Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جس نے
جَعَلَ
: بنائی
لَكُمُ
: تمہارے لئے
الَّيْلَ
: رات
لِتَسْكُنُوْا
: تاکہ تم آرام پکڑو
فِيْهِ
: اس میں
وَالنَّهَارَ
: اور دن
مُبْصِرًا ۭ
: دکھانے کو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي النَّاسِ
: لوگوں پر
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اَكْثَرَ
: اکثر
النَّاسِ
: لوگ
لَا يَشْكُرُوْنَ
: شکر نہیں کرتے
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو ، اور دن کو روشن کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ مگر اکثر لوگ شکرادا نہیں کرتے
آیت نمبر 61 تا 64 گزرش لیل ونہار تو دو کائناتی مظاہر ہیں جبکہ زمین آسمان دو کائناتی تخلیقات ہیں۔ ان دونوں کو یہاں ذکر کرکے پھر بتایا جاتا ہے کہ اس لیل ونہار اور ارض وسماء کے اندر اللہ نے تمہاری خوبصورت شکلیں پیدا کیں اور پھر تمہارے لیے اس جہاں میں قسم قسم کے رزق پیدا کیے۔ یہ ہے تمہارا رب اور یہ ہیں اس کے کارنامے۔ بڑی ہی برکتوں والا ہے رب العالمین ! وہی زندہ ہے اور اس کے سوا کوئی زندہ نہیں ہے اور یہ سب کچھ اس کا فضل ہے۔ لہٰذا اللہ کو وحدہ لاشریک سمجھتے ہوئے صرف اسی کی بندگی کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کائناتی مظاہر اور ان تکوینی معافی اور اللہ کی ان تخلیقات کو اللہ کی توحید اور اللہ کے نظام زندگی کے حوالے سے وسیع دائرہ میں پڑھنا ، ان پر تدبر کرنا اور توحید اور شریعت کے ساتھ ان کا ربط پانا ضروری ہے۔ اور یہ دیکھنا کہ اس تکوینی نظام کے درمیان ہم آہنگی کیا ہے۔ یہ کائنات اللہ نے جس اصول پر بنائی ہے ، پھر اللہ نے اسے جس ناموس فطرت کے مطابق چلایا ہے ، وہی اللہ ہے جس نے اس کراۂ ارض پر زندگی کو چلایا ، اس کی ترقی اور نشوونما کا انتظام فرمایا۔ پھر یہ وہی ذات باری ہے جس نے انسان کو اس کی موجود شکل عطا فرمائی جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور انسان کی تخلیق اور اس کی حیات کے لیے ضروری امور کو اس کائنات کے اندر ملحوظ رکھا۔ وہی تو ہے جس نے رات کو سکون ، آرام اور راحت کے لیے بنایا۔ اور دن روشن ، دیکھنے کے لیے معاون اور دوڑ دھوپ کے لیے بنایا۔ اور زمین کو زندگی کے قابل اور چلنے پھرنے کے اہل بنایا اور آسمان کو ایک چھت کی طرح بنایا کہ وہ بلندیوں پر سیاروں اور ستاروں کو لیے ہوئے ہے ، جو گرتے نہیں۔ اور جن کی دوریاں بھی باہم ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر خلل ڈالتیں۔ اگر ان دوریوں میں پھر فرق پڑجائے تو اس چھوٹے سے کرۂ ارض پر انسان کے وجود کے اندر خلل واقع ہوجائے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے اس زمین پر پاک خوراک پیدا کی۔ یہ رزق اسی زمین سے پیدا کیا۔ یہ رزق آسمانون سے بارشوں کی شکل میں نازل ہوتا ہے اور لوگ اس سے نفع اٹھاتے ہیں۔ اور انسانی صورتیں کس قدر خوبصورت اور رنگا رنگ ہیں۔ اور پھر وہی ہے جس نے انسان کے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کیں جو اس کائنات کے ساتھ متفق ہیں۔ اور یہ صلاحیتیں اس زمین پر رہنے کے لیے کافی ہیں۔ پھر یہ صلاحیتیں اس پوری کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہیں۔ تو یہ تمام امور باہم مربوط اور موافق ہیں جیسا کہ ہر شخص ملاحظہ کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام امور کو قرآن ایک ہی جگہ لیتا ہے۔ اسی ترتیب اور ربط سے لیتا ہے اور ان اموردے وحدانیت پر برہان قاطع پیش کرتا ہے۔ اور ان امور ہی کی روشنی میں قلب انسانی کو دعوت دیتا ہے کہ اللہ وحدہ کو پکارو۔ اور دین اور نظام زندگی صرف اسی کارائج کرو۔ اور آخر میں کہا جاتا ہے ، الحمدللہ رب العالمین ! اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ رب العالمین وہی ذات ہوسکتی ہے جس نے ان تمام چیزوں کو اس طرح پیدا کیا۔ یہی ہے الٰہ ، رب العالمین ، لہٰذا تعجب ہے کہ لوگ اس عظیم سچائی سے کس طرح منہ موڑتے ہیں۔ یہاں ہم سرسری طور پر وہ جھلکیاں دیتے ہیں جو خود بتائیں گی کہ اس کائنات کی ساخت میں ، اور انسان کی زندگی کے ساتھ اس کے تعلق میں یہ امور ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ اللہ نے یہاں جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، اس سمت میں چند لمحات۔ ” یہ زمین سورج کے سامنے گردش محوری کررہی ہے جس کے نتیجے میں لیل ونہار کا نظام وجود میں آیا ہے ، اگر اپنی گردش کی موجودہ رفتار سے اس کی رفتار قدرے تیز ہوجائے تو تمام مکانات گرجائیں ، اس زمین کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں اور فضائے آسمانی میں بکھر جائیں “۔ ” اور اگر یہ زمین موجود گردش محوری کی رفتار ذراکم کردے تو لوگ گرمی یا سردی سے ہلاک ہوجائیں۔ زمین کی موجودہ گردش محوری ایسی بنائی گئی ہے کہ یہ اس زمین کے اوپر حیوانی اور نباتاتی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ اور ان کے لیے اپنے وسیع معنوں میں مفید ہے “۔ ” اور اگر زمین گردش محوری صرف رک جائے تو بخارات ختم ہوجائیں اور سمندر پانیوں سے خالی ہوجائیں “۔ ” اگر زمین گردش محوری ختم کردے اور سورج کے اردگرد اپنی گردش سالانہ جاری رکھے تو کیا ہوگا۔ تمام فصلیں ختم ہوجائیں ، لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ گرمیاں کہاں ہیں اور سردیاں کب ہوئیں اور ربیع وخریف ختم ہوجائے “۔ ” اگر زمین کا چھلکا چند قدم اور دبیز ہوتا تو بعض گیسوں کے جذب کرلینے کی وجہ سے نباتات ختم ہوجائے “۔ ” زمین کے اوپر کرۂ ہوائی جس قدر بلندی پر ہے اگر اس سے مزید بلند ہوجائے تو آج کل لاکھوں کے حساب سے ہوا میں جو شہاب ثاقب جل جاتے ہیں ، وہ سب کے سب کرۂ ارض پر گرنے لگتے ، ان کی رفتار 46 میل فی سکینڈ ہوتی ہے۔ اس طرح وہ زمین کے اوپر ان تمام چیزوں کو جلا کر رکھ دیں گے جو جلنے کے قابل ہیں۔ اور اگر یہ شہاب بندوق کی گولی کی رفتار سے بھی چلیں تب بھی سب کے سب زمین سے ٹکڑا جائیں۔ اور اس کے نتائج نہایت ہی خوفناک ہوں۔ انسان بیچارے کی حالت تو یہ ہے کہ اگر ایک چھوٹا سا شہاب جس کی رفتار بندوق کی گولی سے ستر مرتبہ زیادہ ہو ، اس زمین سے بھی ٹکرا جائے تو اس شہاب کے گزرنے سے جو حرارت پیدا ہوگی ، صرف اس حرارت ہی سے اس کے اجزائے جسم بکھر کر رہ جائیں “۔ ” اس وقت ہوا میں آکسیجن کی نسبت 21 فیصد ہے اگر یہ 50 فیصد ہوجائے تو جل جانے کی قابل تمام چیزیں آگ پکڑ لیں اور جل جائیں۔ بس آگ کی ایک چنگاری لگتے ہی تمام جنگلات جل جائیں بلکہ بھک سے اڑجائیں۔ اگر ہوا کی آکسیجن کم ہوکر 10 فیصد ہوجائے یا اس سے کم ہوجائے تو کرۂ ارض کی زندگی شاید ایک طویل عرصہ بعد اپنے آپ کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کر ہی لے لیکن وہ تمام سہولیات ختم ہوجائیں جن کی وجہ سے انسان متمدن قرار پاتا ہے مثلاًآگ وغیرہ “۔ غرض اس کائنات کی تخلیق وتشکیل میں ہزاروں ایسی ممد اور معاون چیزیں ، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ رکھی ہوئی نظر آتی ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک چیز میں معمولی خلل آجائے تو ہماری زندگی اپنی موجودہ شکل میں نہ رہے۔ اسی طرح دوسرے حیوانات کی زندگی کی موجودہ شکل بھی نہ رہے۔ رہا انسان تو اس کی توبہ پیاری پیاری صورت ہی ایسی ہے ، جو نہایت ہی منفرد انداز میں ہے اور تمام زندہ اشیاء میں ممتاز ہے۔ یہ ایک اس قدر کامل اور مکمل تخلیق ہے کہ وہ اپنے تمام فرائض نہایت ہی سہولت اور باریکی سے ادا کرتی ہے۔ اس کی یہ تخلیق اس کی زمین کے اوپر حرکت اور وہ حالات جن میں اس کے لیے زندہ رہنا اور کام کرنا آسان بنایا گیا ہے ، پھر اس کی اعلیٰ وارفع خصوصیت جس کے ذریعہ اسے تمام روئے زمین کی مخلوقات کا سردار بنایا گیا ہے اور اسے منصب خلافت ارضی دی گئی ہے اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی کے لئے اسے عقل وخرد سے نوازا گیا ہے۔ اور پھر رب تعالیٰ کے ساتھ اسے رابطے کا اعزاز دیا ہے۔ یہ تو انسان کی ممتاز ترین خصوصیات ہیں۔ اب ذرا ذات انسان کی طرف آئے اگر انسانی ذات اس کے اعضاء ، اور ان کے فرائض کی باریکی پر بحث کریں ، جو اس آیت کا مفہوم بھی ہے۔ وصورکم فاحسن صورکم (40: 64) ” جس نے تمہاری صورت بنائی اور بہت ہی عمدہ بنائی “۔ تو ہمیں انسان کے چھوٹے چھوٹے اعضاء میں سے ہر ایک کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ بلکہ انسان کے خلیات میں سے ہر ایک خلیے پر بحث کرنی ہوگی۔ ایک ہی مثال سے تخلیق انسانی اور جسم انسانی کی گہری ٹیکنالوجی کا پتہ چل سکتا ہے۔ انسان کے جبڑے کو لیجئے اور اس کے اندر دانتوں کی تنصیب کو اگر آلہ خوراک کے زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ اس قدر حساس ہیں کہ اگر زبان یا لعاب میں 10/1 ملی میٹر کی حد تک ابھار آجائے تو یہ جبڑے زبان اور لعاب کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اور اگر کسی دانت میں اسی قدر ابھار آجائے تو وہ اپنے مقابل جسم کے ساتھ ٹکرانا شروع کردے اور اگر دوجبڑوں کے درمیان سگریٹ کے کاغذ جتنا موٹا کاغذ آجائے تو وہ دونوں جبڑوں کا دباؤ محسوس کرے گا۔ اور اس پر بھی دونوں جبڑوں کا دباؤ ہوگا کیونکہ دونوں جبڑوں کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ جب یہ دونوں ملتے ہیں تو دونوں طرف کے دانت پوری طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ یوں یہ پینے اور چبانے کا عمل کرتے ہیں اور ایسی چیزوں کو بھی چبالیتے ہیں جن کا موٹاپا سگریٹ کے ابری کاغذ جیسا باریک ہو۔ پھر اسی انسان کو اپنی اس ساخت کے ساتھ ، اس زمین پر رہنے کے لیے سہولیات فراہم کی گئی ہیں کہ یہ یہاں زندہ رہے۔ اس کی آنکھوں کو روشنی کی لہروں پر بنایا گیا ہے تاکہ یہ دیکھنے کا کام کریں۔ اور اس کے کانوں کو ہوا اور آواز کی لہروں پر بنایا گیا ہے تاکہ یہ سننے کا کام کریں۔ غرض اس کے تمام اعضاء اور حواس کو اس فضا کے مطابق بناتا گیا ہے جس کے اندر اس نے زندگی بسر کرنا ہے اور اسے یہ طاقت بھی دی گئی ہے کہ وہ ایک حد تک اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال سکے۔ غرض اسے اس زمین کے لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ یہاں زندہ رہے۔ اس سے متاثر ہو ، اس کو متاثر کرے۔ غرض یہ ماحول جس میں انسان رہتا ہے ، اس کے اور انسان کی تخلیق کے درمیان گہری منصوبہ بندی موجود ہے۔ پھر انسان کی موجودہ شکل و صورت کا بھی اس کے موجودہ ماحول کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس کی ساخت کو اس ماحول کے مطابق بنایا گیا ہے ، جہاں وہ رہتا ہے ، یعنی اس زمین و آسمان کے مطابق ۔ اس لیے یہاں اللہ نے انسان کی اسی شکل کا ذکر اس آیت کے درمیان کیا ہے جس میں زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے۔ اب قرآنی آیات کی قدرے تشریح۔ اللہ الذی۔۔۔۔ مبصرا (40: 61) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو ، اور دن کو روشن کیا “۔ رات کو سکون کرنا ہر زندہ چیز کے لیے ضروری ہے۔ نیز ایک تاریکی کا عرصہ ضروری ہے تاکہ اس میں زندہ خلیے آرام کرسکیں اور اس وقت کے بعد پھر روشنی میں کام شروع کرسکیں۔ صرف نیند ہی کافی نہیں ہے تاریکی بھی ضروری ہے۔ بلکہ رات ضروری ہے۔ کیونکہ زندہ خلیہ روشنی کو برداشت کرتے کرتے اس قدر تھک جاتا ہے کہ اس کے اعصاب تلف ہونا شروع ہوجاتے ہیں چونکہ روشنی میں اسے آرام نہیں مل سکتا۔ لہٰذا رات کی تاریکی ضروری ہے۔ والنھار مبصرا (40: 61) ” دن کو روشن کیا “۔ انداز تعبیر بالکل شخص ہے گویا دن ایک شخص ہے جو دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ دن میں دیکھتے ہیں۔ یہ تو ہے دن کی غالب افادیت اور صفت۔۔۔ لیکن گردش لیل ونہار کا یہ نظام ایک نعمت ہے جو اپنے اندر مزید نعمتیں پوشیدہ رکھتی ہے۔ اگر رات اور دن میں سے کوئی ایک دائمی ہوجائے ، بلکہ موجودہ وقت سے ذرا طویل ہی ہوجائے تو زندگی ناپید ہوجائے یہی وجہ ہے کہ اسکے بعد اللہ کے اس فضل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جسکا لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ ان اللہ ۔۔۔۔ لایشکرون (40: 61) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر لوگ شکر ادا نہیں کرتے “۔ اور ان دوفطری مظاہر یعنی گردش ونہار کے بعد یہ تصریح کردی جاتی ہے کہ ان کو اللہ نے پیدا کیا ہے لہٰذا وہی الہہ ہونے کا مستحق ہے اور یہ نام ” اللہ “ ایک عظیم نام ہے۔ ذٰلکم اللہ ۔۔۔۔ توفکون (40: 62) ” یہ ہے اللہ تمہارا رب جو ہر چیز کا خالق ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ، پھر تم کدھر بہکائے جارہے ہو “۔ یہ ایک نہایت ہی تعجب انگیز اور حیرت افزا بات ہے کہ لوگ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز میں اللہ کا ہاتھ ہے ، اور تمام اشیاء کا موجود ہونا ہی ازروئے عقل اس بات کو فرض کردے کہ اس کا اللہ خالق ہے اور اللہ کے سوا کوئی اور قوت بھی نہ ہو کہ وہ خالق ہونے کی مدعی ہو ، اور یہ بات بھی ذہن میں نہ آتی ہو کہ یہ چیزیں خود بخود وجود میں آگئی ہوں یہ فی الواقع ایسی عجیب بات جوہر معقول انسان کے لیے تعجب انگیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے بھی لوگ ایمان لانے سے منہ موڑیں۔ فانی توفکون (40: 62) ” کدھر بہکائے جارہے ہو “۔ لیکن ، ہو یہی رہا ہے کہ لوگ بدستورمنہ موڑ رہے ہیں جیسا کہ قرآن کے پہلے مخاطب منہ موڑ رہے تھے اور اس کے بعد بھی ہر زمان ومکان میں منہ موڑ رہے ہیں۔ بغیر حجت اور بغیر دلیل کے۔ کذٰلک ۔۔۔۔ یجحدون (40: 63) ” اسی طرح وہ سب لوگ بہکائے جارہے ہیں ، جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے “۔ اب سیاق کلام اس طرف آتا ہے کہ اپنی جگہ ٹھیرایا گیا اور آسمان کو چھت کی طرح اوپر ٹھیرایا گیا۔ اللہ الذی۔۔۔۔ بنآء (40: 64) ” وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اوپر آسمان کا گنبد بنادیا “۔ زمین تو برقرار ہے اور انسانوں کی رہائش کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اور اس میں ایسی بیشمار سہولیات رکھ دی گئی جو انسان کے لیے ضروری ہیں اور جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اور آسمان ایک ایسی چھت ہے جس کی نسبتیں متعین اور مقرر ہیں۔ جس کی دوریاں ، حرکتیں اور چکر مقرر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وجہ سے زمین پر انسان کی زندگی کو قرار حاصل ہے اور یہ قرار اور سہولیات اس کائنات کے نقشے کے اندر حساب سے رکھ دی گئی ہیں اور اس کی تعمیر میں انہیں ایک خاص نسبت سے رکھا گیا ہے۔ زمین و آسمان کی تخلیق کے ساتھ ہی انسان کی پیاری صورت اور انسان کے لیے رزق کو بھی مربوط کردیا گیا جیسا کہ ہم نے ان باتوں کی طرف اجمالی اشارہ کردیا ہے۔ وصورکم۔۔۔۔ من الطیبٰت (40: 64) ” جس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا “۔۔۔ اور پھر ان نشانیوں اور مہربانیوں پر یہ تبصرہ : ذٰلکم اللہ ۔۔۔۔ رب العلمین (40: 64) ” یہ ہے اللہ تمہارا رب ، بےحساب برکتوں والا ہے۔ وہ کائنات کا رب ہے “۔ یہ اللہ جو تخلیق کرتا ہے ، جو انداز سے تخلیق کرتا ہے اور پھر اپنی مخلوقات کا مدبر بھی ہے۔ وہ تمہاری نگہبانی کرتا ہے اور تمہیں اس نے اپنی اس مخلوق میں بسایا ہے۔ یہ ہے تمہارا رب ، برکتوں والا ، اور بہت بہت برکتوں والا اور تمام جہانوں والا ، جن کے تصور ہی سے سر چکرا جاتا ہے۔ ھوالحی (40: 65) ” وہی زندہ ہے “۔ ہاں ، وہی اکیلا زندہ ہے۔ اس کی ذاتی زندگی ہے ، کسی سے لی نہیں گئی ، کسی کی تخلیق کردہ نہیں ہے۔ نہ اس کی ابتداء اور نہ انتہا ہے نہ اس کے درمیان کوئی حائل ہے اور نہ وہ زائل ہونے والی ہے۔ نہ اس میں کوئی انقلاب آتا ہے اور نہ تغیر۔ اللہ کے سوا کسی کو یہ صفات حاصل نہیں ہیں۔ اللہ پاک ہی منفرد ہے ان صفات میں۔ لہٰذا وہی منفرد ہے الوہیت میں ۔ اس لیے کہ زندہ وہی ہے۔ لہٰذا حق یہی ہے کہ وہی واحدوقہار ہو۔ لآ الٰه الاھو (40: 65) ” نہیں کوئی الٰہ مگر وہ “ تو پھر صرف : فادعوہ مخلصین له الدین (40: 65) ” اسی کو تم پکارو ، اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرکے “۔ اس کی حمد کرو ، اس سے دعا کرو ، الحمدللہ رب العٰلمین (40: 65) ” ساری تعریف اللہ رن العالمین ہی کے لیے ہے “۔ ان نشانیوں اور مہربانیوں کے تذکرے اور ان پر تبصرے کے بعد اور حقیقت الوہیت اور عقیدۂ توحید اور مظاہر ربوبیت کی تشریح کے بعد اب رسول اللہ ﷺ کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ ان نشانیوں اور دلائل کی بناپر میں روک دیا گیا ہون کہ میں تمہارے معبودوں کی بندگی کروں مجھے تو حکم دیدیا گیا کہ صرف رب العالمین کے سامنے سرتسلیم خم کردوں۔
Top