بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 1
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
الٓمٓصٓ ۔
رکوع نمبر 1 ۔ آیات نمبر 1 تا 10 ۔ اسرار و معارف : کتاب کا مفہوم : حفورف مقطعات کے متعلق شروع میں ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ انھا سر بین اللہ ورسولہ نیز جنہیں قلب اطہر سے نسبت تام نصیب ہوجائے اللہ کی عطا سے وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق آگاہ ہوجاتے ہیں ان پر ایمان ضروری ہے اور تلاوت سے وہ فائدہ جو مقصود ہے نصیب ہوجاتا ہے لہذا ہر کس و ناکس کو معافی کی کرید نہ کرنا چاہئے۔ یہ کتاب ہے جامع مکمل اور سچی محض اوراق لکھ کر جوڑ دینا کتاب کا مفہوم ادا نہیں کرتا اس لیے کہ ہر کتاب کسی موضوع پر ہوتی ہے اور حق یہ ہے کہ اسے موضوع کے بارے مکمل سچی اور حتی بات قاری تک پہنچانا چاہئے۔ انسانی اندازے تو ہوتے ہیں قطعی بات کہنا اللہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں اس مفہوم کو صرف اللہ کی کتاب پورا کرتی ہے لہذا ارشاد ہوا یہ کتاب ہے اور اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل کی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نافرمانوں کو اعمال بد کے خطرناک نتائج سے بروقت خبردار کردیجیے اور ایمان لانے والوں کو وہ طریقہ تعلیم فرمائیے کہ جن سے وہ زیادہ سے زیادہ قرب الہی حاصل کرسکتے ہیں لہذا آپ کو غمگین نہ ہونا چاہئے کہ اللہ کا ذاتی کلام ہے کتنی مشقت اٹھا کر لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن بدنصیب مان کر نہیں دیتے جس کے نتیجے میں جہنم میں گریں گے ہمیشہ کے لیے عذاب سے دوچار ہوں گے لوگ اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنی پسند اور ذاتی انتخاب ہے آپ اس پر دلگیر نہ ہوا کریں۔ یہ رحمت عالم ﷺ کی فطری شفقت تھی کہ معاندین کے انجام کا دکھ محسوس فرماتے تھے تو متعلقین پر کتنا کرم ہوگا کاش مسلمان اندازہ کرسکے ک اور صرف اس لیے اللہ کی اطاعت کرلے کہ نافرمانی پہ صرف اپنا نقصان ہی مرتب نہ ہوگا رحمت عالم ﷺ کو بھی پریشانی لاحق ہوگی نیز یہ واضح ہوگیا کہ مفاہیم کتاب بیان کرنا منصب رسالت ہے ہر کوئی محض لغت سے معانی مقرر کرنے کا نہ مجاز ہے نہ کسی میں اس کی استعداد ، اسی لیے تفسیر صرف وہ معتبر ہوگی جو حدیث اور سنت سے ثابت ہو۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تزکیہ قلب نصیب نہ ہو تو آدمی اپنے پر جبر کرکے اطاعت کی صورت تو بنا سکتا ہے لطف غلامی سے نا آشنا ہی رہتا ہے۔ لوگو یہ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یعنی اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف تمہاری جسمانی اور دنیوی حاجات کو پورا کرے بلکہ روحانی اور اخروی و ابدی ضروریات کی تکمیل بھی اشد ضروری ہے لہذا رب جلیل نے اس کا اہتمام کردیا اب جس طرح زندہ رہنے کے لیے غذا کھاتے تندرستی کے لیے دوا لیتے ہو اسی ابدی راحت کے لیے اطاعت اور عبادت کی ضرورت ہے اور یہ تمہارا کام ہے کہ آگے بڑھ کر اس پیغام کو سینے سے لگا لو زندگی ہار دو مگر آخرت کو ہاتھ سے جانے نہ دو یہ کام اسی صورت ممکن ہے کہ تم ساری امیدیں اللہ سے وابستہ کرلو اور اس کے بغیر کسی سے امید نہ رکھو ورنہ جس سے امید باندھو گے اسی کی غلامی میں گرفتار ہوجاؤگے بات بڑی سادہ ہے مگر ہمیشہ کم ہی لوگ سمجھ پائے ہیں دنیا کی چکا چوند میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ گناہ کرتے کرتے اس حد پہ جا پہنچے کہ حیات دنیا میں عذاب الہی کا شکار ہوئے کتنی قومیں راتوں رات تباہ ہوگئیں اپنے حال میں مست اور عیش کوشیوں میں مصرف کوئی دن کو لیٹے اور پھر اٹھنا نصیب نہ ہوا یہ لوگ اسی زمین پر آباد تھے اور احکامِ الہی کو خاطر میں نہ لاتے تھے حتی کہ جب گرفت میں آئے تو بےاختیار کہہ اٹھے کہ بلا شک ہم ہی غلط کار تھے آخر ہماری بےراہ روی رنگ لائی کیا ان کے حالات تمہارے لیے عبرت کا سامان نہیں ؟ دنیا محض تماشا نہیں بلکہ انبیاء ومرسلین تک سے ان کی زمہ داریوں کے بارے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اللہ کی بات پہنچا دی تھی یا نہیں یا وجود اس کے کہ سب نبی معصوم ہوتے ہیں اور پوری زندگی کی توانائیاں صرف اس مقصد پہ صرف کرتے ہیں جس کے لیے مبعوث ہوں حتی کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبہ حج میں ہی بات ارشاد فرما کر صحابہ کرام سے پوچھا تھا کہ تم لوگ میرے بارے کیا شہادت دو گے تو سب نے عرض کیا کہ آپ نے پہنچانے کا حق ادا کردیا تو آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر تین بار فرمایا اللھم اشہد اے اللہ گواہ رہنا۔ جب انبیا علیہم الصلوۃ والسلام سے پرسش ہوگی اگرچہ سب نے پوری پوری محنت کی تو بھلا جن کی طرف نبی بھیجے گئے وہ کیسے بچ سکیں گے کہ ان میں سے اکثر نے بات سننا بھی گوارا نہ کیا لہذا اس بات کی پوری تحقیق ہوگی اور چھوٹے سے چھوٹا کام جو لوگوں کو یاد بھی نہ ہوگا۔ اللہ کریم فرماتے ہیں ہم یاد دلائیں گے ہم کہیں غیر حاضر تو نہ تھے تم نے جو کچھ کیا اللہ کے روبرو کیا اور ہر بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ آج دار دنیا میں تو سمجھتے ہو کہ جابر یا دولت مند کا پلہ بھاری ہے اقتدار سے خائف رہتے ہو یا مل جائے تو ناز کرتے ہو مگر اس دن ٹھیک ٹھیک تول کیا جائے گا انسانوں کا ان کے عقاید اور اعمال کا ہر چیز میزان میں رکھ دی جائے گی پورے پورے انصاف کے ساتھ یعنی اعمال کو مھض اس لیے آسان نہ جانو کہ ان کا کوئی جرم ہی نہیں یا یہ مجسم تو ہیں نہیں پھر ان کا وزن کیسا اللہ قادر ہے یہ بھی مجسم ہوں گے انہیں جسم عطا کرنے پہ بھی قادر ہے اور بغیر جسم دئیے کیفیات کو لینے پر بھی قدرت رکھتا ہے لہذا ایک پلڑے میں نافرمانیاں اور ایک پلڑے میں اطاعت رکھ دی جائے گی جس کی اطاعت کا پلڑا بھاری ہوگا وہی کامیاب ہوگا اگر نیکی کا پلڑا ہلکا اور گناہ کا بھاری ثابت ہوا تو بقدر گناہ جہنم میں جانا ہوگا جو بہت بڑا نقصان ہے کہ ناروا طریقے اختیار کرکے دولت یا شہرت و اقتدار حاصل کیا تھا تو وہ بھی گیا اور جہنم کی مصیبت اس کے سوال گلے پڑی اس نقسان کا بنیادی سبب یہی آیات الہی کا انکار ہے کفر تو گناہ ہی ایسا ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی سرے سے اپنا وجود ہی نہیں رکھتی لہذا ہمیشہ دوزخ کو سدھارے گا سوائے اس کے اللہ کریم رحم کردے کہ ایمان رحمت کا محل تو ہے۔ مفسرین نے یہاں مختلف اعمال کی فضیتل ترازو میں ان کا بھاری ہونا اور تولنے کی کیفیت کافی بحث فرمائی ہے۔ لہذا ایمن ہو تو امید نجات بھی ہے اگر جہنم جانا پڑا تو بھی ہمیشہ تو نہ رہے گا اور کفر ہمیشہ کی مصیبت ہے۔ چاند پر یا دوسرے سیاروں پر آبادی : دیکھو ہم نے زمین میں تمہار اٹھکانہ بنا دی اور اس میں تمہاری ضرورت کی ہر شے مہیا کردی اس سے واضح ہے کہ انسان کی قدرتی حیات کے اسباب کرہ ارض پر ہی ہیں چاند پر اگر آباد ہونا چاہے یا کسی دوسرے سیارے پر تو زندگی کے اسباب یہاں سے لے کر جائے گا حتی کہ غذا کے علاوہ ماحول موسم اور فضا تک یعنی آکسیجن تک زمین سے جائے گی تو پھر وہاں رہنا کس قدر دشوار اور غیر طبیع ہوگا یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ وہاں نسل چل سکے گی کاش یہ اربوں ڈالر جو وہاں جانے کے لیے خرچ ہو رہے ہیں زمین ہی پر انسان کی بہتری کے لیے صرف ہوتے۔ اتنی بیشمار نعمتوں کے باوجود بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شکر ادا کرتے ہیں یعنی اطاعت اختیار کرتے ہیں۔
Top