Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
اور اہل کتاب ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جو (کتاب) مومنوں پر نازل ہوئی ہے اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آیا کرو اور اس کے آخر میں انکار کردیا کرو تاکہ وہ (اسلام سے) برگشتہ ہوجائیں
آیت نمبر : 72۔ یہ آیت کعب بن اشرف اور مالک بن صیف وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی قوم کے سفلہ اور احمق لوگوں کو کہا کہ ایمان لے آؤ اس (کتاب) پر جو ایمان والوں پر اتاری گئی صبح کے وقت (آیت) ” وجہ النھار “۔ سے مراد دن کا پہلا اور اول حصہ ہے۔ اور اس کے بہت حسین ہونے کی وجہ سے اسے وجھا کا نام دیا گیا ہے اور اس کا اول وہ ہے جو سب سے پہلے سامنے آتا ہے (مراد صبح ہے) شاعر نے کہا ہے : وتضی فی وجہ النار منیرۃ کجمانسۃ البحری سل نظامھا “۔ دن کی صبح کو روشنی اس طرح منور کرتی ہے جیسا کہ موتیوں کو لڑی میں پرودیا گیا ہو۔ اور ایک دوسرے نے کہا : من کان مسرورا بمقتل مالک فلیات نسوتنا بوجہ نھار۔ جو مالک کے قتل سے مسرور ہے اسے چاہیے کہ وہ ہماری عورتوں کو صبح سویرے لے آئے اور (آیت) ” وجہ النھار “ اور اسی طرح اخرہ ظرف ہونے کی بنا پر منصوب ہیں۔ اور حضرت قتادہ (رح) کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے اس لئے ایسا کیا تاکہ وہ مسلمانوں کو شک میں مبتلا کردیں، اور المطائفہ کا معنی الجماعۃ ہے، یہ طاف یطوف سے ہے اور کبھی نفس طائفۃ کے معنی پر واحد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور آیت کا معنی یہ ہے کہ یہودیوں میں سے بعض نے بعض کو کہا : دن کے اول حصہ میں محمد ﷺ کے ساتھ ایمان کا اظہار کرو اور پھر دن کے آخر میں اس کا انکار کر دو ، کیونکہ جب تم اس طرح کرو گے تو جو انکی اتباع اور پیروی کر رہے ہیں ان کے لئے اپنے دین میں شک پیدا ہوجائے گا، پس وہ انکے دین سے تمہارے دین کی طرف لوٹ آئیں گے اور یہ کہنے لگیں گے۔ بیشک اہل کتاب اس بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہے تم صبح کے وقت آپ کی نماز کے ساتھ ایمان لے آؤ جس میں منہ بیت المقدس کی طرف ہے کیونکہ وہ حق ہے اور سرشام آپ کی نماز کا انکار کر دو جس میں منہ کعبہ کی طرف ہے، شاید وہ تمہارے قبلہ کی طرف رجوع کرلیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے منقول ہے۔ اور مقاتل نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ وہ صبح کے وقت حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کے پاس سے لوٹ کر گئے تو انہوں نے سفلہ لوگوں کو کہا : وہ حق ہے تو اس کی اتباع اور پیروی کرو، بعد ازاں انہوں نے کہا : یہاں تک کہ ہم تو رات دیکھ لیں، پھر وہ سرشام لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا : تحقیق ہم نے تورات میں دیکھا ہے وہ پسندیدہ نہیں ہے، وہ کہنے لگے : بلاشبہ وہ حق نہیں ہے اور اس سے انہوں نے ارادہ یہ کیا کہ وہ سفلہ لوگوں پر معاملہ مشتبہ کردیں اور یہ کہ وہ اس بارے میں انہیں شک میں مبتلا کردیں۔
Top