Asrar-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے جَعَلَ : بنائی لَكُمُ : تمہارے لئے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام پکڑو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا ۭ : دکھانے کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن روشن بنایا (کہ کام کرو) بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے و لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
رکوع نمبر 7: آیات 61 تا 68: اسرار و معارف : عظمت الہی کو دیکھو وہ ذات کتنی عظیم بھی ہے اور کریم بھی کہ تم آرام کے مھتاج تھے اس نے رات پیدا کردی کہ وقتی طور پر نظام کار رک جاتا ہے اور ایک پرسکون ماحول آرام کے لیے پیدا ہوجاتا ہے بنی آدم آرام کرکے کھوئی ہوئی طاقت بحال کرلیتا ہے پھر ایک موزوں وقفے کے بعد دن کی روشنی میں سارے ہنگامے پلٹ آتے ہیں اور انسان تازہ دم ہو کر کاروبار حیات میں جت جاتا ہے وہ ذات بنی آدم پہ کس قدر مہربان ہے کہ اس کی تمام تر ضرورتوں کی تکمیل کا اہتمام فرمایا لیکن اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ کیسا کریم ہے تمہار اپالنے ولا ا کہ ہر شئے کا خالق ہے اور سب صنعت کو ایسے سجایا ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرتی رہے بھلا اس کے سوا کون ہوسکتا ہے جس کی عبادت کی جائے کوئی بھی تو نہیں لیکن انسان کہا بھٹکتا پھرتا ہے اور بلا دلیل یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ اللہ کا ارشاد برحق ہے اپنی انا کو باقی رکھنے کے لیے انکار کردیتا ہے بھلا دیکھو تو اللہ کس قدر کریم ہے کہ اس نے روئے زمین کو تمہارے لیے جائے قرار اور ٹھکانہ بنا دیا کہ اپنی کروی صورت کے باوجود ہر جگہ تمہارے لیے میدان ہی بنی ہوئی ہے اور جگہ قیام اور مکان زراعت باغبانی کارخانے سب کچھ ہورہا ہے اور بغیر دیواروں اور ستونوں کے آسمان کو تمہارے لیے عمارت اور چھت کی طرح بنا دیا ہے کہ گرتا بھی نہیں اور اس نظام کا ایک اہم حصہ بھی ہے پھر اپنی صورت ہی دیکھ لو کہ تمہیں کتنی مناسب اور حسین صورت عطا فرمائی اور تمہارے لیے سب سے اچھی چیز بطور غذا مقرر فرما دی کہ جانوروں کی طرح گھاس نہ چرتے پھرو ذرا ان سب باتوں میں غور کرو عظمت الہی کا کسی حد تک اندازہ لگا سکو گے کہ بہت ہی برکت والا ہے اللہ جل شانہ جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ وہی ایک ذات ہے جو ہمیشہ زندہ ہے جسے کبھی فنا نہیں لہذا اس کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں سو اے مخاطب ہمیشہ اسی کی عبادت کرو اور پورے خلوص سے کرو اپنی امیدیں اسی سے وابستہ رکھو اور اسی سے مانگو کہ سب تعریفیں اسی کو سزوار ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے یعنی اس کے علاوہ کوئی بندگی کا مستحق کیسے ہوسکتا جب سب اس کی مخلوق اس کے رزق پہ پلنے والے یا اس کے رکھنے سے باقی اور سب فانی ہیں صرف وہ ایک ذات ہے جس کے لیے کبھی کسی کمزور ی کا کوئی گذر نہیں۔ اور کفار سے کہہ دے کہ بندہ مومن سے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ ان کی طرح بتوں سے امیدیں وابستہ کرلے گا یارب العالمین کے حکم کے خلاف اسباب پہ تکیہ کرنے لگے گا کہ آج کا دور ایک ایسی تاریکی میں ڈوب رہا ہے جہاں بتوں سے زیادہ بھروسہ اسباب پر کیا جا رہا ہے کفار بھی بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کے پجاری بن گئے ہیں اور مذاہب سے عمومی بیزاری کا عہد ہے مگر بندہ مومن اسباب بھی اطاعت الہی کی حدود کے اندر اختیار کرسکتا ہے ورنہ اللہ کی اطاعت رک کرنے کی بجائے اسباب کا ترک کرے گا اور کفار کی طرح اسباب ہی کی پوجا نہ کرے گا کہ اس کے پاس تو اس کے پروردگار کی طرف سے واضح اور روشن دلائل موجود ہیں اور اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ صرف اس ہستی ہی کی عبادت کرے جو تمام جہانوں کو پالنے والی اور سب کی خالق ومالک و رازق ذات ہے وہی جس نے اے بنی آدم تجھے خاک سے پیدا کردیا کس طرح اور کہاں کہاں سے خاکی ذرات کو مختلف حالتوں سے گذار کر نطفہ بنا دیا پھر وہ نطفہ رحم مادر میں پہنچا تو خون کی پھٹکی میں تبدیل ہوگیا اور گوشت ہڈیاں پھر پھر اعضاء مکمل ہو کر انسان کا بچہ بنا کر پیدا کردیا۔ سبحان اللہ قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر بھی یہ تفصیل ارشاد ہے جبکہ وہ عہد سائنس کا نہ تھا اور کوئی یہ سب کچھ جان نہ سکتا تھا۔ چودہ سو سال بعد سائنس نے اس کی تائید کی اور اس کی تحقیقات یہاں تک پہنچ سکیں۔ پھر وہ تمہاری تربیت کرتا ہے اور تم جوانی کے زور سے بھرپور ہوتے ہو۔ وہی طاقتور جوان پھر ایک کمزور بوڑھے کی صورت میں نظر آتا ہے کچھ تم میں سے اس سارے عمل کو پورا نہیں کرپاتے کہ ہر ایک کی موت کا وقت معین ہے لہذا ان کا وقت مقررہ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے آجاتا ہے اور وہ مرجاتے ہیں۔ یہ سب دلائل ہیں اللہ کی عظمت کے اور اس کے احسانات ہیں تاکہ تم غور کرو اور سمجھ پاؤ۔ وہی ایک ذات ہے جو زندگی عطا کرتی ہے اور اسی کے حکم سے موت آتی ہے جب اسے کوئی کام کرنا منظور ہو تو حکم فرماتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے نہ وہ کسی کی مدد کا محتاج نہ اجازت کا طالب نہ وہاں کوئی دیر لگتی ہے اور نہ تاخیر ہوتی ہے۔
Top