Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ان سب کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تب ہی تم اس کی نافرمانی سے بچ سکتے ہو
ۡقرآن کریم کا انداز تخاطب : 44: گزشتہ آیات میں تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ مسلمان ، کافر اور منافق۔ پھر منافقین کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے بتایا گیا اور دونوں گروہوں کو الگ الگ مثال دے کر خوب ذہن نشین کرادیا کہ ان کے یہ یہ اوصاف ہیں تاکہ ہر انسان اپنا تجزیہ کر کے اپنی حیثیت کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرے اگر کوئی بات ایسی نظر آئے جو کفر و نفاق کی طرف لے جارہی ہو تو فوراً اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ کیونکہ بحیثیت انسان تینوں گروہ ایک ہی اصل سے متعلق ہیں اس لیے اکرام انسانیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو ” اے نسل انسانی “ کہہ کر مخاطب کیا ” اے کافرو “ یا ” اے منافقو ! “ کہہ کر نہیں بلایا۔ پھر صدا دی تو صدا دے کر خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ ان سب کے سامنے توحید الٰہی کا مضمون رکھا اور یہ بتادیا کہ قرآن کی دعوت پوری نوع انسانی کے لیے ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا ہر انسان کی مرضی اور اختیار کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے کے لیے قانون یعنی ایک انداز مقرر کردیا ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ 1ۙ ۔ توحید الٰہی کے درس و فکر کا پہلا طریقہ : 45: قرآن کریم کا درس و فکر ہمیں بتاتا ہے کہ مخالفین و معاندین کو راہ حق کی طرف لانے کیلئے تین قسم کی تذکیر و موغطت سے کام لیا جاتا ہے۔ 1۔ تذکیر بآلاء اللہ۔ یعنی اپنی نعمتیں یاد دلا کر عبرت و بصیرت پیدا کرنا جیسے : فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 0069 (اعراف : 7 : 67) ” پس چاہیے کہ تم اللہ کی نعمتوں کی یاد سے غافل نہ ہو تاکہ ہر طرح کامیاب ہو جائو۔ “ 2۔ تذکیر بایام اللہ۔ گزشتہ اقوام و امم کے عروج وزوال کی تاریخ اور اس سے استنباط نتائج وغیرہ جیسے : وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ 005 (ابراہیم : 14 : 5) ” اور اللہ کے فیصلہ کن واقعات کا تذکرہ کر کے وعظ و نصیحت کرو کیونکہ ہر اس انسان کے لیے جو صبر و شکر کرنے والا ہے ان تذکروں میں عبرت و موعظت کی بڑی نشانیوں ہیں۔ “ 3۔ تذکیر ما بعد الموت۔ مرنے کے بعد اعمال انسانی کے نتائج بیان کر کے نیکی کا شوق دلانا اور برائی کی پشیمانی سے ڈرانا جیسے : اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِۙ009 وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِۙ0010 (العادیات : 100 : 9 ، 10) ” کیا انسان کو وہ وقت یاد نہیں جب مردے جو قبروں یعنی عالم برزخ میں ہیں اٹھا کھڑے کئے جائیں گے۔ اور جو کچھ لوگوں کے سینوں میں مخفی ہے وہ سب آشکارا کردیا جائے گا۔ “ ان آیات میں پہلی قسم کی تذکیر یعنی تذکیر بالاء اللہ کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ ربوبیت ہی پر ہر زندگی کا انحصار ہے۔ زندگی کے جس قدر مراتب مختلفہ ہیں سب کے سب اللہ وحدہ لا شریک کے قبضہ میں ہیں۔ موت وحیات کا وہی مالک ہے وہی بادلوں سے پانی برساتا ہے اور وہی حیات انسانی کے بقا و قیام کے تمام ضروری سامان پیدا کرتا ہے پھر یہ کس قدر کوتاہ بینی اور جہالت و ضلالت ہے کہ غلامی کرتے وقت ہم کسی اور کو بھی اس کا شریک بنالیں خواہ وہ بشکل اصنام و طواغیت ہوں۔ رسم و رواج ہوں۔ نسلی روایات ہوں یا عقائد مالوفہ ہوں یا سلاطین جابرہ ہوں غرض کہ وہ چیز جس کو ” اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ (التوبہ : 31) کا درجہ عملاً یا اعتقاداً دیا جائے اس میں داخل ہیں پھر تخلیق انسانی کے ساتھ تخلیق آسمان و زمین اور کائنات کے ہر شے انعامات الٰہی ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ مخاطبین کی پیدائش سے استدلال : 46: ” جس نے تمہیں پیدا کیا “ یعنی تمہاری تخلیق میں کسی دوسرے کا کوئی رد عمل نہیں ہے ۔ یعنی عمل تخلیق خالص الٰہی عمل ہے تخلیق میں ہمسر و مساوی ہونا تو الگ رہا۔ ماتحت و معاون کی حیثیت سے بھی کوئی شریک تخلیق نہیں۔ یعنی تم نیست سے ہست ہوئے۔ عدم سے وجود میں آئے ہو یہ نہیں کہ پہلے سے کوئی مخلوق مادہ موجود تھا اللہ نے اس کی صورت میں کوئی خاص صفت و ترتیب پیدا کردی۔ جہاں اس رنگ کے علاوہ بیان ہوا یعنی کسی نہ کسی مادہ سے تخلیق کرنے کا ذکر فرمایا وہاں اس حقیقت کو اس میں پوشیدہ رکھا کیوں ؟ اس لیے کہ انسان کا امتحان ہوجائے کہ اس نے اپنے خالق حقیقی کو کیا سمجھا ہے ؟ مِنْ قَبْلِكُمْ میں پوشیدہ راز : 47: ” اور تم سے پہلوں کو “ اس سے پچھلی انسانی نسلوں کا مراد ہونا تو ظاہر ہی ہے کہ تم سے پہلے جو انسان ہو گزرے ہیں ان سب کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے لیکن اس میں ایک پوشیدہ راز یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلقت انسانی سے قبل روئے زمین پر کوئی اور مخلوق بھی آباد رہ چکی ہو۔ یہ دو لفظ لا کر قرآن کریم نے ارشاد ادھر بھی کردیا کہ توحید الٰہی کا درس ماضی و حال ، تاریخ و مشاہدہ دونوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سوچ سمجھ کا واحد مرکز : 48: ” تب ہی تم “ یعنی توحید الٰہی میں وہ نسخہ کیمیا ہے جس سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ متقی اور موحد دونوں مرادف ہیں متقی تو ہی متقی ہے جو موحد ہے اگر موحد نہیں تو متقی نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے کہ ” لعل “ کا لفظ اظہار شک اور امید و آرزو کے لیے بولا جاتا ہے لیکن قرآن کریم میں جس جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ادا ہوا ہے وہاں آرزو کی بجائے وقوع اور شک و احتمال کی وجائے یقین کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ ان مقامات پر اردو میں اس کا ترجمہ ” تاکہ “ ” تب ہی “ سے کیا جائے تو یہی صحیح ہے کیونکہ اس سے احتمال اور شک ختم ہوجاتا ہے۔
Top