے بھی اس کی بندگی کرو کیونکہ خود تمہارے عقیدے کے مطابق وہ تمہارا خالق بھی ہے۔ تمہارے اس عقیدے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے تم خالق مانتے ہوا سی کو رب مانو اور اسی کو ہر لحاظ سے اپنا معبود، اپنا آقا، اپنا حاکم حقیقی اور اپنا رہنما تسلیم کرو اور یہ حکم جو تمہیں دیا جارہا ہے یہ اس لیے نہیں کہ اللہ تمہاری بندگی کا محتاج ہے ساری کائنات اس کے قانونِ تکوینی کی پابند ہے۔ کوئی پتہ اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا سب اس کے حکم کے آگے سر جھکائے ہوئے ہیں اگر تم اس کی بندگی نہیں کرو گے۔ تو اس کی کبریائی اور حاکمیت میں کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ تمہیں یہ حکم اس لیے دیا جارہا ہے تاکہ تم بےایمانی اور بداعمالی کے انجام سے بچ جاؤ، تاکہ تم اللہ کے غضب سے بچ جاؤ، تاکہ اللہ کے عذاب سے بچ جاؤ کیونکہ جو غلام اپنے آقا کی فرمانبرداری نہیں کرتا، اسے یا تو سزادی جاتی ہے اور یا اسے کسی دوسرے ظالم آقا کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم بھی اللہ کی بندگی نہیں کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے اور آج اگر ہم تدبر سے کام لیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ پوراعالم اسلام اسی حادثے کی گرفت میں ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ کو خالق قرار دے کر تمام نوع انسانی کو ان کے مخلوق ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس طرح سے ان کے سامنے دلائل انفس میں سے ایک دلیل نفسی کا ذکر فرمایا کہ تم جب مخلوق ہونے کی حیثیت سے اپنی حالت پر غور کروگے اور اپنی حیثیت سمجھنے کی کوشش کروگے تو تم یقینا اس نتیجے پر پہنچوگے کہ ایک مخلوق کو اپنے خالق کی ہی بندگی کرنی چاہیے۔ توحید اور اللہ کی بندگی پر دلائلِ آفاق سے استدلال دوسری آیت کریمہ میں اللہ کی توحید اور بندگی کے لیے صرف اسی کے مستحق ہونے پر دلائل آفاق میں سے چند دلیلیں ذکر فرمائی جارہی ہیں اور دلائل کا انداز اس قدر سادہ، اس قدر دلنشیں اور اس قدر دل میں اتر جانے والا ہے کہ وہ جس طرح ایک ان پڑھ اور جاہل کو اپیل کرتا ہے، بالکل اسی طرح ایک عالم فاضل اور ایک دانشور کو بھی متوجہ کرتا ہے۔ غور فرمائیے ! اس آیت کریمہ میں اللہ کی توحید پر جو دلیل پیش فرمائی ہے اس میں چار چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ چاروں چیزیں ایسی ہیں جو ہر ایک کی ضرورت بھی ہیں اور ہر ایک کی نگاہوں میں بھی رہتی ہیں ان سے صرف نظر نہ عالم کرسکتا ہے نہ جاہل، لیکن دونوں ان سے اپنے اپنے طریقے سے متمع ہوتے ہیں۔ ایک جاہل جب اس آیت کو سنتا ہے کہ میرا اللہ وہ ہے جس نے جس طرح مجھے پیدا کیا اسی طرح اس نے میری ضروریات بھی فراہم کیں۔ میرے دنیا میں آنے سے پہلے اس نے یہاں ایک ایسا کارخانہ بسا دیا جہاں سے مجھے ہر ضرورت میسر آسکتی ہے۔ اس نے سب سے پہلے مجھے ٹھکانہ دیا اور آغوش مادر کی طرح میرے لیے زمین کا بچھونا بچھا دیا۔ اور زمین کو اس طرح بچھایا کہ ایک تھکاوٹ سے چور آدمی جب ننگی زمین پر آرام حاصل کرنے کے لیے لیٹتا ہے تو وہ بالکل اس طرح گہری نیند میں ڈوب جاتا ہے جیسے بچہ اپنی ماں کی گود میں سوجاتا ہے۔ نہ اسے لوہے کی طرح سخت بنایا کہ آدمی اس پر لیٹ نہ سکے نہ اسے اتنا نرم بنایا کہ آدمی اس میں دھنس کے رہ جائے باوجود اس کے کہ اس کی مٹی انسان کے لیے نرم بنائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں تحمل اور برداشت ایسی رکھی کہ پہاڑوں کا بوجھ اٹھاتی اور انسانی عمارتوں کو سیدھا رکھتی ہے اور اس استقلال اور استقامت کے ساتھ ساتھ نرمی اتنی رکھی کہ ہر غلے کے دانے دانے کو اس طرح پالتی ہے جیسے ماں اپنے بچے کو اپنی آغوش میں جھولا دیتی ہے۔ پھر آسمان کو بنایاتو ایسا مزین کہ اندھیرا ہوتے ہی جب آدمی اداسی میں ڈوبنے لگتا ہے تو آسمان پر روشن قندیلیں اس کے دل کو لبھانے لگتی ہیں۔ آسمان کے قلب میں چمکنے والا چاند اسے محبت کے گیت سناتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت پانی ہے۔ چناچہ آسمان سے چھم چھم پانی برسایا گیا۔ جس نے ایک طرف پیاس بجھانے کا سامان کیا اور دوسری طرف زمین کی آبیاری کی اور پھر ندی نالوں چشموں اور آبشاروں کی شکل میں حسن و جمال کا ایک ایسا مرقع تیار کیا جس نے نہ جانے کتنے اجاڑ اور محزون دلوں کو خوشیوں کا خزانہ بخشا۔ پھر اسی پانی اور زمین کے ملاپ سے انسان کی غذائی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ پانی زمین کو سینچتا ہے۔ زمین کی قوت روئیدگی ہر بیج کی تربیت کرتی ہے۔ کہیں سبزا سر اٹھا رہا ہے کہیں فصلیں لہلہا رہی ہیں کہیں قدآور درخت کھڑے سایہ دے رہے ہیں یا پھل دے رہے ہیں کہیں بیلیں بچھی جارہی ہیں۔ جو اپنے دامن میں سبزیاں اور پھلوں کو لیے خوان نعمت آراستہ کررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : لوگو ! فیصلہ کرویہ زمین کا بچھونا، آسمان کی چھت، زمین کی قوت روئیدگی اور پانی کا بادلوں سے برس کر تمہاری پیاس کا سامان کرنا اور زمین کو سینچ کر تمہاری غذائی ضرورتوں کو پورا کرنا کیا یہ سب کچھ اللہ کے سوا کوئی اور کرسکتا ہے ؟ اور تم جانتے ہو کہ یہ کام اور کوئی نہیں کرسکتا نہ تم کرسکتے ہو اور نہ وہ کرسکتے ہیں جن کو تم نے اللہ کا شریک بنارکھا ہے۔ تو پھر خود سوچو تم نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کیوں بنایا۔ ایسا بےعقلی کا کام کسی کو بھی زیب نہیں دیتا اس لیے اس سے توبہ کرو اور اللہ ہی کو اپنا معبودِ برحق اور وحدہٗ لاشریک خدا مانو۔ لیکن جب انھیں نعمتوں پر ایک عالم اور دانشور غور کرتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ یہ زمین کہاں سے آئی ؟ ماہرینِ ارض نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ آج سے ہزارہا صدیوں پہلے ایک بہت بڑا ستارہ سورج کے قریب سے گزرا۔ زورِ کشش سے سورج کے چند ٹکڑے کٹ کر دور خلا میں گھومنے لگے، ان میں سے ایک زمین تھی۔ ان ٹکڑوں کو قریب کے ستاروں نے کھینچ کر متوازن کردیا۔ زمین کی دو حرکتیں ہیں۔ ایک اپنے گرد جو 24 گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے اور دوسری آفتاب کے گرد جو 365 دن لیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زمین کو آفتاب سے جدا ہوئے آج 2 ارب صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان گردشوں میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا۔ ورنہ علمائے ہیئت کے تمام حساب غلط ہوجاتے۔ اپنے گرد زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور آفتاب کے گرد 68000 میل فی گھنٹہ کے حساب سے۔ اگر اس کی پہلی رفتار کو دس گناہ کم کردیا جائے تو شب وروز دس گنا لمبے ہوجائیں گے۔ جون میں 140 گھنٹے کا گرم دن زمین کو جھلس کر رکھ دے گا اور جنوری کی اتنی ہی طویل رات ہر شے کو منجمد کردے گی اور اگر اسے بڑھا دیا جائے تو ہر شے کا وزن کم ہوتا جائے گا اور جب یہ رفتار 16200 میل فی گھنٹہ تک پہنچے گی تو کسی چیز میں کوئی وزن نہیں رہے گا۔ ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا درختوں اور مکانوں کو گرادے گا اور ہا کی کا بال ہٹ ہونے کے بعدہوا میں اڑجائے گا اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ زمین کا وزن پانچ ارب بلین ٹن ہے۔ اگر آدھا ہوتا، تو کشش ثقل نصف رہ جاتی اور اشیا کا وزن آدھا ہوجاتا۔ اگر یہ وزن دوگنا ہوتا، تو ہر چیز کا وزن ڈبل ہوجاتا۔ زمین سورج سے تقریباً 9 کروڑ 29 لاکھ میل دور ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوتا، تو ہم گرمی سے مرجاتے اور زیادہ ہوتا تو سردی سے مرجاتے۔ کرئہ زمین کا رخ آفتاب کی طرف بالکل سیدھا نہیں، بلکہ 23 درجہ کے قریب ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہی جھکائو موسموں کا سبب ہے، اگر ایسا نہ ہوتا، تو ہر دن پچھلے دن جیسا ہوتا اور ہم سردی و گرمی، بہار اور برسات کے مناظر، غذائوں اور پھلوں سے محروم رہ جاتے۔ آغاز آفرینش میں جب زمین ٹھنڈی ہوئی، تو دو گیسیں یعنی نائٹروجن اور آکسیجن باہم مل کر ہوا میں تبدیل ہوگئیں۔ نائیٹروجن کی مقدار 78.3 تھی اور آکسیجن 20.99، آکسیجن ایک آتش پذیر گیس ہے۔ اگر فضا میں اس کی مقدار زیادہ ہوتی، تو آسمانی بجلی کے ایک شرر سے آگ بھڑک اٹھتی اور سب کچھ جل جاتا اور اگر موجودہ مقدار نصف ہوتی، تو نہ چولہوں میں آگ جلتی اور نہ حیوانی زندگی باقی رہتی۔ کرئہ ہوا میں ذرات گرد اور آبی بخارات اور گیسوں کی وجہ سے کچھ کثافت ہوجاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو لاتعداد شہاب، جو کثیف ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ہم پر اتنے شرر اور پتھر برساتے کہ زندگی ختم ہوجاتی۔ یہ تو زمین سے متعلق بیشمار حقائق میں سے چند حقائق ہیں۔ جنھیں سائنس اور تحقیق کی نگاہ دیکھ سکی ہے۔ رہے اس کی افادیت کے وہ پہلو جن کا تعلق انسان کی غذائی ضروریات سے ہے۔ اس کے لیے اور کچھ نہیں تو انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے پر ہی غور کرے کہ یہ آخر کہاں سے آتا ہے کہ انسان اپنی غذا کے لیے دانہ گندم زمین میں کاشت کرکے اسے دفن کرکے آجاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دانہ مرجائے، مگر بجائے مرنے کے اس میں زندگی کی سوئی پھوٹتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے تنا بنتی ہے۔ پھر اسے خوشے لگتے ہیں۔ خوشوں میں دانوں کے موتی بھر دئیے جاتے ہیں۔ سورج کی کرنیں پانی کے ڈول بھر بھر کر فضا میں ابر کی چادریں پھیلا دیتی ہیں۔ ابر پانی برسا کر کھیتی کی آبیاری کا سامان کرتا ہے، سورج اسے گرمی پہنچاتا ہے، چاند اسے حلاوت دیتا ہے، ہوا اسے لوریاں دیتی ہے، زمین اپنی قوت نمو بروئے کار لاتی ہے اور پھر قدرت نہ جانے کیسی کیسی قوتوں کو وہاں کام میں لاکر انسان کے لیے غذا فراہم کرتی ہے۔ سائنس دان کہتا ہے کہ نائٹروجن حیوانی ونباتاتی حیات کا لازمی جزو ہے۔ یہ دو طریقوں سے زمین میں داخل ہوتی ہے۔ اول خوردبینی اجرام یا بکٹیریا کے ذریعے جو زمین کی بالائی تہہ میں رہتے ہیں اور کھاد وغیرہ کھاکر ایک ایسا رس خارج کرتے ہیں، جن میں نائیٹروجن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نصف چھٹانک زمین میں ان کی تعداد ایک کھرب پینتیس ارب کے قریب ہوتی ہے اور زمین کے ہر ایکڑ میں ان کا کام بارہ آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اگر 100 ایکڑ کھیت میں 10 کسان ہل چلا رہے ہیں تو 1200 مزدوروں کا ایک مخفی لشکر بھی وہاں کام کررہا ہوتا ہے۔ غور فرمائیے ! اس غذا کو مہیا کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں انسان کا حصہ کتنا ہے اور اللہ کا کتنا ؟ پروردگار خود فرماتے ہیں : اَفَرَئَ یْتُم مَّاتَحْرُثُوْنَئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ (کیا تم نے اپنی کھیتی پر کبھی غور کیا۔ زراعت کون کرتا ہے تم یا ہم ؟ ) زمین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی ان عنایات کو سامنے رکھو اور پھر بتائو ؎ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی یہ خوئے انقلاب انسان کی دوسری فوری اور ناگزیر ضرورت پانی ہے۔ آدمی پانی کی حقیقت پر غور کرے اور پھر اس کے فوائد سمجھنے کی کوشش کرے، تو اللہ کی قدرت نمایاں نظر آتی ہے۔ جس کے آئینے میں انسان اپنے پروردگار کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر فراخی اور وسعت کے ساتھ اللہ نے پانی کے خزانے پیدا فرمائے ہیں۔ زمین کی تخلیق کے ساتھ جب پانی کو پیدا فرمایا گیا، تو کس طرح قیامت تک کی مخلوقات کی ضروریات کو ملحوظ رکھا گیا۔ نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے، لیکن آج تک پانی کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آئی اور پھر چونکہ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے، جس سے انسان کبھی صرف نظر نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہوا کے بعد اس کے ناپیدا کنار سمندر پید افرمائے اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پانی کا پہنچنا آسان نہیں کیا گیا۔ کہیں سمندروں کو پیدا کیا گیا۔ کہیں چشمے جاری کردئیے گئے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتظام فرمایا کہ سردیوں میں پہاڑوں پر برف جماکر گرمیوں میں اسے پگھلاکر زمین کی آبیاری کا سامان کردیا گیا اور پھر ایک ایسا حیرت انگیز انتظام دیکھنے میں آتا ہے کہ سمندر سے بھاپ اٹھاکر بادلوں کی چادریں بچھائی جاتی ہیں اور انھیں اس طرح برسایا جاتا ہے کہ زمین کا ایک ایک ریشہ معمور ہوجاتا ہے اور پھر ایسا نہیں ہوتا کہ سارا پانی زمین میں جذب ہوجائے اور زمین دلدل بن جائے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ سارا پانی بہہ جائے اور ندی نالوں میں پہنچ جائے اور زمین مناسب آبیاری سے محروم رہ جائے۔ بلکہ قرآن کہتا ہے کہ ضرورت کے مطابق ہم پانی زمین میں جذب کرتے ہیں جہاں مزید ضرورت ہوتی ہے اس کو روک دیتے ہیں اور باقی پانی ہم ندی نالوں اور جدولوں کی شکل میں واپس دریائوں اور سمندروں میں لے جاتے ہیں اور پھر پانی کے اوصاف کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے اور بےساختہ اپنے رب کی یاد آنے لگتی ہے۔ ان میں چند ایک یہ ہیں۔ 1 پانی کو سیال پیدا کیا گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے پیاس بجھتی، نہ کپڑے صاف ہوتے اور نہ کھیتیاں سیراب ہوتیں۔ 2 جب پانی جمنے لگتا ہے تو وہ کثیر مقدار میں حرارت خارج کرتا ہے۔ جس سے نیچے کا پانی متاثر ہوتا ہے اور غیر منجمد رہتا ہے۔ اگر سردیوں میں سارا پانی جم جاتاتو تمام مچھلیاں اور پانی کے دیگر جانور مرجاتے۔ 3 برف پانی سے ہلکی ہوتی ہے یہ پانی کی سطح پر رہ کر نیچے کے پانی کو انجماد سے بچاتی ہے۔ 4 اگر سمندر منجمد ہوتے تو دنیا سردی سے ہلاک ہوجاتی، اگر ابل رہے ہوتے تو گرمی سے مرجاتی۔ اس کا اعتدال ہی بقائے حیات کا باعث ہے۔ نباتات سے استدلال اسی طرح جب ہم اپنے گرد وپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نباتات کی چاروں طرف پھیلی ہوئی ایک دنیا دکھائی دیتی ہے۔ درخت سراٹھائے کھڑے ہیں، سبزے کی چادریں بچھی ہوئی ہیں، فصلیں لہلہارہی ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے نباتات کے اعجاز پر غور نہیں کیا کہ یہ نباتات صرف کائنات کا حسن ہی نہیں یہ ہمارے لیے مدار حیات بھی ہیں۔ یہ غلہ اور پھل جو ہم کھاتے ہیں، سب نباتات سے حاصل ہوتے ہیں یہ ربڑ، یہ کاغذ، یہ کوئلہ، یہ تیل، یہ صابن، سب نباتات کا کرشمہ ہے۔ ہماری الماری میں سجی ہوئی کتابیں وہ جنگل ہیں جنھیں مزدور کاٹ کر کاغذ کے کارخانوں تک لے گئے تھے۔ پھولوں کے ننھے پودے سے لے کر چنار کے درخت تک آپ کو نباتات کی کروڑوں اقسام نظر آئیں گی۔ ان میں کچھ باغوں کی آرائش ہیں، کچھ ہماری غذا ہیں اور کچھ متاع حیات، یہ سب ایک ہی زمین سے اگتی ہیں اور ایک ہی پانی سے نشو و نما پاتی ہیں۔ لیکن کمال تخلیق دیکھئے کہ سب کی حیثیت، رنگ، قامت، تاثیر، بو اور ذائقہ الگ الگ ہے۔ وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِراتٌ وَّجَنَّاتٌ مِّن اَعنَابٍ وَّزَرعٌ وَّنَخِیلٌ صِنوَانٌ وَغَیرُ صِنوَانٍ یُّسقٰی بِمَائٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلٌ بَعضَھَا عَلٰی بَعضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُون۔ (زمین کے پاس پاس ایسے قطعات ہیں جن میں کہیں کھیتی، کہیں انگور اور کہیں کھجور کے درخت ہیں۔ ان میں سے کچھ ایک جڑ سے نکلتے ہیں اور کچھ الگ جڑوں سے۔ ان سب کی پرورش ایک ہی پانی سے ہوتی ہے لیکن ان کے ذائقے الگ الگ ہیں۔ ان باتوں میں ارباب دانش کے لیے کتنے ہی اسباب و شواہد موجود ہیں) درخت اپنے پتوں کا دامن ہوا اور سورج کے سامنے پھیلا کے ان سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔ ان کی جڑیں بطن زمین سے پانی اور غذا لے کر بلند شاخوں تک پہنچاتی ہیں اور پھلوں میں رس، مٹھاس اور خوشبو بھرتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہورہا ہے اور اس انتظام کے پیچھے کوئی ہمہ بین آنکھ اور ہمہ دان دانش کارفرما نہیں ؟ ہر صحیح الدماغ آدمی کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ یہ جو کچھ کائنات میں ہورہا ہے یہ اتفاقا نہیں ہورہا ہے بلکہ دنیا کی کوئی طاقت ایسا کرنا بھی چاہے تو اسے ہرگز اس کی قدرت نہیں یہ تو سب کچھ اس ذات بابرکات کے حکم سے ہورہا ہے جو اس کائنات کی خالق ومالک اور اس کی رب ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار کیے بغیر چارہ نہیں۔ قرآن کریم اسی حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ جب اس کائنات کی تخلیق اور اس کی ربوبیت میں اللہ کا کوئی شریک نہیں اور تم اس حقیقت کو خوب جانتے ہو کیونکہ یہ فطرت کی پکار اور عقل کا تقاضا ہے۔ اس لیے تم پر لازم ہے کہ کسی کو اللہ کا ندنہ بنائو۔ انداد ،” ند “ کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہمسر، ہم پایہ، مد مقابل، مشابہ اور کفو کے ہیں۔ دلیلِ تخالف اس آیت کریمہ پر اگر مزید تدبر کی نگاہ ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اس آیت میں جتنی چیزوں کا ذکر فرمایا ہے وہ سب ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مثلاً زمین اور آسمان، پانی اور مٹی، زمین کے اندر کا بیج اور اوپر مٹی کی تہہ اور پھر بارش کا برسنا۔ ان تمام میں نسبت ضد اور مخالف کی ہے بلکہ قدرت نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں ثنویت رکھی ہے اور ان کے اندر باہمی تضاد رکھا ہے۔ اسی لیے ارشاد فرمایا : وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَینِ (ہم نے ہر چیز کے جو ڑے پید اکیے ) ان میں باہمی نسبت، سازگاری کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد کی ہے۔ باایں ہمہ ان کے درمیان ہمیں حیرت انگیز توافق اور ساز گاری نظر آتی ہے۔ بجائے ایک دوسرے سے ٹکرانے اور الجھنے کے ایک دوسرے کے وجود کی حفاظت اور مقصد تخلیق کی تکمیل میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ ایک کا بغیر دوسرے کے وجود بالکل بےمعنی دکھائی دیتا ہے۔ خود انسان ہی کو دیکھئے اس کو مرد اور عورت کی دوانواع میں تقسیم کردیا گیا ہے اور پھر دونوں کو الگ الگ طبعی خصوصیات، جبلی صفات اور اندرونی احساسات کا اختلاف دے کر بالکل ایک دوسرے سے الگ الگ شخصیتیں بنادیا گیا مگر دونوں میں ایک دوسرے کی کشش اور ایک دوسرے کی تکمیل کی فکر اس طرح دلوں میں راسخ کردی گئی کہ مرد کے پاس جو کچھ ہے وہ عورت کے لیے مطلوب و مرغوب بنادیا گیا اور عورت کے پاس جو کچھ ہے اسے مرد کے تقاضوں کا جواب ٹھہرایا گیا۔ اس طرح باہم ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہوگئے ہیں یہی حال اس کائنات کے تمام اجزائے مختلفہ کا ہے۔ زمین و آسمان، شب وروز، گرمی وسردی، نوروظلمت، حرارت وبرودت، سب زوجین کی طرح ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں مگر باہم شدید اتصال بھی رکھتے ہیں۔ حتی کہ ایک کا دوسرے کے بغیر وجود بےمقصد معلوم ہوتا ہے تو افق کا یہ قانون ہم صرف ضدین میں ہی نہیں پاتے بلکہ اس کائنات کے نظام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک ہمہ گیر توافق اور سازگاری ہے۔ ہر چیز اپنی ہستی کی بقاء اور اپنے وجود کی نشو و نما کے لیے اس بات کی محتاج ہے کہ یہ پورا کارخانہ اس کے لیے سرگرمِ کار رہے۔ گیہوں کا ایک پودا ہی لے لیجئے، یہ اپنے وجود میں کمال کو نہیں پہنچ سکتا تاوقتیکہ زمین اس کے لیے گہوارے کا کام نہ دے سورج اس کے لیے سمندر سے پانی کے ڈول بھربھر کر فضا میں ابر کی چادریں پھیلا کر اس کے لیے آبیاری کا سامان نہ کرے، موسم اس کے لیے نگرانی کا فرض انجام نہ دے، چاند اس کو ٹھنڈک نہ پہنچائے، سورج اس کے لیے گرمی مہیا نہ کرے اور ہوائیں اس کو لوریاں نہ دیں، یہ سارے عناصر باہم مل جل کر سرگرم کاررہتے ہیں۔ تب جاکر گندم کا ایک پودا اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے اور گیہوں کا ایک دانہ تیار ہو کر خرمن تک پہنچنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس پوری صورتحال کو نگاہوں میں رکھئے اور پھر اندازہ فرمائیے ! اگر یہاں اللہ کے سوا کسی اور کی حکومت ہوتی اور اس ربوبیت کے عمل میں کوئی اور بھی شریک ہوتا تو کیا متضاد عناصر میں یہ حیرت انگیز توافق پیدا ہوسکتا۔ اگر زمین کے اندر کسی اور دیوتاکا ارادہ کارفرما ہوتا اور آسمان میں کسی اور کی خدائی چل رہی ہوتی تو مختلف ارادوں کے تصرفات میں یہ موافقت اور یہ سازگاری کس طرح پیدا ہوسکتی۔ اس لیے کائنات کا ذرہ ذرہ پکارپکار کر کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہیں اگر ایسا ہوتا تو یہ کائنات اولاً تو وجود میں نہ آتی اور اگر آتی تو باقی نہ رہ سکتی۔
Top