بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 1
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
المص۔
الٓمّٓصٓ۔ کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہٗ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (الاعراف : 1، 2) (المص۔ یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے تو اس کے باعث تمہارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو ‘ تاکہ تم اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہوشیار کردو اور اہل ایمان کے لیے یاددہانی ہے) مخالفتوں کے ہجوم میں آنحضرت ﷺ کو تسلی اور آپ کی دعوتی ذمہ داری کی حد اس آیت کریمہ میں حرج کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لغت میں حرج اس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پا کر آدمی کا دل آگے بڑھنے سے رکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ (الحجر : 97) (اے محمد ﷺ ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو) یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد ‘ ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کا یہ حال ہے انھیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌم بَعْضَ مَا یُوْحٰیٓ اِلَیْکَ وَ ضَائِقٌم بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہٖ کَنْزُ اَْ جَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ (ھود : 12) (تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جا رہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا) حرج کے معنی کی اس وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں پروردگار آنحضرت ﷺ کو جس حرج سے بچانا چاہتے ہیں وہ اس وقت کے حالات کی پیدا کردہ وہ صورت حال ہے جس سے آنحضرت ﷺ دوچار تھے قریش مکہ کی جانب سے روز بروز مخالفت میں شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسلامی قوت کو بالکل کچل دینے کے لیے تیاری کر رہے ہیں انھوں نے اپنے دل تو اس دعوت کی طرف سے بند کر ہی لیے تھے ان کا گردو پیش بھی ان کے رویے سے متاثر ہو رہا تھا جس کے نتیجے میں طائف میں حضور کو جو صورت حال پیش آئی وہ اسلامی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں حضور کی طبیعت میں بار بار ایک انقباض طاری ہوتا اور ایک اضطراب پیدا ہوتا تھا کہ ایسی بےپناہ مخالفتوں کے نرغے میں آخر یہ دعوت کس طرح کامیابی کا سفر جاری رکھ سکتی ہے اور میں ایک آخری رسول ہونے کی حیثیت سے نوع انسانی کی حالت کو بدلنے کا جو ارادہ رکھتا ہوں اس کے آخر امکانات کس طرح پیدا ہوسکتے ہیں۔ جبکہ بظاہر حالات میں اس کی کوئی گنجائش نظر نہ آتی تھی۔ آپ کو تسلی دیتے ہوئے پروردگار آیت کے پہلے حصے میں یہ فرما رہے ہیں کہ اے پیغمبر آپ نے پیغمبری خود مانگ کے نہیں لی یہ کتاب آپ پر آپ کی خواہش پر نہیں اتاری جا رہی اور جو ذمہ داریاں آپ پر عائد کی گئی ہیں آپ نے خود ان کی کبھی طلب نہیں کی جب یہ سب کچھ آپ کا خود اختیار کردہ نہیں ہے تو آخر اس کی تمام ذمہ داریاں آپ کے سر کیسے ہوسکتی ہیں اللہ نے خود آپ کو نبوت اور پیغمبری عطا فرمائی ہے وہی آپ پر یہ کتاب اتار رہا ہے اسی نے آپ کو اس کتاب کی تبلیغ و دعوت کے کام پر مامور کیا ہے اب اس راستے میں اگر ایسی رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں جس سے اس دعوت کے ناکام ہوجانے کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں تو اس کے لیے آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ اللہ کا دین ہے اسی نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کے پہنچانے کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے۔ اسی نے آپ کو اس کام کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اس لیے اس کام کے راستے میں حائل ہونے والے مشکلات کی فکر اگر ہونی چاہیے تو اسے ہونی چاہیے آپ کا کام تو ایک ذمہ داری ادا کرنا ہے اور اپنی ہمت کے مطابق انجام دینا ہے اگر اس کے بعد بھی یہ کام آگے نہیں بڑھتا تو آپ تو ہرگز اس کے ذمہ دار اور مکلف نہیں کیونکہ جس طرح نبوت آپ کو اللہ نے عطا کی ہے اسی طرح اس کے وسائل پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ اسی کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ناممکن حالات کو ممکن بنائے اور اس کے لیے ایسا کام کرنا کوئی مشکل کام نہیں جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا تو وہ اپنی قدرت سے ان بند راستوں کو کھول دے گا۔ آپ کو فکر اس بات کی تو ضرور ہونی چاہیے کہ آپ اللہ کے دین کی دعوت کو کس طرح بندوں تک پہنچائیں لیکن اس کے لیے امکانات پیدا کرنا یا اس راستے میں پیدا ہونے والے خدشات سے فکرمند ہونا یہ ہرگز آپ کا کام نہیں یہ اسی کا کام ہے جس نے آپ کو یہ کام سونپا ہے کیونکہ ؎ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِجہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا اس طرح سے آپ کو ایک تسلی دی جا رہی ہے اور آپ کے پریشاں دل پر اطمینان اور سکینت کا مرہم رکھا جا رہا ہے۔ یہی وہ اطمینان افزا آیات تھیں جن کے نزول سے اللہ کے نبی کو حوصلہ ملتا تھا اور آپ وہ کام کر گزرتے تھے جو بظاہر انسانی ہمت سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اسی سلسلے میں دوسری فکر جو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کو متأثر کرتی اور اندر ہی اندر آپ کو مضمحل کرتی رہتی تھی وہ یہ شدید احساس تھا کہ لوگ اگر ایمان نہیں لا رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میری کاوشوں میں اور میری تبلیغ و دعوت میں کوئی کمی ہو۔ کہیں میرے انذار و ابلاغ میں کوئی ایسی کوتاہی ہو جس کی وجہ سے لوگ متأثر نہیں ہو رہے ہوں چناچہ اس تصور کے پیش نظر جیسے جیسے قریش مکہ کا آپ کی دعوت کی طرف سے انکار بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے آپ کی یہ پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ چناچہ آیت کے دوسرے حصے میں آپ کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ آپ اللہ کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں آپ کا کام یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کو ٹھیک ٹھیک اس کے بندوں تک پہنچا دیں اور اس تبلیغ و دعوت میں آپ کی طرف سے کوئی تساہل ہونا چاہیے اور نہ کوئی کمی ہونی چاہیے رہی یہ بات کہ لوگ آپ کی دعوت پر ایمان کیوں نہیں لاتے تو آپ کی ہرگز یہ ذمہ داری نہیں کیونکہ آپ کا کام لوگوں تک دین پہنچانا ہے ان سے منوانا نہیں دل و دماغ اللہ کے قبضے میں ہے وہ جب چاہے اور جدھر چاہے انھیں پھینک سکتا ہے لیکن اس نے چونکہ انسان کو اختیار کی آزادی دے رکھی ہے اس لیے جب تک کوئی شخص اپنے اختیار سے دین کی طرف میلان اختیار نہیں کرتا اور اس دعوت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا نہیں فرماتے اس لحاظ سے یہ بات قریش مکہ کے سوچنے کی ہے کہ اللہ کے رسول جیسی دل آویز شخصیت اور آپ کی لسان نبوت سے ہدایت کا ابلتا ہوا سرچشمہ اور آپ کا بےمثال فصاحت و بلاغت لیے ہوئے پیغام اگر ان پر اثر انداز نہیں ہو رہا تو یہ تو ان کی فکر مندی کی بات ہے کہ یقینا ان میں کوئی خرابی ہے اور ان کے مزاجوں میں کوئی ٹیڑھ پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ اس دعوت سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ آپ کو اس سے ہرگز فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ کا کام انذار ہے اور اس میں بفضلہ تعالیٰ آپ نے کبھی کوئی کمی نہیں کی اس کے لیے آپ نے زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کیا ہے اور اپنی صلاحیتوں کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لا رہے تو اس آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن کریم تو ایک نصیحت ہے جو صرف اس آدمی کو نصیب ہوتی ہے جو ایمان لانے کے ارادے سے اس کی طرف بڑھتا ہے کیونکہ نصیحت تو اس دل میں دھیرے دھیرے اترتی ہے جو دل اپنے دروازے اس کے لیے کھولتا ہے اور جو اپنے کواڑ بند کرلیتا ہے غیور خدا کا یہ غیرت مند دین کبھی اس کے دروازے کا راستہ اختیار نہیں کرتا۔ یہ مکہ کے لوگ چونکہ اپنے اندر تبدیلی کا ادنیٰ سا ارادہ بھی پیدا نہیں کرسکے اور وہ اپنی جہالت کو نہ صرف کہ چھوڑنا نہیں چاہتے بلکہ انھیں اس پر ایک طرح سے ناز ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ انھیں کیونکر ہدایت عطا فرما سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اگر ایمان نہیں لائے تو اس کی ذمہ داری ان پر ہے آپ پر نہیں۔ اس لیے آپ اطمینان رکھیں ان کے ایمان نہ لانے کی باز پرس آپ سے ہرگز نہ ہوگی۔ اس لیے آپ کو پورے انشراح صدر سے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے جس پروردگار نے آپ کو نبوت عطا فرمائی ہے وہ یقینا راستے کی مشکلات سے باخبر ہے پھر وہ ان کو دور کرنے پر چونکہ قادر بھی ہے اس لیے جب وقت آئے گا تو وہ ان موانع کو خود دور فرما دے گا۔ اس تمہید کے بعد اگلی آیت کریمہ میں اصل بات کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
Top