بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 1
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
الف ‘ لا ‘ میم ‘ صاد ( حروف مقطعات۔ ان حروف کے معنی اور مراد کا علم اللہ کو ہے)
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 5 : لایکن ( نہ ہوں) حرج (تنگی) لاتتبعوا ( تم پیروی نہ کرو) من دونہ (اس کے سوا) تذکرون ( تم دھیان دیتے ہو) کم ( کتنے ۔ کتنی) باسنا ( ہمارا عذاب) بیات ( رات کو) قائلون ( دوپہر کو سونے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 : قرآن حکیم کی ترتیب کے لحاظ سے سورة اعراف ساتویں بڑی سورت ہے جو ہجرت مدینہ سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی اس سورة کے مضامین کا خاص رخ مکہ مکرمہ کے ان مشرکین اور کفار کی طرف ہے جنہوں نے حق و صداقت کی آواز کو دبانے کے لئے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی جب ہم سورة الانعام اور سورة الاعراف کے مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں ہجرت مدینہ سے کچھ ہی عرصے پہلے ایک کے بعد ایک نازل ہوئی ہیں کیونکہ دونوں کی آیات کا رخ مکہ مکرمہ کے مشرکین اور کفار کی طرف ہے۔ سورة الانعام میں توحید اور اللہ کی وحدانیت پر زور ہے جبکہ سوۃ الاعراف میں توحید کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پیغام رسالت اور آپ کی شان کے متعلق ارشادات موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید و رسالت ہی وہ سچائی ہے جس کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء کرام علیھم السلام اور ان کے جاں نثاروں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس پیغام کو پہنچانے میں انہوں نے حالات کی ‘ قوم کے افراد کی اور ان کے جاں نثاروں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس پیغام کو پہنچانے میں انہوں نے حالات کی ‘ قوم کے افراد کی اور حکومت و سلطنت اور اس کی طاقت کی پرواہ نہیں کی۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی جب اس پیغام حق و صداقت کو مکہ مکرمہ کے رہنے والوں تک پہنچانے کی بھر پور جدوجہد کی تو ابتدا میں کفار و مشرکین نے اس کو بےحقیقت سمجھ کر نظر انداز کردیا اور بات مذاق اڑانے اور پھبتایں کسنے کی حد تک محدود رہی لیکن جب اس سچائی کی تحریک نے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کردیا تو کفار مکہ اور مشرکین نے آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ پر مخالفت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی زیادتیاں اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک ہر طرح کی مخالفت اور ظلم وستم کی وہ انتہا کردی جس کے تصور سے بھی روح کا نپ اٹھتی ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ نے استقلال اور صبر و تحمل کا پیکر بن کر ہر ظلم وستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کفار کے مقابلے میں عزم و ہمت کا پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی عزم و ہمت کے سامنے پہاڑ بھی ریت کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ پھر بین ان مٹھی بھر اہل ایمان کا سارے عرب کے ساتھ مقابلہ کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں تھا۔ بشری تقاضا ہے کہ کبھی کبھی انسان حالات کے سامنے بےبس سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وقت کسی بھی تحریک کلئے بہت نازل ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب سورة الاعراف نازل ہوئی جس میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ سے فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی ﷺ حالات کی سنگینی میں دل کا تنگ ہوجانا ‘ گھبرا اٹھنا اور دھمکیوں سے متاثر ہوجانا ایک فطری اور بشری تقاضا ہے لیکن آپ ہر طرح کی انسانی حمایت سے بےنیاز ہو کر صرف اس پیغام حق کی پیروی کیجئے جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ آپ اس پیغام حق کو بےخوف و خطر پہنچانے کی کوشش کیجئے اور بس۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اللہ خود ہی اس دین کا محافظ ہے۔ سورۃ الا عراف کی ابتدائی پانچ آیات میں سب سے پہلے نبی کریم ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان حالات میں کوئی تنگی اور گھٹن محسوس نہ کیجئے۔ آپ اپنے فرض کی ادائیگی میں لگے رہئے جن لوگوں کے مقدر میں ایمان کی سعادت لکھی ہے وہ اس پر دھیان دینگے اور آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے اور جن کے مقدر میں دولت ایمانی سے محرومی ہے ان کے لئے آپ کچھ بھی کیجئے وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کو ایمان کی روشنی تک نصیب نہ ہوگی نبی کریم ﷺ کے بعد تمام اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ جو کچھ اللہ کا یہ پیغام نازل کیا جارہا ہے اس پر دھیان دیں اس کو اپنے دلوں کا نور بنالیں اور ان لوگوں کی پرواہ نہ کریں جو اس پیغام حق کی طرف دھیان نہیں دیتے کیونکہ سچائی کی طرف بہت کم لوگ متوجہ ہوا کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے بعد اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کو گواہ بنا کر فرمایا ہے کہ گذری ہوئی قوموں کا حال سامنے رکھو۔ ان کے حالات پر نگاہ رکھو کہ جب بھی انبیاء کرام علیھم السلام پیغام حق لے کر آئے تو ان پر بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کئے گئے لیکن جب ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی تو پھر اللہ کا فیصلہ اس وقت آگیا جب کہ وہ رات کو یا دن کو مدہوش اور بیخبر نیند کی لذتوں میں مست تھے۔ فرمایا کہ جب تمہارے رب کا یہ فیصلہ آجاتا ہے تو پھر ظالم خود ہی پکار اٹھتے ہیں کہ واقعی ہم تو ظالم تھے ‘ ہم سے بہت زیادتی ہوئی۔ مگر اللہ کا فیصلہ آنے کے بعد کسی کے پچھتانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ان آیات میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ سے فرمایا جارہا ہے کہ اللہ کا قانون کبھی بدلتا نہیں ۔ آج کفار و مشرکین کے لئے وقت ہے کہ وہ گذشتہ قوموں کی زندگی سے عبرت حاصل کرلیں ورنہ جب اللہ کا فیصلہ آجائے گا تو پھر ان کے راحت و آرام اور مال و دولت کی بدمستی ان کے کام نہ آسکے گی۔ 1) سچائی کے پیغام کا ہی حق ہے کہ اس کو پوری دیانت و امانت سے اللہ کے بندوں تک پہنچادیاجائے اس راستے میں خوف کرنے ‘ اور ناکامی کے خوف سے ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پیغام حق ” کو پہنچانا یہ وہ کانٹوں بھر اراستہ ہے جہاں ہر اٹھنے والا قدم زخمی ضرور ہوتا ہے۔ اس راستے میں ہر ملامت کرنے والے کی کی ملامت اور دھمکیاں دینے والوں کی دھمکیوں سے بےنیاز ہو کر آگے بڑھنا ہے یہ وہ راستہ ہے جہاں عشق کو آتش نمرود میں بےدھڑک کود جانا پڑتا ہے۔ (2) تبلیغ دین کی تیکنیک یہ ہے کہ اللہ کے اس ابدی اور سچے پیغام کو ان لوگوں تک پہنچاتے رہنا چاہیے جو ایمان لاچکے ہیں تاکہ ان کا ایمان تازہ اور مضبوط رہے۔ لیکن ان سے بھی غافل نہ رہنا چاہیے جو ابھی تک ایمان کی روشنی سے محروم ہیں۔ (3) اس دین کی سچائی کو پہنچانے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اللہ نے جس شخص کو اس دین کی سچائی کو پھیلانے کی سعادت عطا فرمادی ہو اس کی زندگی ‘ عمل اور کردار دوسروں کے لئے مینارہ نور ہو۔ وہ اس عمل کی سچی تصویر ہو محض گفتار کا غازی نہ ہو بلکہ کردار کا بھی غازی ہو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ دنیا کو بتادے کہ جب اس نے دین کا راستہ اختیار کرلیا ہے تو اس نے اللہ اور رسول سے اپنا سب سے بڑا رشتہ قائم کرلیا ہے۔ اب اس رشتے کے سامنے ہر دوستی ‘ رشتہ ‘ تعلق اور قرابت داری ایمان کی عظمتوں پر قربان ہے۔ اس کے لئے نبی کریم ﷺ صحابہ کرام ؓ اور بزرگان دین کی زندگی بہتر ین نمونہ ہے جنہوں نے اس رشتے کے سامنے کسی بھی رشتے اور تعلق کی پرواہ نہیں کی اور اپنا سب کچھ قربان کردینے کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم فرمائیں۔
Top