بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-A'raaf : 1
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
المص
آیت 1 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیٰ ﷺ سے قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : (کتب انزل الیک) ” یہ کتاب اتاری گئی ہے آپ پر ‘ یعنی یہ نہایت جلیل القدر کتاب جو ان امور پر مشتمل ہے جن کے بندے محتاج ہیں اور اس میں تمام مطالب الہیہ اور مقاصد شرعیہ محکم اور فمصل طور پر موجود ہیں (فلایکن فی صدرک حرج منہ) ” پس آپ کا سینہ اس (کے پہنچانے) سے تنگ نہ ہو “ یعنی آپ کے دل میں کوئی تنگی اور شک و شبہ نہ ہو۔ تاکہ آپ جان لیں کہ یہ حکمت والی اور قابل تعریف ہستی کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب سے سچا کلام ہے۔ (لایتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ) (حم السجدہ :62/31) ” باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے “۔ اس لئے آپ کے سینے کو کشادہ اور آپ کے دل کو مطمئن ہونا چاہیے۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہیکو کھول کر بیان کیجیے اور کسی کی ملامت اور مخالفت یس نہ ڈریئے۔ (لتذربہ) ” تاکہ آپ اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈرائیں۔ “ اس کتاب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ڈرائیے اور ان کو وعظ و نصیحت کیجیے۔ پس اس طرح معاندین حق پر حجت قائم ہوجائے گی۔ (وذکری المومنین) ” اور اہل ایمان کے لئے یاد دہانی ہوگی۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وذکر فان الذکری تنفیع المومنین) (الذاریات :55/51) ” نصیحت کیجیے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔ “ اہل ایمان کو اس کے ذریعے سے صراط مستقیم، ظاہری اور باطنی اعمال کی یاد دہانی ہوگی اور ان امور کے بارے میں بھی یاد دہانی ہوگی جو بندے اور اس کے سلوک کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو اپنی کتاب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا : (اتبعوا ما انزل الیکم) ” پیروی کرو اس چیز کی جو اتاری گئی تمہاری طرف “ یعنی اس کتاب کی جو میں تمہاری خاطر نازل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں (من ربکم) ” تمہارے رب کی طرف سے “ جو تمہاری تربیت کی تکمیل چاہتا ہے اس مقصد کے لئے اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، اگر تم اس کتاب کی پیروی کرو گے تو تمہاری تربیت مکمل ہوجائے گی، تم پر اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری ہوجائے گی اور تمہیں بہترین اور بلند ترین اعمال کی رف راہنمائی نصیب ہوگی۔ (ولا تتبعوا من دونہ اولیآء) ” اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو۔ “ یعنی تم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو دوست نہ بناؤ، جن کی خواہشات کی تم پیروی کرو اور ان کی خاطر تم حق کو چھوڑ دو (قلیلاً ما تذکرون) ” تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو “ اگر تم نصیحت حاصل کرلیتے اور مصلحت کو پہچان لیتے تو تم ضرر رساں چیز کو نفع بخش چیز پر اور دشمن کو دوست پر کبھی ترجیح نہ دیتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سزاؤں سے ڈرایا ہے جو اس نے ان قوموں کو دیں جنہوں نے اپنے رسولوں اور ان کی دعوت کو جھٹلایا۔ پس وہ ان کی مشابہت اختیار نہ کریں۔ (وکم من قریۃ اھلکنھا فجآء ھاباسنا) ” اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کردیں، پس آیا ان کے پاس ہمارا عذاب “ یعنی ہمارا سخت عذاب ان پر نازل ہوا (بیاتا اوھم قائلون) ” راتوں رات یا دوپہر کو سوتے ہوئے “ یعنی ہمارا عذاب ان کی غفلت کی حالت میں نازل ہوا۔ جبکہ وہ خواب غفلت کے مزے لے رہے تھے اور ہلاکت کا ان کے دل میں کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اپنے آپ کو عذاب سے نہ بچا سکے اور ان کے وہ معبود بھی ان کے کوئی کام نہ آسکے جن سے انہیں بڑی امیدیں تھیں اور وہ جن گناہوں اور ظلم کا ارتکاب کیا کرتے تھے، انہوں نے ان پر نکیر بھی نہیں کی۔ (فما کان دعوھم اذ جآء ھم باسناً الا ان قالوا انا کنا ظلمین) ” جب ان کو ہمارے عذاب نے آلیا تو ان کی پکار اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم ظالم تھے۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا جو ظالم تھیں اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کو پیدا کیا۔ پس انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو لگے اس سے بھاگنے۔ اب نہ بھاگو۔ ان نعمتوں کی طرف لوٹو جن کے تم مزے لوٹا کرتے تھے اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ۔ شاید تم سے پوچھا جائے، کہنے لگے ہائے ہماری ہلاکت ! بیشک ہم ہی ظالم تھے۔ وہ اس طرح پکارتے رہے اور ہم نے انہیں کھیتی کی طرح کاٹ کر ڈھیر کردیا۔ “ (فلنسئلن الذین ارسل الیھم) ” ہم ان قوموں سے ضرور پوچھیں گے جن کی طرف ہم نے انبیا ومرسلین کو مبعوث کیا تھا “ کہ انہوں نے اپنے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا۔ (ویوم ینادیھم فیقول ما ذا اجبتم المرسلین) (القصص :65/68) ” اور جس روز وہ (اللہ) انہیں پکار کر کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا ؟ “ (ولنسئلن المرسلین) ” اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے۔ “ یعنی ہم رسولوں سے ان کے رب کے پیغام کو پہنچانے کے بارے میں ضرور پوچھیں گے اور یہ بھی ضروری پوچھیں گے کہ ان کی امتوں نے کیا جواب دیا۔ (فلنقصن علیھم) ” پھر ہم ان کے حالات بیان کریں گے۔ “ یعنی ہم تمام مخلوق کو بتائیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے تھے (بعلم) ” اپنے علم سے “ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتائے گا (وما کنا غآئبین) ” ہم کسی بھی وقت غیر موجود نہ تھے۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (احصہ اللہ ونسوہ) (المجادلہ 6/58) ” اللہ نے ان کے تمام اعمال کو محفوظ رکھا ہے اور وہ بھول گئے ہیں۔ “ اور فرمایا (ولقد خلقنا فوقکم سبع طرآئق وما کنا عن الخلق غفلین) (المومنون :18/23) ” ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان پیدا کئے اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں۔ “
Top