Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ایمان لائو اس چیز پر جو مسلمانوں پر نازل کی گئی ہے صبح کے وقت اور شام کو اس کا انکار کردیا کرو تاکہ وہ بھی اس سے پھرجائیں
وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْـکِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ ج صلے (اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ایمان لائو اس چیز پر جو مسلمانوں پر نازل کی گئی ہے صبح کے وقت اور شام کو اس کا انکار کردیا کرو تاکہ وہ بھی اس سے پھرجائیں) (72) اس سے پہلے آیت نمبر 69 میں اہل کتاب کے جن عزائم کے بارے میں مسلمانوں کو باخبر کیا گیا تھا اس آیت کریمہ میں ان عزائم کی تکمیل کے لیے ایک منصوبہ اور ایک سازش کا انکشاف فرمایا جایا رہا ہے۔ آیت نمبر 69 میں تو اہل کتاب کے اندر جو مسلمانوں کے خلاف لاوا پک رہا تھا اس کی اطلاع دی گئی تھی، لیکن اس کی کیا کیا صورتیں ممکن ہیں، اسے مسلمانوں کی فراست پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس میں بنیادی بات جس پر زور دینا مقصود ہے۔ اسے سمجھنے کے اہل کتاب کا وہ تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے، جس نے انھیں نفسیاتی عوارض کا مرقع بنادیا تھا۔ وہ پس منظر یہ ہے : پس منظر اہلِ کتاب دین سے بیگانگی کے باعث اپنے انبیائِ کرام اور رسولانِ عظام کی احادیث و سنن کو یکسر فراموش کرچکے تھے۔ یہود کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کہاں ہے ؟ تورات کے آخری باب کا مؤلف خود تسلیم کرتا ہے کہ ” انھیں کوہ موآب کے دامن میں دفن کیا گیا تھا، لیکن آج کوئی شخص اس کا نشان تک نہیں جانتا “۔ رہے ان کی زندگی کے حالات اور ان پر اترنے والی شریعت کی تفصیلات اور اس کی عملی صورت جس کا تعلق ان کی پوری زندگی سے ہے اور جس کی وجہ سے تورات اور شریعتِ تورات کو ایک نظام زندگی کی صورت ملتی ہے اس کا تو شاید کوئی حصہ بھی یہود کے پاس باقی نہیں رہ گیا تھا اور اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی ہر کتاب کے بارے میں پورے تیقن سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس میں شریعت کے اصول بیان کیے جاتے ہیں، بنیادی عقائد کو واضح کیا جاتا ہے، سفر کی منزل اور جہت مقرر کردی جاتی ہے۔ بعض جگہ احکام کی وضاحت بھی کی جاتی ہے، لیکن بالعموم اصولوں کو تفصیلی شکل دینا اس کو عملی صورت میں ڈھالنا، زندگی کے معاملات پر اس کا انطباق اور اس کو ایک اجتماعی تعامل اور اداروں کی شکل دے کر ضابطہ حیات اور تہذیب و تمدن کی صورت دے دینا، یہ کام ہمیشہ اللہ کے رسولوں نے کیا ہے اور ان کی زندگی کا ایک ایک طریقہ اور ایک ایک بات جسے حدیث اور سنت کہا جاتا ہے وہ درحقیقت دین کو عملی شکل دیتے ہیں۔ یہود چونکہ اس سے بالکل بےبہرہ تھے اس لیے ان کے دنیا دار علماء کو کتاب اللہ میں تحریف اور ترمیم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ اور احکام کو عملی شکل دیتے ہوئے انھوں نے کتاب کو موم کی ناک بنادیا کہ جب چاہا اور جیسے چاہا اسے عملی شکل میں ڈھال لیا۔ اس طرح سے وہ کہنے کو تو اہل کتاب اور حامل کتاب امت تھی، لیکن حقیقت میں وہ دینی اور شرعی ضرورتوں کے اعتبار سے ایک مفلس قوم تھے، جن کے پاس جھوٹے ادعا کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جہاں تک نصاریٰ کا تعلق ہے ان کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تینتیس سالہ دنیوی زندگی میں ہم صرف تین سال سے باخبر ہیں۔ ان تین سالوں کی تبلیغی کاوشوں میں چند لوگوں کا دولت ایمان سے منور ہونا اور چند محیر العقول معجزات کا صدور اور یہود کی جانب سے مخالفتوں کے ہجوم میں بالآخر ان کا صلیب تک پہنچنا اور پھر آسمانوں پر اٹھایا جانا، یہ ان کی زندگی کا وہ سرمایہ ہے جس کا نام عیسائیت ہے۔ انھوں نے اپنے ماننے والوں کو تورات کی شریعت پر چلنے کا حکم دیا تھا، لیکن پال کی سازشوں نے عیسائیت کو پٹڑی سے اتار کر شریعت کی پابندوں سے آزاد کردیا۔ البتہ چند ناقابلِ فہم عقائد اور چند مذہبی رسومات میں ان کو ایسا الجھایا کہ ان کی گرہیں کھولتے ہوئے انھیں دو ہزار سال گزر گئے۔ یہود و نصاریٰ کے دینی اور علمی سرمائے کی اس وضاحت کے بعد آپ کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اسلام جو قرآن و سنت کا مجموعہ ہے جس میں کتاب خداوندی کی ایک ایک آیت اور ایک ایک شوشہ محفوظ ہے اور اس کو عملی شکل دینے، اس کے اجمالات کو کھولنے اور اس کے ابہامات کو واضح کرنے کے لیے سنت کا ایک عظیم ذخیرہ پوری احتیاط کے ساتھ امت کے ہاتھوں میں ہے اور ان دونوں چیزوں نے مل کر جو اسلامی آئین و قانون اور اسلامی تہذیب و تمدن کو تشکیل کیا ہے اس میں ڈیڑھ ہزار سال میں کوئی انقطاع واقع نہیں ہوا۔ امت پر زوال کے ادوار آئے۔ آج پھر وہ ابتلاء سے گزر رہی ہے۔ لیکن دین سے یکسر بیگانگی یا دینی ضرورتوں سے بیخبر ی یا اس سرمائے سے تہی دامن ہوجانے کا خطرہ کبھی آج تک پیش نہیں آیا۔ یوں سمجھئے کہ اسلام اور یہودیت و نصرانیت میں درحقیقت دینی اعتبار سے ایسا ہی فرق ہے جیسا علم اور جہالت میں ہوتا ہے۔ وہ نام مذہب کا لیتے ہیں، لیکن عمل سیکولرازم پر کرتے ہیں۔ اپنی بظاہر شیرازہ بندی، ایک مذہب سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی شیرازہ بندی رنگ و نسل کی رہین منت ہے۔ وہ اپنی حکومتوں کا نام یہودی اور عیسائی حکومت رکھتے ہیں، لیکن حکومت چلانے اور اس کو عملی شکل دینے میں یہودیت یا نصرانیت کا دور دور تک کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ان کے گھر کی بےسروسامانی نے انھیں عجیب اشتعال میں مبتلا کردیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی بےسروسامانی کا انتقام مسلمانوں کے گھر کی بربادی کی صورت میں لینا چاہتے ہیں۔ چناچہ قرآن کا یہ کہنا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ تمہیں گمراہ کردیں اس کا دراصل مطلب یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی اپنے دین و شریعت کو اسی طرح بھول جاؤ جیسے وہ بھولے ہیں اور تمہارے پاس بھی بےسروسامانی کی وہی صورت ہو جیسے ان کے یہاں ہے۔ وہ اگرچہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، لیکن درحقیقت کسی کو عیسائی بنانے کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس اپیل کرنے والا علم نہیں۔ اس لیے ان کا سارا زور اس بات پر نہیں کہ وہ مسلمانوں کو عیسائی کردیں بلکہ زور اس بات پر ہے کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان نہ رہنے دیں۔ ان کے اپنے علمی اثاثے کی جانب سے انھیں بدگمان کردیں۔ پھر وہ بھی عقل کی پرستش اور خواہشات کی پیروی میں اپنی زندگی کے اہداف مقرر کریں اور ان کے حصول میں وہ تمام شکلیں اختیار کریں جو آج کی عیسائی اور یہودی دنیا اختیار کرچکی ہے۔ تاریخِ گم گشتہ کو چھوڑیئے صلیبی دور کو بھی جانے دیجیے، لیکن ایک صدی یا دو صدی پہلے کے دور کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھئے یہ دونوں باتیں آپ کو قدم قدم پر دکھائی دیں گی۔ لارڈمیکالے کی رپورٹ جو جدید تعلیمی نظام کی بنیاد ہے اس میں صاف طور پر یہ کہا گیا کہ ہمارے پیش نظر مسلمانوں کو عیسائی بنانا نہیں (کیونکہ یہ ان کے لیے ممکن نہیں) ہمارے پیش نظر صرف یہ ہے کہ ہم انھیں ایک ایسا نظام تعلیم دیں جس سے فارغ ہونے والا مسلمان تو کہلائے لیکن حقیقت میں مسلمان نہ رہے۔ اس کے دینی سرمائے کی ایک ایک چیز کے بارے میں اسے شک و شبہ میں مبتلا کردیا جائے اور یہی کام ان کے نام نہاد تحقیق و تجسس کرنے والوں نے کیا۔ انھوں نے بظاہر لائبریریوں میں بیٹھ کر غیر جانبدارانہ علمی تحقیق کا ڈول ڈالا۔ لیکن درحقیقت یہ مستشرقین استعمار کے ایجنٹ اور مذہبی مشنری تھے۔ انھوں نے قرآن کریم کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن محفوظ تو ضرور ہے لیکن ابھی تک وہ حقیقی ترتیب سے بیگانہ ہے۔ چناچہ ایک فرضی نزولی ترتیب کے مطابق گزشتہ صدی میں اسے شائع کیا گیا، جس کی پہلی سورة ” سورة الزلزال “ تھی اور اس طرح سے قرآن کریم کے عطا کردہ منظم ضابطہ حیات کو تلپٹ کرنے کی ایک مذموم کوشش کی، جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ پھر انھوں نے آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کو اپنا ہدف بنایا۔ آپ نے دنیا میں جس طرح کا صالح اور کامیاب انقلاب برپا کیا ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی اس کا انکار کرنا چونکہ ممکن نہیں تھا اس لیے آگے بڑھ بڑھ کر اس کی تعریفیں کیں اور آپ ﷺ کی ذات کو ذہانت و فطانت کا مرقع ٹھہرایا اور آپ ﷺ کی کامیابیوں کو آپ ﷺ کی غیر معمولی صلاحیتوں کا نتیجہ قرار دیا۔ ایک سیدھا سادا مسلمان ان اعترافات کو دیکھ کر نہایت خوش ہوتا ہے کہ میرے نبی ﷺ کی تعریف کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ آخر میں پہنچ کر نہایت اطمینان سے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کامیابیوں کی تکمیل اور غیر معمولی کارناموں کی تشکیل کو کہیں نبوت کا نتیجہ نہ سمجھ لیا جائے۔ محمد ﷺ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد تھے لیکن وہ پیغمبر نہیں تھے اور پھر طریقے طریقے سے منافقین اور فرقہ باطنیہ کے اختراع کیے ہوئے الزامات کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتے چلے جاتے ہیں تاکہ اس سے یہ ثابت کرنا آسان ہوجائے کہ آپ ﷺ یقینا ایک بہت بڑے آدمی ہیں، لیکن پیغمبر نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں اخلاق کی یہ یہ کمزوریاں موجود تھیں۔ منٹگمری واٹ جیسے لوگ جو بظاہر علمی دیانت کے پیکر دکھائی دیتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں دل کھول کر تعریف کرتے ہیں، لیکن وہ بڑی خاموشی سے اپنے قاری کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ محمد ﷺ یقینا ایک ذہین و فطین اور انتہائی سچے انسان تھے، لیکن ان کے ذہن میں کوئی خرابی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے آپ کو نبی سمجھنا شروع کردیا حالانکہ وہ نبی نہیں تھے۔ یہ مختصر سا پس منظر اگر ذہن میں رہے تو ان آیات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ جس کی بنیاد میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ لوگ دین و شریعت کے اعتبار سے انتہائی مفلس اور بےسروسامان لوگ تھے، لیکن اپنی نسبتوں پر اترانے کی وجہ سے سیرت و کردار کی ایسی خرابیوں کا شکار ہوگئے تھے جس میں سرفہرست حسد کی بیماری ہے۔ چناچہ انہی خرابیوں کے باعث وہ مسلمانوں کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے تھے۔ البتہ ! گمراہی کی جتنی شکلیں ممکن ہوسکتی ہیں اور اس کے لیے جیسی کچھ سازشیں کی جاسکتی ہیں، ان میں انھوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اقبال نے ان کی علمی اور دینی بےکسی اور بےسروسامانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین و دنیا میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری حسد کی بیماری اس بےسروسامانی نے ان کو جس طرح حسد کا مرقع بنادیا اس کا ذکر بھی قرآن کریم نے متعدد مواقع پر کیا ہے۔ چناچہ حسد کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے جو انھوں نے سازشیں تیار کیں اور جیسی جیسی کمینہ حرکتیں کیں اس سے بھی تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں۔ مختلف مذاہب میں علمی مباحثے اور مناظرے تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن جو کچھ یہود و نصاریٰ کرتے رہے ہیں اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً انہی میں سے ایک انتہائی مکروہ حرکت یہ بھی کی گئی جس پر تاریخ آج تک گواہی دیتی ہے کہ ملک شام کی حکومت نے چند یہودیوں کو آلہ کار بنا کر مدینہ طیبہ میں اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہ زمین دوز سرنگ لگا کر کسی طرح آنحضرت ﷺ کے جسدِ مبارک کو نکال کے لے آئیں۔ اس کے بعد وہ کیا کرنا چاہتے تھے یہ سوچ کر بھی پسینہ آنے لگتا اور خون کھولنے لگتا ہے۔ لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ وہ یہ خباثت ایک ایسی شخصیت کے بارے میں کر رہے ہیں جو اللہ کے آخری سچے رسول ہیں اور جس کے بعد پروردگارِ عالم نوع انسانی سے کبھی ہمکلام نہیں ہوئے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ پروردگار اتنی بڑی خباثت کو برداشت کرلیتے۔ چناچہ حضرت نورالدین زنگی (رح) جو اس وقت عراق اور فلسطین کے حکمران تھے انھیں خواب میں یہ صورت حال دکھلائی گئی اور انھوں نے فوراً مدینہ کا رخ کیا اور منزلوں پر منزلیں سر کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے اور ان دو بدبخت یہودیوں کو گرفتار کیا جنھوں نے جنت البقیع سے آنحضرت ﷺ کی قبر اطہر کی طرف سرنگ کھود رکھی تھی، جب انھیں پکڑا گیا ہے تو وہ اپنے مکروہ مقصد کے اس قدر قریب پہنچ چکے تھے کہ حضرت عمر فاروق ( رض) کا پائوں مبارک ننگا ہوچکا تھا کیونکہ جنت البقیع سے سرنگ کھودتے ہوئے پہلی قبر راستے میں حضرت عمر ( رض) کی حائل ہوتی ہے اور اس کے بعد حضرت صدیق اکبر ( رض) ہیں اور پھر وہ ذات رسالت مآب ﷺ ہیں جس کی عظمت سے زمین پر آسمان غش رہا ہے۔ ایک سازش چناچہ یہی وہ ذہنیت ہے جس نے دور نبوت ﷺ میں یہ سازش تیار کی کہ اپنے اندر سے چند ہوشیار لوگوں کو منتخب کیا کہ تم مسلمانوں کے پاس جا کر ان کے رسول کے ہاتھ پر ایمان لائو اور زیادہ سے زیادہ ان سے محبت اور شیفتگی کا اظہار کرو اور چند دنوں تک زیادہ سے زیادہ آنحضرت ﷺ کے گرد و پیش رہ کر آپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرو تاکہ مسلمانوں کو یقین ہوجائے کہ یہ لوگ واقعی آپ ﷺ کے جانثار اور اسلام کے سچے شیدائی ہیں اور پھر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا ایک ہی مرتبہ کرو بلکہ وقفے وقفے سے یہ عمل جاری رکھو اور پھر آہستہ آہستہ اسلام سے نکلنے کا آغاز کردو۔ جب اسلام میں جاؤ تو بلند آہنگی سے جاؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے اور خوشیاں منائی جائیں کہ یہود کے اہل علم میں سے چند لوگ مسلمان ہوئے ہیں تو یقینا وہ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہوئے ہوں گے۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اوس و خزرج کے لوگ جو اپنی بےعلمی کے باعث ہمیشہ یہو و نصاریٰ کے علم و فضل سے مرعوب رہتے ہیں، وہ جب ان کو ایمان لاتے ہوئے دیکھیں گے تو ان میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے ایمان میں استحکام آئے گا اور جو لوگ ابھی تک پس و پیش میں ہیں وہ پوری آمادگی سے اسلام کی طرف بڑھیں گے۔ لیکن پھر اچانک چند دنوں کے بعد تم واپسی کا سفر شروع کردو۔ ایک ایک کر کے اسلام سے برگشتگی کا اعلان کرنا شروع کردو اور جس طرح تم نے جاتے ہوئے محبت و شیفتگی کا اظہار کیا تھا اب نکلتے ہوئے اس سے بڑھ کر برگشتگی، بدگمانی اور خود فریبی کا ذکر کرو کہ ہم سے بڑی بھول ہوئی کہ ہم ایک سراب کو پانی سمجھ بیٹھے، ہم نے جسے آب حیات سمجھا تھا وہ تو آب بلا نکلا۔ ہم نے قریب جا کے دیکھا تو اصل ملمع اترنے لگا۔ جب حقیقت سامنے آئی تو ہم بھونچگا کر رہ گئے۔ حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا دھوکا دیا جا رہا ہے کیسا بہروپ دھارا گیا اور نبوت و رسالت کے نام سے کس کامیابی سے ایک کھڑاگ رچایا گیا۔ اس کے نتیجے کے بارے میں بھی وہ یہ توقع کر رہے تھے کہ ایسے چند واقعات مسلمانوں پر قیامت بن کر گریں گے۔ نئے ایمان لانے والوں کی آمد رک جائے گی اور جو لوگ ابھی تک یکسو نہیں ہو سکے وہ بدگمان ہو کر پسپا ہوجائیں گے اور اوس و خزرج کے لوگ جنھیں اہل کتاب کے علم پر بھروسہ ہے وہ بھی بدگمان ہو کر اسلام سے نکل بھاگیں گے۔ اس طرح سے اسلام پیغمبر اور مسلمانوں کی ایسی ہواخیزی ہوگی کہ جس کا تدارک شاید وہ مدتوں تک نہ کرسکیں۔ لیکن اللہ نے کرم فرمایا وہ اپنے دین اور اپنے پیغمبر کا محافظ ہے۔ اس نے بروقت مسلمانوں کو اس سازش سے باخبر فرمایا۔ جس کا یقینا یہ نتیجہ نکلا ہوگا کہ جو لوگ ابھی تک اہل کتاب کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے انھیں اصل حقیقت سے آگاہی ہوگئی جو اہل کتاب کی تمام تر سازشوں کے باوجود ابھی تک نرم گوشہ رکھتے تھے اور اہل کتاب سے اس لیے ملتے جلتے رہتے تھے کہ شاید وہ اسلام قبول کرلیں، انھیں ان کی اصل ذہنیت کا اندازہ کرنے اور اصل حقیقت سمجھنے میں آسانی ہوگئی اور انھیں یقین ہوگیا کہ بظاہر یہ اہل علم اور مشیخیت کے دعویداروں کا گروہ درحقیقت فتنہ پرور اور فسادیوں کی ایک منڈلی ہے جو کسی طرح بھی حالات کو روبہ اصلاح نہیں ہونے دیتی۔
Top