Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
ان اہل کتاب میں سے ایک جماعت کہتی ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کردو۔
لغات القرآن آیت نمبر 72 تا 74 وجھ النھار (صبح کا وقت) تبع (جس نے اتباع کی) ان یوتیٰ (یہ کہ دیا جائے) اوتیتم (تمہیں دیا گیا) یحاجوا (وہ جھگڑیں گے) الفضل (رحم وکرم) یختص (وہ خاص کرتا ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 72 تا 74 ان آیتوں میں اور اس سے بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے مکروفریب، بددیانتی اور شرارتوں سے مومنوں کو ہوشیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ان میں بعضوں نے یہ شرارت کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ کچھ لوگ صبح کو قرآن کریم پر ایمان لے آئیں دن مسلمانوں کے ساتھ رہیں پھر شام کو اسلام کو چھوڑ کر پھر اپنے لوگوں میں آملیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ جب شام کو ایک کثیر جماعت یہ کہتے ہوئے واپس آئے گی کہ ہم نے تو اسلام کی بڑی تعریف سنی تھی۔ ہم نے اس سے متاثر ہوکر قبول کرلیا تھا مگر جب قریب گئے تو معلوم ہوا کہ اسلام کا تو دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ اس سے دوفائدے ہوں گے کہ اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی ہوگی اور جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ وہ سوچیں گے کہ آخر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد ایک بات کو برا کہہ رہی ہے یقیناً کوئی نہ کوئی تو خرابی ہوگی جس سے اتنی بڑی جماعت اسلام کو چھوڑ کر جارہی ہے۔ ان یہود ونصاری کے رھبان اور پادری اپنے لوگوں کو یہ سمجھا کر بھیجتے تھے کہ دیکھو تم کسی کی باتوں میں مت آجانا کیونکہ جو دین و مذہب تمہیں دیا گیا ہے اس جیسا تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ اگر تم ان کی باتوں میں آگئے تو کل قیامت کے دن وہ تم سے جھگڑیں گے اور دلیل کے طور پر ان باتوں کو پیش کریں گے۔ اس طرح کی باتیں سکھا کر لوگوں کو بھیجتے تھے مگر یہ تدبیر بھی ان کے لئے الٹی ہی پڑگئی جو لوگ شرارت کے خیال سے گئے تھے جب وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچے تو آپ کے اخلاق حسنہ اور صحابہ کرام کی جاں نثاری اور اللہ کی عبادت و بندگی کا اچھوتا انداز دیکھتے ہی دل سے اسلام کے قائل ہوجاتے اور پھر واپس نہ جاتے ۔ اس طرح ان کی تدبیریں خود ان ہی خلاف پلٹ گئیں ۔ لیکن پھر بھی مومنوں کو یہودیوں اور نصرانیوں کی شرارتوں سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ وہ ان سازشوں اور شرارتوں سے باخبر رہیں۔
Top