Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
اور اہل کتاب میں سے ایک جماعت نے کہا کہ اس چیز پر جو مسلمانوں پر نازل ہوئی ہے شروع دن میں ایمان لے آؤ اور آخر دن میں انکار کردو شاید کہ وہ بھی (اسلام سے) پھرجائیں
آیات 72- 80 اسرارومعارف وقال طائفۃ من اھل الکتاب………… واللہ ذوالفضل العظیم۔ یہودکی سازش خلافت راشدہ سے لے کر کربلا تک : چنانچہ یہود نے مسلمانوں کو راہ حق سے بہکانے کی ایک تجویز سوچی اور وہ یہ کہ اسلام قبول کرلو ، مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوجائو اور پھر کوئی نہ کوئی اعتراض کرکے مسلمان ہونے سے انکار کردو اس طرح ممکن ہے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی شک پیدا ہوجائے اور وہ اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جائیں۔ یہودکی یہی کوشش بالآخر عبداللہ ابن سبا کی صورت میں تاریخ عالم پہ ابھری اور شہادت عثمان غنی ؓ سے لے کر ہزاروں مسلمانوں کو خاک وخون میں ملا گئی آخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اسی کا شکار بنے اور سانحہ کربلا تک جا پہنچی۔ ابن سبا کے پیروکاروں نے حضرت حسین ؓ کو یہ یقین دلا کر بلایا کہ کوفہ جو ایک بہت بڑا مرکز ہے اور جس کی شمشیرزن آبادی لاکھوں پر مشتمل ہے آپ کے لئے چشم براہ ہے بلکہ یہاں تک لکھا کہ اگر آپ تشریف نہ لائے ، تو میدان حشر میں ہم جناب رسول اللہ ﷺ سے آپ کا دامن پکڑ کر عرض کریں گے کہ اس شخص نے ہم پر ایک بدکار حاکم مسلط کردیا تھا۔ اگر یہ آجاتا تو سارے عالم کی بات ہی دوسری ہوتی۔ ورنہ کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ حضرت مستورات اور بچوں کو لے کر دمشق فتح کرنے نکلے تھے یا حضرت حسین ؓ ایسے ہی گئے گزرے تھے کہ حرمین شریفین سے اور حج کے موسم میں جب اکثر مسلمان وہاں جمع تھے ، کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ ہرگز نہیں ! بلکہ انہوں نے کسی کو دعوت ہی نہ دی ، نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ ہاں ! یہ ضرور ملتا ہے کہ آپ کو اکثر سرکردہ حضرات ؓ نے اہل کوفہ پر اعتبار کرنے سے منع کیا تھا مگر آپ نے اعتبار کر ہی لیا۔ جب کوفہ سے تین منزل دور رہ گئے تو وہی اہل کوفہ آپ کے مقابل آئے اور یزید کی بیعت کا تقاضا کیا۔ آپ ؓ نے فرمایا ، ” عجیب لوگ ہو ! تمہیں حکومت پہ اعتراض تھا میں اس لئے آیا تھا کہ یا حکومت تمہارا جائز اعتراض رفع کرے ورنہ میں تمہاری قیادت کروں گا۔ اب اگر تمہیں کوئی اعتراض نہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں اور اگر تمہیں یہ تسلیم نہیں ، تو پھر دمشق چلو ! میں خود یزید سے معاملہ کرلوں گا “۔ چنانچہ آخری بات پر عمل ہوا ، اور مکہ سے کوفہ آنے والا راستہ چھوڑ کر کوفہ سے ایک طرف سے گزرتے ہوئے کربلا پہنچے ، جو کوفہ سے دمشق والے راستے پر تیسری منزل پر ہے۔ وہاں پہنچ کر اہل کوفہ یعنی ابن سبا کے پیروکار یہ سمجھے کہ اس میں بھی ہماری تباہی ہے چناچہ ظلماً خاندان رسالت کو بےدردی سے شہید کردیا اور پھر اس پر پہلی کتاب لوط بن یحییٰ ابی مخنف (متوفی 190 ھ) نے مقتل حسین لکھی یعنی محرم 61 ھ کا واقعہ ایک صدی بعد لکھا گیا اور بعد کے مورخین نے اسی سے سارا مواد لیا جو بذات خود جھوٹ کا پلندہ تھا۔ اور پھر یہود کا کمال دیکھئے کہ اس پر بھی مزید تین صدیاں گزرنے کے بعد مسلک جعفری کے نام سے ایک متوازی اسلام پیش کردیا جو کلمہ سے لے کر نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ۔ نکاح ، طلاق ، بیع ، شرا حتیٰ کہ جنازہ اور دفن میت تک علیحدہ بلکہ اسلام کے مخالف اور اپنے احکام کا حامل ہے اور اس طرح سے ایک جم غفیر کو دوزخ میں جھونک کر اپنا خبث باطن ظاہر کیا اور دل کی آگ سرد کی۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ واقعہ کربلا ایک مقابل مذہب بنانے کا جو ازکی سے مہیا کرتا ہے اور قرآن کا انکار اور کلمہ اسلام کا انکار ، عقائد و عبادات سے روگردانی ، کیا یہ سانحہ کربلا کا حاصل ہیں ؟ اللہ صحیح سمجھ اور سوچ عطا فرمائے ! آمین۔ پھر یہود نے طے کیا کہ صرف اس آدمی کو دل سے قبول کرو جو تمہارے مذہب کو قبول کرے ورنہ مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھو ، ارشاد ہوا کہ ان سے فرمادیجئے کہ ہدایت وہی ہے جو اللہ کی جانب سے ہو۔ یعنی خادمان رسول ﷺ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور تم پھونکوں سے یہ چراغ بجھا نہیں سکتے۔ تم اس بات پہ جلتے ہو کہ کسی اور کو اللہ کی طرف سے کتاب اور عظمت کیوں عطا ہوئی ؟ جبکہ تم اپنی کتاب کی صورت بھی قائم نہیں رکھ سکے تو یہ لوگ تو رب العلمین کے روبرو تم پہ حجت قائم کردیں گے یا دنیا میں تمہاری بداعمالیوں کو طشت ازبام کرکے تمہاری سیادت کو فنا کردیں گے۔ تو ان سے فرما دیجئے کہ فضیلت اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے سرفراز کردے۔ اسی نے سرور دوعالم ﷺ کو سربلند فرمایا اور آپ ﷺ کے جاں نثاروں کو جہانوں پر فضیلت عطا کی۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے چن لیتا ہے وہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ یہاں دلیل ہے کہ ولایت کسی کی وراثت نہیں۔ اللہ جسے اپنی رحمت سے چن لے اس کی مرضی ، جس قدر چاہے بلندی منازل یا اعلیٰ مناصب عطا کردے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو یہ عظمت کیوں ملی ؟ کہ اللہ کی اپنی عطاء ہے اور وہ اپنی پسند سے نوازتا ہے۔ وھن اھل الکتاب…………ولھم عذاب الیم۔ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس ڈھیروں مال امانت رکھ دو تو وہ پورا پورا لوٹادیں گے اور ایسے بدکار بھی ہیں کہ اگر ایک دینار بھی رکھ دو تو واپس ملنا محال ہے یعنی بعض لوگ عملی زندگی میں کھڑے اور صاف بھی ہیں گویا اچھائی کی تعریف کی جائے گی خواہ وہ کافر میں ہی پائی جائے۔ یہ اور بات ہے کہ کافر کو آخرت میں اس کا اجر نہیں ملے گا کہ اجر آخرت کا مدار عقیدہ پر ہے۔ اگر آخرت کو مانتا ہی نہیں یا ایسا نہیں مانتا جیسے اللہ کے رسول ﷺ نے ماننے کا حکم دیا ہے تو پھر اجر آخرت سے تو محروم رہا۔ لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ برائی سے بچ کر عذاب آخرت کی زیادتی سے تو بچ گیا۔ اور دنیا میں جو اجر ملتا ہے اس کے لئے ایمان شرط نہیں۔ مثلاً دیانتداری سے تجارت کرے تو فارغ البالی نصیب ہوگی۔ دوسروں کی آبرو سے نہ کھیلے تو اللہ اس کی آبرو کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ دونوں امور اس وقت یورپ میں دیکھے جاسکتے ہیں لین دین مثالی ہے تو دولت کے ڈھیر ہیں۔ آبرو کے معاملہ میں آزاد ہیں تو پھر کسی کی بھی آبرو محفوظ نہیں۔ اور یہ خیانت اس خیال باطل کی وجہ سے کرتے ہیں کہ غیر اہل کتاب کے بارے میں ہم سے کوئی پوچھ نہ ہوگی کس قدر ظالم ہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کہ خود جانتے ہیں یہ اللہ کا حکم ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دین تنگ نظری کا نام نہیں ، کہ کسی کے ہنر کی داد بھی نہ دو ، اور جو مسلمان نہ ہو اسے دنیا میں رہنے کا حق ہی نہ دو یا اس کا مال چھین لو ، ہرگز نہیں ! بلکہ اللہ کا دین تو یہ ہے کہ جس کسی نے اپنا وعدہ پورا کیا ، اللہ کی توحید ، اس کے انبیاء کو ماننا اور اپنی زندگی کو اللہ کے حکم کے مطابق بسر کیا۔ کفرو خیانت سے بچتا رہا تو یقینا اللہ ایسے متقی اشخاص کو پسند فرماتا ہے۔ ولایت وراثت نہیں : اللہ کریم صحیح العقیدہ ، فرائض کو ادا کرنے والے اور منہیات سے بچنے والوں کو پسند فرماتا ہے یعنی کسی بھی بدعقیدہ یا بدعتی اور بےعمل کو ولایت خاصہ نصیب نہیں ہوسکتی وہ اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا۔ عقیدہ درست ہو اور عمل کے لئے پوری طرح کوشاں۔ پھر اللہ قبول فرمالے اور اپنی رحمت سے نوازے تو بات بنتی ہے ایسے لوگ جو چند ٹکوں کے عوض ایمان ہی نہیں بیچتے بلکہ جھوٹ اور فریب پر قسمیں کھانے کو بھی تیار رہتے ہیں بلکہ قسمیں کھاتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ، جس طرح کہ یہود نے عقائد کو مسخ کیا اور پھر قسمیں کھا کھا کر اپنے متبعین کو یقین دلاتے تھے کہ یہ حق ہے ، غرض یہ حصول اقتدار اور ہوس زر تھی یا آج اگر کوئی صاحب حال نہیں ہے مگر لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلاء کرکے ان کا پیشوا بنا ہوا ہے اور ان کے مال لوٹ رہا ہے یہ اسی زمرے میں آتا ہے۔ اگر کوئی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے یا ولایت کا۔ تو دعوے میں فرق ہوگا جھوٹ بولنے میں تو کوئی فرق نہیں۔ سو ایسے لوگ نہ صرف مال لوٹتے ہیں بلکہ اصل زد ایمان پر پڑتی ہے جو ایسوں کی صحبت میں برباد ہوجاتے ہیں جس کسی نے یہ جرم کیا ، آخرت سے محروم ہوا ، اللہ اس سے ہرگز کلام نہ فرمائے گا۔ نہ اس کی طرف نگاہ فرمائے گا اور نہ روز حشر اسے پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ الہام یا القاء تزکیہ باطن پر شاہد ہے : مکالمہ باری تعالیٰ بڑا انعام ہے ، جو نزول رحمت اور تزکیہ کا سبب ہے ایسے حضرات جو اخص انحواص ہوتے ہیں اور الہام کی دولت سے یا القاء کی نعمت سے نوازے جاتے ہیں یہ ان کے تزکیہ باطن پر دلیل ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ بدکار شخص اگر الہام والقاء کا دعویٰ کرے تو جھوٹ کہتا ہے کہ یہ دینداروں اور صالحین کا حصہ ہے۔ وان منھم لفریقا یلوئون……………بعد اذانتم مسلمون۔ اہل کتاب میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو زبان کو مروڑ کر کتاب کو پڑھتے ہیں یعنی اصل لفظ اور ہوتا ہے یہ پڑھنے میں اسے اور بنادیتے ہیں تاکہ سننے والا یہ سمجھے کہ یہ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے حالانکہ ایسا ہوتا نہیں۔ کتب سابقہ میں الفاظ کیا آیات تک بلکہ مضمون تک بدل دیئے گئے اور جو اپنی طرف سے درج کیا گیا اسی کو اللہ کا فرمان منوانے کے لئے اصرار کیا گیا۔ مگر قرآن حکیم کے الفاظ بدلنا انسانی بس کی بات نہیں۔ اللہ نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ یہاں ایسے بےدینوں نے یہ راہ نکالی کہ الفاظ تو رہنے دیئے اور مفہوم ومعانی کو بدل گیا اور لگے لغات کے دائو پیچ لڑانے۔ حالانکہ معانی ومفہوم صرف وہ قابل قبول ہے جو حضور ﷺ نے تعلیم فرمایا اور صحابہ رضوان اللہ علیہم نے سمجھا اور پھر اس پر عمل کیا۔ جو لوگ یہ ظلم کرتے ہیں کہ اپنے داخل کردہ مضامین کو اللہ کی طرف سے بتاتے ہیں وہ جان بوجھ کر اللہ کی ذات پر جھوٹ بولتے ہیں کہ اللہ کی بات انسانوں تک پہنچانے کا واحد ذریعہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں براہ راست بغیر نبی کی وساطت کے تو کوئی انسان دین یا شریعت حاصل نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ اولیاء اللہ کو الہام یا القا ہوتا ہے تو انہیں شرعی امور کی وضاحت یا ان پر قائم رکھنے کا سبب بنتا ہے کسی کا الہام خلاف شریعت قابل قبول نہیں کہ اصل ارشادات رسول ﷺ ہیں۔ جب نوع انسانی کے پاس اللہ کے کلام کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے تو کیا کسی انسان کو یہ زیب دیتا ہے یا ایسا ممکن ہے کہ اللہ اسے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمائے اسے کتاب و حکمت عطا فرمائے اور پھر وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت چھوڑ کر اپنی پرستش پہ لگالے۔ یعنی ایسے احکام دے جو اللہ کی طرف سے نہ ہوں ۔ گویا اللہ کا انتخاب (معاذ اللہ) غلط تھا۔ اور اتنا اہم کام ایسے آدمی کو دیا جو ہرگز اس کا اہل نہ تھا۔ حالانکہ اہلیت بھی اللہ ہی کی دین ہے تو پھر یہ ممکن ہی نہیں اور ظاہر ہوا کہ ان کی خرافات نہ اللہ کا حکم ہے اور نہ کسی نبی کی تعلیم۔ بلکہ انبیاء کی تعلیم یہ ہوتی ہے کہ اے لوگو ! اللہ والے ہوجائو ، یعنی مکمل اطاعت شعار بن جائو جیسے کہ تم خود اللہ کی کتاب کو پڑھتے پڑھاتے ، یہی بات ان میں دیکھتے ہو۔ کوئی نبی یہ نہیں کہتا کہ فرشتوں کو یا اللہ کے نبیوں کو اپنا رب یعنی اپنی ضروریات کا کفیل بنالو۔ کیا نبی لوگوں کو اسلام لانے کے بعد کافر ہوجانے کا حکم دے سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ! اور یہ تو کفر ہے۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کو رب جاننا۔
Top