Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے جَعَلَ : بنائی لَكُمُ : تمہارے لئے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام پکڑو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا ۭ : دکھانے کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے بنائی ہے تمہارے رات تاکہ تم آرام پکڑو اس میں اور دن بنایا ہے دیکھنے کے لیے بیشک اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے لوگوں پر ، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل کا ذکر تھا اور ساتھ ساتھ ہدایت اور گمراہی کی وضاحت بھی کی گئی تھی قیامت کے برحق ہونے کی بات تھی اور دعا کا مسئلہ بھی بیان ہوا تھا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر وقت اس کے دامنے دت بدعا رہو ، جو شخص تکبر کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے گریز کریگا ، اس کو ذلیل و خوار کر کے جہنم میں داخل کیا جائیگا ۔ جیسا کہ سورة کی ابتداء میں بیان ہوچکا ہے ، حوامیم کی ساری سورتیں اسلام کے بنیادی عقائد توحید ، رسالت ، قرآن کی حقانیت اور معاد پر مشتمل ہیں چناچہ اس سورة مبارکہ میں بھی یہی مضمون مختلف انداز سے بیان ہو رہے ہیں توحید کا مسئلہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے اور آج کے درس میں بھی توحید کے عقلی دلائل کا ذکر ہے اور ساتھ ساتھ وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کی بات بھی سمجھا دی گئی ہے ۔ (لیل ونہار کی افادیت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اللہ الذی جعل لکم الیل لتسکنوا فیہ “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات کو بنایا ہے تاکہ تم اس میں سکون پکڑ سکو اللہ تعالیٰ نے رات کی واضع ہی ایسی بنائی ہے کہ اس میں قدرے ٹھنڈک ہوتی ہے کبھی دھیمی روشنی اور کبھی تاریکی ہوتی ہے جو نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں درندوں ، چرندوں ، اور کیڑے مکوڑوں کو بھی آرام کرنے میں مدد دیتی ہے ، انسان ہوں یا جانور چوبیس گھنٹے تو کام نہی کرسکتے ، اپنے اعضاء کی تحلیل شدہ قوی کی بحالی کے لیے سب کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ رات کو پھیلا کر ان کے لیے آرام و سکون کا موقع بہم پہنچا دیتا ہے ، بیشتر جاندار رات کے وقت آرام کرتے ہیں اور اگلے دن کے کام کے لیے پھر سے تازہ دم ہوجاتے ہیں ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے رات کو اپنی حکمت اور جانداروں کی مصلحت کے لیے بنایا ہے تاکہ اس میں آرام پکڑ سکیں ۔ فرمایا (آیت) ” والنھار مبصرا “۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے دن کو دیکھنے والا بنایا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ دن کو سورج کی روشنی کی وجہ سے انسان ہر چیز آسانی سے دیکھ سکتا ہے اور پھر اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتا ہے ، انسان جو بھی پیشہ اختیار کرتا ہے وہ صنعت ہو یا زراعت ، تجارت ہو یا کوئی علمی کام ، ملازمت ہو یا کوئی محنت مزدوری ، اس کے لیے عام طور پر دن کا وقت ہی موزوں ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے رات کو آرام کا ذریعہ بنایا ہے اسی طرح دن کو کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ، اگر رات اور دن کی یہ تقسیم نہ ہو تو مخلوق کے لیے معمولی طریقے سے زندگی گذارنا مشکل ہوجائے ، ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے دن میں سونے کا ذکر بھی کیا ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص رات کی ڈیوٹی پر متعین ہے ، لازم ہے کہ وہ دن کے وقت آرام کرے گا ، چونکہ ہر جاندار کے لیے آرام ضروری ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کا یہ نظام قائم کردیا ہے ۔ رات اور دن دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” وجعلنا الیل والنھار ایتین “۔ (بنی اسرائیل ، 12) ہم نے رات اور دن کو دو نشانیوں بنایا ہے ، رات کو تاریک اور دن کو روشن کیا ہے تاکہ تم دن کے وقت روزی تلاش کرو اور رات کے ذریعے تقویم کا حساب رکھ سکو ، یہ لیل ونہار خود بخود کسی حادثے کے نتیجے میں نہیں پیدا ہونے بلکہ (آیت) ” یقلب اللہ الیل والنھار “۔ (النور : 44) اللہ تعالیٰ ان کو پلٹیاں دے کر ان میں امتیاز پیدا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے نظام شمسی کا ایک ایسا سلسلہ قائم کردیا ہے کہ جس کے ذریعے رات اور دن آگے پیچھے آتے رہتے ہیں کبھی رات بڑی ہوجاتی ہے اور دن چھوٹا اور کبھی دن بڑا ہوتا ہے اور رات چھوٹی ، موسموں کا تغیر وتبدل بھی اسی نظام قدرت کے ساتھ وابستہ ہے ، ان مختلف موسموں کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں میں ہر موسم کی الگ الگ پیداوار ہوتی ہے جس میں انسان اور جانور چرند ، پرند اور کیڑے مکوڑے اپنی اپنی خوراک اور گرمی سردی کی ضروریات پوری کرتے ہیں بہرحال فرمایا کہ ہم نے رات کو آرام کے لیے اور دن کو کام کاج کے لیے وضع کیا ہے ۔ (انسان کی ناشکرگزاری) اللہ تعالیٰ نے تو انسانوں کی مصلحت کے لیے دن رات جیسا یہ مفید نظام قائم کیا ہے کیونکہ (آیت) ” ان اللہ لذو فضل علی الناس “۔ وہ لوگوں پر بڑا ہی فضل اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ (آیت) ” ولکن اکثرالناس لا یشکرون “۔ مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں یعنی اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے اور سب سے بڑی ناشکری یہ ہے کہ اس منعم حقیقی کی ذات ، صفات یا عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو لاکھوں ، کروڑوں نعمتیں عطا کی ہیں جن میں سے رات اور دن کی تخلیق کا ذکر اسی آیت میں ہوا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ انسان اپنی زبان عمل اور اعضاء جوارح سے ہر ہر نعمت کا شکریہ ادا کرتے مگر فرمایا کہ لوگوں کی اکثریت ناشکر گزار ہی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ذلکم اللہ ربکم “۔ یہی ہے اللہ تعالیٰ تمہارا پروردگار (آیت) ” خالق کل شیئ “۔ جو ہرچیز کا خالق ہے ، اس کے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے خواہ وہ عالم بالا میں ہو یا عالم زیریں میں جنت ، دوزخ ملائکہ ، جنات انسان اسی کے پیدا کردہ ہیں ، ہر قسم کے جانور اور کیڑے مکوڑے خواہ وہ ارضی ہوں یا بحری جنگلی ہوں یا صحرائی ، سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور وہی سب کا خالق ہے ، جب ہر چیز کا وہ خالق ہے تو (آیت) ” لا الہ الا ھو “۔ اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ، عبادت صرف اسی کی کی جاسکتی ہے (آیت) ” فانی تؤفکون “۔ مگر تم خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر کدھر پھرے جاتے ہو ، جب خالق وہ ہے نعمتیں اس نے عطا کی ہیں مدبر اور متصرف وہ ہے تو پھر تم کس کی نذر ونیاز دیتے ہو کس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہو اور کسی کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے ہو ؟ کیا یہ بےعقلی اور ناشکری کی بات نہیں ہے ؟ فرمایا (آیت) ” کذلک یؤفک الذین کانوا بایت اللہ یجحدون “۔ اسی طرح وہ لوگ بھی پھیرے جاتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے مطلب یہ کہ تم سے پہلے منکرین بھی اسی طرح اندھیرے میں ٹکریں مارتے رہے ، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق کے پیچھے بھاگتے رہے ، ان سے مشکل کشائی اور حاجت روائی چاہتے تھے ۔ جس طرح وہ کفر وشرک میں مبتلا ہو کر ناکام ہوئے ، اسی طرح تم بھی انہی کے نقش قدم پر چل کر دائمی ناکامی کا منہ دیکھو گے ، انسان اگر صرف تخلیق کی نشانی میں غور وفکر کرے تو اللہ کی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے مگر یہ تو اپنے اردگرد پھیلے ہوئے لاکھوں دلائل میں سے کسی میں غور ہی نہیں کرتے ، پھر یہ راہ راست پر کیسے آسکتے ہیں ؟ (زمین وآسمان کے فوائد) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اللہ الذی جعل لکم الارض قرارا “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو قرار گاہ یعنی ٹھہرنے کی جگہ بنا دیا زمین کے علاوہ دوسرے کرے ، چاند ، سورج ، ستارے ، مریخ وغیرہ انسان کے لیے قیام گاہ نہیں بن سکتے کیونکہ وہاں پر اللہ تعالیٰ نے انسانی ضروریات کی اشیاء پیدا ہی نہیں کیں ، اگر کوئی سائنسدان زمین کے علاوہ فضا یا کسی دوسرے سیارے میں جائے گا تو بالکل عارضی طور پر جائے گا انسان کی مستقل اور طبعی قیام گاہ زمین ہی ہے جہاں اسے ضرورت کی ہر چیز میسر ہے فرمایا ایک تو زمین کو قرار گاہ بنایا (آیت) ” والسماء بناء “۔ اور آسمان کو تمہارے لیے بمنزلہ چھت کے بنا دیا ، یہ ایسے ہی نظر آتا ہے جیسے کوئی قبہ یا خیمہ ہو جو زمین کے اوپر تنا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے زمین آفات وبلیات سے محفوظ ہے سورة الانبیاء میں ہے (آیت) ” وجعلنا السمآء سقفا محفوظا “۔ (آیت : 32) ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنا دیا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی تخلیق اور اس کی افادیت کا ذکر کیا ہے ۔ (مصور حقیقی کی تصویر کشی) پھر فرمایا ، اللہ تعالیٰ کا یہ احسان بھی یاد کرو (آیت) ” وصورکم فاحسن صورکم “۔ اس نے تمہیں شکل و صورت بخشی اور بہت اچھی صورت عطا کی ، اللہ تعالیٰ مصور حقیقی ہے اس نے انسان کو (آیت) ” فی احسن تقویم “۔ (التین ، 4) بہترین صورت میں پیدا کیا ، سورة آل عمران میں ارشاد ہے (آیت) ” ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشآء “۔ (آیت : 6) اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو رحم مادر میں تمہاری تصویر کشی کرتا ہے جیسے چاہتا ہے ، اگرچہ بعض لوگوں کی شکل و صورت واجبی ہوتی ہے اور بعض بدشکل بھی ہوتے ہیں ، لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بہتر شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے اور اسے تمام مخلوق پر شرف عطا کیا ہے ، تصویر سازی مصور حقیقی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ، اسی لیے کسی شخص کو کسی جاندار کی تصویر بنانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے ، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والے سے کہے گا کہ میں نے تو تصویر بنا کر اس میں جان بھی ڈالی تھی ، اب تم بھی اس میں جان ڈالو جب وہ ایسا نہیں کرسکے گا تو اللہ تعالیٰ سخت مؤاخذہ کرے گا ، زیب وزینت کے لیے بےجان اشیاء عمارت پہاڑ ، دریا ، سورج ، چاند وغیرہ کی تصویر تو بنائی جاسکتی ہے مگر کسی جاندار کی تصویر بنانا اور پھر اسے دیوار کی زینت بنان قطعی حرام ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے ، جس گھر میں کتا یا تصور ہوتی ہے وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا فرمایا ہے ۔ (پاکیزہ روزی) فرمایا (آیت) ” ورزقکم من الطیبت “۔ اے انسانو ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے روزی عطا کی ہے ، روزی تو تمام جانداروں ، درندوں ، پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی مل رہی ہے مگر ان کی روزی کے ساتھ پاکیزگی کی شرط نہیں ہے پاکیزہ رزق اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو مہیا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے صرف وہی رزق انسان کے لیے حلال اور طیب کیا ہے جو اس کی جسمانی اور ورحانی صحت اور پاکیزہ اخلاق کے لیے ضروری ہے ، اور جن چیزوں سے جسم ، روح اور اخلاق میں نجاست پیدا ہوتی ہے ، وہ حرام قرار دی گئی ہیں ، چناچہ مردار ، خون خنزیر کا گوشت ، اور نذر غیر اللہ جسمانی اور روحانی نجاست پیدا کرتے ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں انسان کے لیے حرام کردیا ہے ، روحانی نجاست میں غیر الہ کی نذر کے علاوہ غصب شدہ اور چوری کا مال ، رشوت اور دھوکہ دہی ہے حاصل ہونے والی چیزیں بھی مال حرام میں شمار کی گئی ہیں ، ان کے استعمال سے ذہن میں فساد پیدا ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے صرف حلال اور پاک چیزیں ہی بطور رزق استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ذلکم اللہ ربکم “۔ یہ ہے تمہارا پروردگار جس نے تمہارے لیے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت بنایا ، تمہیں بہترین صورت میں تخلیق کیا اور پھر طیبات میں سے روزی بہم پہنچائی ، (آیت) ” فتبرک اللہ رب العلمین “۔ پس بڑی برکت والا ہے اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے فرمایا حقیقت میں (آیت) ” ھو الحی “۔ وہی زندہ ہے اور دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے وہی زندگی کا سرچشمہ ہے (آیت) ” لا الہ الا ھو “۔ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ جس کی پرستش کی جائے ، لہذا (آیت) ” فادعوہ “۔ اپنی مشکلات اور حاجات میں اسی کو پکارو ، اس حال میں کہ (آیت) ” مخلصین لہ الدین “۔ خالص اسی کے لیے اطاعت کرنے والے ہو ، اس کی عبادت و ریاضت میں شرک اور ریا کی ملاوٹ نہ کرو ، گذشتہ سورة الزمر میں بھی گزر چکا ہے ، (آیت) ” فاعبد اللہ مخلصا لہ الدین “۔ (آیت) آپ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ خالص اسی کی اطاعت کرنے والے ہوں ریا کی وجہ سے نیک اعمال نامقبول ہوجاتے ہیں ، جب کہ شرک سے تو اصلا سارے اعمال برباد ہی ہوجاتے ہیں ، لہذا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہئے (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “۔ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، وہی تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہے اور وہی ہر قسم کی عبادت کا حق دار ہے ۔ (شرک کی ممانعت) ارشاد ہوتا ہے اے پیغمبر ﷺ (آیت) ” قل انی نھیت ان عبدالذین تدعون من دون اللہ “۔ آپ کہہ دیجئے کہ مجھے تو منع کردیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ، خاص طور پر (آیت) ” لما جآء نی البینت من ربی “۔ جب کہ میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس واضح نشانیاں اور دلائل قدرت بھی آ چکے ہیں ، لہذا میں تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس کی صفات اور اس کو پکارنے میں کسی کو شریک نہیں بنا سکتا ، فرمایا آپ یہ بھی اعلان کردیں ، (آیت) ” وامرت ان اسلم لرب العلمین “۔ کہ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے پروردگار کا ہی تابع فرمان بن جاؤں ، اسلام کا معنی انقیاد اور اطاعت ہوتا ہے یعنی قلب و قالب ، دل وجان اور پوری عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرنا ، فرمایا میں تو اسی طرح سے اللہ تعالیٰ کا مکمل اطاعت گزار ہوں ۔ (تخلیق انسانی کے ادوار) آگے تخلیق انسانی کے حوالے سے قیامت کی بات بھی سمجھائی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھو الذی خلقکم من تراب “۔ خدا کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں مٹی جیسی حقیر اور بےجان چیز سے پیدا کیا ، لوگ اس مٹی کو پاؤں تلے روندتے ہیں اس پر گندگی پھینکتے ہیں اور اس کو بڑی بےقدری سے استعمال کرتے ہیں ، نوع انسانی کے جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے تخلیق فرمایا اور پھر نسل انسانی کو (آیت) ” ثم من نطفۃ “۔ قطرہ آب سے چلایا یہ ایک ایسا ناپاک قطرہ ہوتا ہے کہ جسم ، یا کپڑے کو لگ جائے تو دھوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، بہرحال یہ قطرہ شکم مادر میں ایک چلے یعنی چالیس دن تک اسی حالت میں رہتا ہے اور پھر اس میں تغیر پیدا ہونے لگتا ہے دوسرے چلے میں یہ قطرہ آب منجمند خون میں تبدیل ہوجاتا ہے اور تیسرے چلے میں (آیت) ” ثم من علقۃ “۔ گوشت میں تبدیل ہو کر ایک لوتھڑا سا بن جاتا ہے اور پھر اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں ، ان پر گوشت چڑھایا جاتا ہے اور بچے کے اندرونی اعضاء درست ہوتے ہیں جسم کے اوپر والے حصے میں کھال بن جاتی ہے اور پھر چوتھے چلے میں اس مجسمہ میں روح الہی داخل کردی جاتی ہے ، نو ماہ کے عرصہ میں بچہ مکمل ہوجاتا ہے تو فرمایا (آیت) ” ثم یخرجکم طفلا “۔ ‘ پھر اللہ تعالیٰ تمہیں بچے کی شکل میں شکم مادر سے باہر نکالتا ہے (آیت) ” ثم لتبلغوا اشدکم “۔ پھر تم بڑھتے بڑھتے اپنی قوت اور جوانی تک پہنچ جاتے ہو (آیت) ” ثم لتکونوا شیوخا “۔ پھر جب زندگی کا زیادہ حصہ گزار چکتے ہو تو بڑھاپے کو پہنچ جاتے ہو اور تمہارے قوی مضمحل ہونے لگتے ہیں جس طرح تم کمرزوری سے قوت کی طرف آئے اسی طرح سے قوت سے کمزوری کی طرف سفر شروع ہوجاتا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی قدرت یہ ہے (آیت) ” ومنکم من یتوفی من قبل “۔ کہ تم میں سے بعض جوانی کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ بعض بچے تو پیدا ہی مردہ حالت میں ہوتے ہیں ، بعض ایک دو سانس لے کر اور بعض ایک دو دن میں ختم ہوجاتے ہیں بعض کی عمر مہینوں اور سالوں تک دراز کرتا ہے اور بعض کو عین شباب میں اپنے پاس بلا لیتا ہے ہر انسان کی عمر اللہ تعالیٰ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ، جسے پورا کرکے وہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تاکہ تم پورا کرو مقررہ مدت کو یعنی بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کے مقررہ کردہ وقت تک زندہ رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی عمر یکساں نہیں بنائی اور ہر ایک کے لیے جو مدت مقررہ کی ہے وہ پورا کرتا ہے اور پھر مقررہ وقت پر راہی ملک عدم ہوجاتا ہے ۔ (معاد پر دلیل) فرمایا انسانی زندگی کے تمام ادوار ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے (آیت) ” ولعلکم تعقلون “۔ تاکہ تم عقل سے کام لو اور سوچو سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارا نظام حیات کیسی حکمت اور مصلحت کے تحت قائم کر رکھا ہے اور اس بات میں بھی غور کرو کہ جس اللہ تعالیٰ نے تمہیں نیست سے ہست میں لا کر زندگی میں اتنے تغیر وتبدل پیدا کیے ہیں وہ تمہیں مرنے کے بعد آخرت کے دور میں بھی ضرور پہنچائے گا جس طرح ہر انسانی کی زندگی اور موت کا ایک وقت مقرر ہے ، اسی طرح کائنات کا بحیثیت مجموعی بھی ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آئے گا تو ہر چیز پر موت وارد ہو جائیگی ، پھر اللہ تعالیٰ نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرے گا ، تمام انسانوں اور جنوں کو دوبارہ پیدا کرے گا ، حشر کا میدان قائم ہوگا ہر ایک کا محاسبہ اعمال ہوگا ، اور جزائے عمل کے فیصلے ہوں گے اگر انسان ذرا بھی غور کرے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ جس اللہ نے انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح وہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس طرح معاد کا مسئلہ آسمانی سے سمجھ میں آجاتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ھو الذی یحی ویمیت “۔ خدا کی ذات وہی ہے جو تمہیں زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے ، (آیت) ” فاذا قضی امرا “۔ پھر جب وہ کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرلیتا ہے (آیت) ” فانما یقول لہ کن فیکون “۔ تو حکم دیتا ہے کہ ہوجاؤ تو وہ چیز فورا ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدائی تخلیق بھی اپنے حکم سے کرتا ہے ، پھر وہی ہر ایک کو موت سے ہمکنار کرتا ہے اور پھر آخر میں وہی دوبارہ بھی زندہ کر کے اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور محاسبہ اعمال اور جزائے عمل کی منزل آئے گی ۔
Top