Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے جَعَلَ : بنائی لَكُمُ : تمہارے لئے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام پکڑو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا ۭ : دکھانے کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو) بیشک خدا لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
بیان انعامات خداوندی وذکر دلائل قدرت واسباب معرفت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” اللہ الذی جعل لکم الیل ...... الی ...... کن فیکون “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں حق تعالیٰ شانہ نے اپنے انبیاء اور اہل ایمان کی نصرت و کامیابی کا قانون بیان کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو بشارت دی تھی اور ساتھ ہی ساتھ تسلی بھی کی گئی، اور صبر و استقامت کی تلقین فرمائی، اب ان آیات میں اپنے انعامات عامہ اور خاصہ کا ذکر فرمایا، تاکہ ان سے اللہ کی معرفت حاصل ہو، اس کی قدرت کاملہ پر ایمان لایا جائے تو فرمایا، اللہ ہی ہے جس نے تمہارے آرام کے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو، اور اس نے دن کو روشن بنایا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنے کاروبار انجام دے سکو، بےتکلف چل پھر کر کسب معاش کرو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑے فضل وانعام والا ہے لوگوں پر کہ ان کے مصالح کی کیسی رعایت فرمائی، ان کی راحت اور کسب معاش کے کیسے اسباب پیدا فرمائے، لیکن اکثر لوگ ان نعمتوں کا شکر نہیں کرتے، ان انعامات کا تقاضا تو یہ تھا کہ خدا وند عالم کی عبادت کرتے، اس کی عظمت و محبت قلب میں ہوتی، اور اس کی نافرمانی پر اس کے قہر وغضب اور ناراضگی سے ڈرتے، مگر اکثر لوگ یہ باتیں سمجھتے ہیں اور نہ سوچتے ہیں، حالانکہ یہ باتیں روز روشن کی طرح واضح ہیں کیونکہ اللہ تو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو پھر اے لوگو، بعد اس کے کہ خدا کی خالقیت توحید اور الوہیت ظاہر ہے تم کہاں الٹے پاؤں شرک ہی کی طرف لوٹے جارہے ہو اور گمراہی کے بیابانوں میں بھٹک رہے ہو، اے مخاطبین یہ بات آج تمہاری کوئی نئی بات نہیں ہے، اسی طرح وہ لوگ بھی بھٹکتے رہے جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے، خواہ وہ نشانات تکوینی ہوں یا وہ دلائل و احکام ہوں جو اللہ نے نازل کیے، آپ ﷺ کو ایسی باتوں پر صدمہ اور فکر نہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے اے انسانو ! تمہارے واسطے زمین کو قرار کی جگہ بنایا اور آسمان کو چھت کی طرح بنایا، اور تمہارا نقشہ بنایا، اور بہترین نقشہ بنایا کہ اس طرح کی خوبی جسم کی ساخت اور اعضاء کا تناسب کسی بھی حیوان میں نہیں رکھا گیا، جیسا انسان میں رکھا چناچہ ارشاد ہے۔ (آیت ) ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم “۔ اور تم کو عمدہ عمدہ پاکیزہ کھانے دیئے اے لوگوں ! بس یہی تو ہے وہ خدا جو تمہارا رب اور معبود ہے جس نے تم کو بہترین شکل میں پیدا کیا، اور عمدہ عمدہ غذائیں اور نعمتیں کھانے کو دیں، سو بہت ہی عظیم برکت اور بزرگی والا ہے وہ اللہ جو رب ہے سارے جہانوں کا، وہی، حی لایموت “۔ ہے ازلی اور ابدی ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جس کے سوا ہرگز کوئی عبادت کے لائق نہیں، سو تم صرف اسی کو پکارو، اسی کی عبادت کرو، اسی کے واسطے اپنے اعتقاد خالص کرتے ہوئے، بیشک سب خوبیاں اسی اللہ کے لیے ہیں جو رب ہے تمام جہانوں کا، جب اللہ رب العزت کی قدرت خالقیت اور الوہیت وحدانیت سب کچھ ظاہر اور ثابت ہے تو آپ کہہ دیجئے ان مشرکین کو سنانے کے لیے اور شرک سے بیزاری ونفرت کا اعلان کرتے ہوئے بیشک میں تو منع کیا گیا ہوں اس چیز سے کہ میں عبادت کروں خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں کی جن کی تم عبادت کرتے ہو خدا کو چھوڑ کر جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے نشانیاں آچکیں اور ایسے دلائل و شواہد جو عقلی بھی ہیں اور نقلی بھی، اور مجھ کو تو بس یہی حکم ہے کہ میں اسی اللہ کے سامنے سرجھکاؤں جو رب العالمین ہے۔ اے لوگو ! عجیب بات ہے کیا تمہیں خبر نہیں، وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا کہ تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے، پھر آئندہ ان کا سلسلہ نسل اس طرح قائم کیا کہ تم کو نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے پھر تم کو بعد اس کے کہ بصورت حمل مال کے رحم میں تخلیقی وتصویری مراحل مکمل ہوگئے ہوں نکالتا ہے ماں کے پیٹ سے بچہ کی شکل میں پھر تم کو زندگی دیتا ہے تاآنکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر اور بھی مزید حیات عطا کرتا ہے یہاں تک کہ تم بوڑھے ہوجاؤ، اور بعض تم میں سے ہوتا ہے جو اس سے پہلے مرجائے، جوانی یا بڑھاپے کی نوبت ہی نہ آئے، غرض یہ سب کا علیحدہ علیحدہ ہے کوئی بوڑھا ہو اور کوئی نہیں، کوئی جوان ہوا، اور کوئی اس سے پہلے ہی مرگیا اور یہ سارا تقدیری نظام اس وجہ سے ہے کہ تم پہنچ جاؤ اس وقت پر جو مقرر و متعین کردیا گیا ہے تو جو وقت جس انسان کا تقدیر خداوندی سے طے ہوچکا ہوتا ہے وہ اسی وقت تک پہنچتا ہے، کوئی طاقت اس وقت کو آگے پیچھے نہیں کرسکتی۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے، تاکہ تم لوگ ان احوال میں غور کرکے سمجھ جاؤ کہ دراصل وہی ایک ذات موت وحیات کی مالک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے، بس وہ جس بھی کام کا ارادہ کرتا ہے، اس کے لیے کہہ دیتا ہے کن (ہوجا) تو بس وہ ہوجاتا ہے، خواہ وہ کوئی چیز دفعۃ پیدا کرنا چاہئے یا بتدریج جیسے بھی اس کی حکمت ومشیت ہو، اس کے مطابق وہ چیز ہوجاتی ہے، ان آیات میں حق تعالیٰ نے اپنے انعامات کے ذکر میں رات بنانے کی حکمت سکون کو بیان فرمایا کہ بندے دن کے وقت محنت اور نقل و حرکت کی مشقتوں کے بعد رات کی تاریکی اور خاموشی میں سکون و راحت حاصل کرلیں اور اس سکون کے بعد پھر دن کی روشنی میں اپنے مشاغل انجام دیں لیں، دن کی روشنی بھی کتنا عظیم انعام سے ظاہر ہے کہ کاروباری مصروفیات اور مشاغل کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ حاجت تھی اللہ نے وہ عطا کردی اور راحت و سکون جس کے بغیرزندگی کا نظام قائم نہیں رہ سکتا تھا وہ بھی رات کی تاریکی میں عطا فرمادیا، پھر آسمان کتنی عظیم مخلوق ہے، اس سے متعلق چاند سورج اور ستاروں کی کیسی عجیب اور عظیم شان ہے کس قدر فوائد ومنافع انسانی حیات کے ان سے متعلق ہیں، ان تمام دلائل سے صرف نظر کسی بھی صاحب عقل انسان سے ممکن نہیں، نیز خود انسان کا وجود اس کی شکل و صورت کی خوبی اور اس کی خصوصیات و کمالات کتنے بلند پایہ دلائل ہیں پھر موت وحیات اور مدت حیات، لوازم حیات، غرض سب چیز کا تنہا وہی پروردگار مالک و خالق ہے جب ان تمام چیزوں میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر انسان کو یہ بات کیسے زیب دیتی ہے کہ وہ اس کی الوہیت میں کسی کو شریک کرے، انسان نہ اللہ کی قدرت کا انکار کرسکتا ہے، نہ اس کی الوہیت وواحدانیت کا، ان احوال کے پیش نظر انسان کی یہ بڑی ہی بدنصیبی اور حماقت ہوگی کہ خالق کائنات اور قادرمطلق کی عبادت نہ کرے اور اس پر ایمان نہ لائے (آیت ) ” لا الہ الا ھو فادعوہ مخلصین لہ الدین “۔ کی تفسیر میں ابن جریر (رح) سے منقول ہے فرمایا حضرات سلف کی ایک جماعت یہ کہا کرتی تھی کہ جو شخص لا الہ الا اللہ “۔ کہے اس کو چاہئے کہ اس کے بعد (آیت ) ” الحمد للہ رب العلمین “۔ بھی کہہ لیا کرے تاکہ اس آیت مبارکہ پر عمل ہوجائے، بروایت اعمش (رح) مجاہد (رح) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی یہی نقل فرمایا کرتے تھے، عبداللہ بن الزبیر ؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کا سلام پھیرنے کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے۔ ” لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، لاحول ولا قوۃ الا باللہ ولا نعبد الا باللہ ولا نعبد الا ایاہ لہ النعمۃ ولہ الفضل ولہ الثناء الحسن۔ لاالہ الا اللہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون۔ اور یہ بیان کیا کرتے کہ آنحضرت ﷺ بھی یہ کلمات ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے (صحیح مسلم، نسائی) تفسیر ابن کثیر جلد رابع۔
Top