Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے جَعَلَ : بنائی لَكُمُ : تمہارے لئے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام پکڑو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا ۭ : دکھانے کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اللہ وہ ہے کہ جس نے تمہارے آرام کے لیے رات بنائی اور دیکھنے کو دن بنایا 1 ؎۔ بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرتا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
تفسیر : جبکہ یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کو پکارا کرو کہ وہ تمہارا کہنا سنتا ہے، تمہاری مرادیں دیتا ہے تو مناسب ہوا کہ ان مشرکین کو کہ جن کے مقابلہ میں کلام ہورہا ہے اور جو اوہام باطلہ کی پرستش صرف دنیاوی کامیابیوں کے لیے کرتے تھے، دو باتیں بتلائی جائیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ موجودو قادر مطلق بھی ہے کہ نہیں کس لیے کہ اوہام عامہ اس کے محسوس نہ ہونے سے پیشتر تردد میں پڑجاتے ہیں اور اس لیے اپنے تراشیدہ معبودوں کو جو ان کے سامنے موجود دکھائی دیتے ہیں، پوجتے ہیں پس اللہ الذی الخ ان آیات میں دلائل وبراہین سے خدا تعالیٰ کا وجود اور متصف بصفات معبودیت ہونا ثابت کیا گیا اور خدا تعالیٰ کے آثار و علامات سے جو کسی کی طرف منسوب نہیں ہوسکتے، اس کا موجود ہونا بتایا گیا ہے کیونکہ پاؤں کے نشانوں سے چلنے والا اور کسی کار سے اس کا کا ریگر یقینا ثابت ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ثابت کرنی تھی کہ آیا وہ دیتا اور فیض بخشی بھی کرتا ہے ؟ سو اس کا بھی انہیں آیات میں ثبوت کیا گیا۔ اس لیے ان دونوں باتوں کے لیے چند دلائل بیان فرمائے۔ اول اللہ الذی الخ کہ اللہ وہ ہے کہ جس نے تمہارے آرام و سکون کے لیے رات بنائی اور دیکھنے کے لیے دن بنایا، اگر زمین و آفتاب ایک ہی حالت پر رہتے تو یا ہمیشہ رات رہتی یا دن۔ یہ دونوں باتیں انسان کی معاش میں خلل انداز تھیں بلکہ اس کی زندگی بھی مشکل ہوجاتی، یہ اس کی بڑی نعمت اور عنایت ہے۔ اس سے ثابت ہوا ان اللہ لذو فضل علی الناس کہ اللہ لوگوں پر بڑی عنایت اور مہربانی کرتا ہے۔ ولکن اکثر الناس لا یشکرون لیکن اکثر آدمی شکر نہیں کرتے یا تو اس لیے کہ اس نعمت کو ایک معمولی بات سمجھتے ہیں یا وہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں یا اس کو کسی اور کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس نعمت کو یاد دلاکر فرماتا ہے۔ ذلکم اللہ ربکم یہ اللہ ہے، تمہارا رب خالق کل شیء ہر چیز کا پیدا کرنے والا نہ اور کوئی۔ ذلک اشارہ کا لفظ لاکر اور اس سے پہلے اپنی روزمرہ کی نشانی دکھاکر گویا آنکھ سے خدا تعالیٰ کو دکھادیا کہ اے اندھو ! آنکھیں کھولو اور دیکھو یہ اللہ ہے اور وہ ایسا بخشنے والا ہے۔ فانی تو فکون پھر کہاں بہکے چلے جاتے ہو اوروں کو پکارتے ہو۔ ان کی عبادت کرتے ہو، ان کو نافع اور ضار سمجھتے ہو اور یہ بہکنا کچھ انہی پر منحصر نہیں بلکہ کذلک یؤفک ان سے پہلے بھی لوگ بہکے ہوئے تھے وہ جو اللہ کی ایسی نشانیوں کا انکار کرتے تھے، یعنی یہ بھی اللہ کی نشانیوں کو دیکھتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔ دوم اللہ الذی جعل لکم الارض قرارا و السماء بناء اللہ وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے قرار گاہ بنایا کہ اس پر بستے ہو چلتے پھرتے ہو اور آسمان کو چھت بنادیا کہ تم کو گھیرے ہوئے ہے، صدہا نعمتیں چھت پر سے بےمشقت تمہارے گھر میں آرہی ہیں۔ سوم وصورکم فاحسن صورکم تمہاری صورت اس نے بنائی پھر کیا خوب بنائی اس خوبی کو دیکھو تو معلوم ہو کہ کیسی نعمت تم کو عطاء ہوئی ہے۔ تشریح ابدان کے جاننے والے اس کو جانتے ہیں۔ چہارم ورزقکم من الطیبات یہی نہیں کہ تم کو عمدہ بناکر بھوکا مارا بلکہ عمدہ سے عمدہ روزی دی نفیس چیزیں کھلائیں۔ ذلکم اللہ ربکم یہ ہے اللہ تمہارا رب فتبارک اللہ رب العالمین پھر کیا بابرکت رب ہے جو تمام عالم کا رب ہے۔ ھو الحی الخ وہ زندہ معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں جب یہ ثابت ہوا تو فادعو اسی کو پکارو اسی کی عبادت کرو، مگر کس طرح سے مخلصین لہ الدین اسی کے ہو کر مدعا ثابت کرکے کلام ختم کرتا ہے۔ الحمدللہ رب العالمین کہ ہر قسم کی ستائش کا وہی منعم حقیقی ہے نہ کوئی اور۔ 1 ؎ کہ اس کی روشنی میں ایک دوسرے کو دیکھتا ہے۔
Top