Tafseer-e-Majidi - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے جَعَلَ : بنائی لَكُمُ : تمہارے لئے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام پکڑو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا ۭ : دکھانے کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام پاؤ اور (اس نے) دن کو روشن بنایا بیشک اللہ لوگوں پر بڑا فضل رکھنے والا ہے لیکن اکثر آدمی شکر نہیں ادا کرتے،60۔
60۔ (اور شکرگذاری کی بڑی فرد منعم حقیقی کی توحید کا اقرار کرنا ہے) عوام کا ذکر نہیں، یونان، مصر، ہندو وغیرہ کے بڑے بڑے ” فلاسفہ “ و ” حکماء “ تاثیر کواکب، تصرفات افلاک، تعدد آلہہ، عقل کل، رب النوع وغیرہ خدا معلوم کن کن خرافات کے قائل ہوئے ہیں، (آیت) ” الذی ...... مبصرا “۔ مشرک وجاہلی قوموں نے ” دن “ اور ” رات “ کو بھی بجائے مخلوق ہونے کے مستقل معبود مان کر ان کی پرستش کی ہے۔ قرآن مجید ان احمقوں کی برابر تردید کرتا جاتا ہے۔ (آیت) ” الیل لتسکنوا فیہ “۔ رات کا عام مخلوق کے لئے تو زمان استراحت ہونا ظاہر ہی ہے۔ رہے اہل ریاضات ومجاہدات تو ان کے تو عین لذت وحلاوت کی چیزیں یہی مشغلہ عبادت و مجاہدہ ہے اور وہ اپنی راتیں انہیں میں گذارتے ہیں۔ (آیت) ” ان .... الناس “۔ اس کا صاحب فضل عمیم ہونا اسی سے ظاہر ہے کہ وہ مخلوق کی مصلحتوں کی کیسی کیسی رعایتیں ملحوظ رکھتا ہے۔
Top