بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 1
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
المص
حروف مقطعات اس سورة مبارکہ کی ابتداء حروف مقطعات المص ہ سے کی گئی ہے ان حروف کے معانی کے متعلق مفسرین نے مختلف تاویلات پیش کی ہیں تاہم یقین کے ساتھ ان کے معانی کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا تفسیر جلالین میں علامہ جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ ان حروف کے متعلق اسی حد تک اعتقاد رکھنا چاہیے اللہ اعلم بمرادہ بذالک (امنا و صدفنا) ان کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں اور اسی کی تصدیق کرتے ہیں لہٰذا ان حروف کے معانی و مطالب کے سلسلے میں یہی طریقہ اختیار کرنا زیادہ اسلم ہے تاکہ انسان گمراہی اور فتنے سے بچ سکے تاہم امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اپنے ذوقی اور الہامی طریقے سے ان حروف کی تشریح اس طرح کی ہے کہ الف کا اشرہ کسی اسم یا حقیقت کی طرف ہوگا لہٰذا اسے ہم اللہ کی طرف منسوب کرسکتے ہیں لام کا اشارہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سمجھ سکتے ہیں اور م سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہوسکتے ہیں گویا یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل (علیہ السلام) کی وساطت سے حضرت محمد رسو اللہ ﷺ کے پاس نازل ہوا اب ص کا اشارہ یا تو صورت کی طرف ہوسکتا ہے یا صعود بمعتی بلندی کی طرف ، گویا اس کتاب میں وہ پروگرام پیش کیا گیا ہے جو انسان کو عالم بالا کی طرف لے جاتا ہے بہرحال بعض مفسرین نے اس قسم کی تشریح محض تفہیم کے لیی کی ہے تاکہ بعض کمزور اذہان میں فتور نہ آنے پائے ، وگرنہ اصلیت یہی ہے کہ ان حروف کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ نزول کتاب اور تسلی ارشاد ہوتا ہے کتب یہ ایک کتاب ہے انزل البیک جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے فلا یکن فی صدرک حرج منہ پس آپ کے سینے میں اس کی وجہ سے تنگی نہیں ہونی چاہیے ظاہر ہے کہ جب حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے اسلام کی دعوت پیش کی تو لوگوں نے ضد اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے آپ کے دل میں گھٹن پیدا ہوتی تھی اور آپ کو تنگی محسوس ہوتی تھی آپ اکثر خیال فرماتے کہ لوگ ہماری دعوت کی طرف توجہ نہیں دیتے کیا یہ ہماری سات سن کر سمجھ بھی سکتے ہیں یا نہیں اور پھر اسے کس حد تک قبول کرتے ہیں عربوں کی طرسے حضور کو بڑی تکالیف پہنچیں آپ سوچتے رہتے تھے کہ گھر کے لوگ ہی نہیں مانتے ، باقی اقوام عالم کا کیا بنے گا اس طرح آپ کے قلب مبارک میں گھٹن پیدا ہوتی تھی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ آپ تنگی محسوس نہ کریں بلکہ آپ اپنا کام جاری رکھیں خدا تعالیٰ اس پروگرام کو ضرور کامیاب کرے گا اسی طرح کی تسلی سورة انشراح میں بھی ہے الم نشرح لک صدرک کیا ہم نے آپ کے سینہ مبارک کو کھول نہیں دیا ووضعنا عنک وزرک اور آپ کے بوجھ کو ہلکا نہیں کردیا ؟ بعض مفسرین تنگی سے شک اور ترددمراد لیتے ہیں یعنی یہ پروگرام جو اللہ نے نازل فرمایا ہے یہ بالکل برحق ہے اس کی کامیابی میں کسی قسم کا شک یا تردد نہیں ہونا چاہیے دوسرے مقام پر موجود ہے فلا تکونن من الممترین (الانعام) آپ شک نہ کریں یہ سو فیصدی قطعی اور برحق پروگرام ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو ہدایت دینا چاہتا ہے۔ کتاب کی عرض و غایت فرمایا نزول کتاب کا مقصد یہ ہے لنتذربہ کہ آپ اس کے ذریعے کفر ، شرک اور معاصی کا ارتکاب کرنے والوں کو ڈرائیں جس قدر برائیوں کی کثرت ہے اسی قدر انذار کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہی پوری دنیا میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں کل پانچ ارب کی آبادی میں سے ایک ارب لوگ بھی ایمان دار نہیں ہیں غالب اکثریت فسق و فجور ، غلط عقائد اور غلط اعمال کی پیرو کار ہے ہر نبی بشیر اور نذیر ہوتا ہے وہ ہر ایمان والے نیکو کار کو کامیابی کی بشارت سناتا ہے اور غلط کار کو اس کے برے انجام سے ڈراتا ہے اہل ایمان کے لیے تو فرمایا ان لھم قدم صدق عند ربھم (سورۃ یونس) ان کے رب کے پاس ان کے لیے سچائی کا قدم ہے اور فلاح و کامیابی ان کے مقدر میں ہے مگر اکثر لوگ چونکہ گمراہ ہیں اور شیطانی کاموں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اس لیے ان کا انذاز بھی ضروری ہے انذاز کی اسی صورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر انذاز کو مقدم رکھا ہے کہ آپ اس قرآن کے ذریعے لوگوں کو ڈرائیں اور نزول کتاب کی دوسری غرض یہ ہے کہ وذکری للمومنین یہ کتاب اہل ایمان کے لیے نصیحت بن جائے گویا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے دو مقصد بیان فرمائے ہیں ایک نافرمانوں کو ڈرانا اور دوسرا اطاعت گزاروں کے لیے باعث نصیحت ہونا۔ اتباع کتاب فرمایا اتبعو ما انزل الیکم من ربکم اے انسانو ! اتباع کرو اس چیز کی جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے رب تعالیٰ کی طرف سے اس کی ربوبیت عامہ کے تقاضے کے تحت تمہاری فلاح و کامیابی کے لیے جو ہدایت ، دین ، شریعت ، قانون اور دستور نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو ، دوسرے مقام پر فرمایا واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً (آل عمران) یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو یہ اللہ کا دیا ہوا پروگرام ہے اس کے علاوہ کسی ملت ، قوم یا ملک کا قانون ہو وہ باطل ہے روس ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور چین کے دساتیر سب غلط ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نازل کردہ قانون پر چلنے کا حکم دیا ہے حضور ﷺ نے اسے حبل اللہ المتین قرار دیا ہے کہ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے جو اللہ نے عالم بالا سے زمین پر لٹکائی ہے جو اس کو پکڑ لے گا وہ نجات پا جائے گا۔ ولاتتبعوا من دونہ اولیاء … اور نہ اتباع کرو اس کے سوا دو سے رفیقوں کی یعنی جو شخص کتاب اللہ کے ماسوا کسی دوسری چیز سے رہنمائی حاصل کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا اور جو اس کتاب کے مقابلے میں اکڑ دکھائے گا خدا تعالیٰ اس کی گردن توڑ دے گا آج کل ڈیمو کریسی کا پروگرام ہو یا اشراکیت کا یا سرمایہ داری کا سب کے سب باطل ہیں شہنشاہیت اور ملوکیت کے پروگرام بھی غلط ہیں فرمایا ان کا اتباع مت کرو ، یہ تمہیں گمراہی کی طرف لے جائیں گے۔ اصحاب اعراف اصحاب اعراف کا ذکر اس سورة کے پانچویں رکوع میں آتا ہے حضرت مولانا امام شاہ ولی محدث دہلوی (رح) اور مولانا عبید اللہ سندھی (رح) نے اعراف پر تھوڑا سا کلام کیا ہے فرماتے ہیں کہ جو لوگ قرآن پاک کو براہ راست سمجھ کر اس پروگرام پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور پھر اس کو آگے لیجاتے ہیں وہ مومن ہیں اور سابقین ہیں جو لوگ اس پروگرام کو براہ راست تو نہیں سمجھ سکتے تاہم کسی ہادی ، رہنما یا پیشوا کے واسطے سے سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں وہ اصحاب یمین کہلاتے ہیں اور جو شخص اس پروگرام کو پاکر اس کا انکار کردیتا ہے وہ کافروں میں شمار ہوتا ہے فرمایا اس کے علاوہ جتنے گروہ بھی ہیں وہ سب اصحاب اعراف ہیں۔ قرآن سے غفلت اسلام کے ابتدائی دور میں ہدایت کا مرکز مکہ اور مدینہ تھا اس کے بعد حضرت علی ؓ عراق تشریف لے گئے خلافت راشدہ کے بعد مرکز اسلام شام بنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ (بغداد) بخارا اور خراسان کو اسلام کی مرکزیت حاصل ہوئی قاہرہ بھی دین کا مرکز ہوا اور پھر ہندوستان میں دہلی کو بھی یہ شرف حاصل ہوا مگر اب دنیا میں اس پروگرام کو اگے بڑھانے والے لوگ بالکل کمزور ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے دین اسلام کی تبلیغ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور یہ قرآن پاک سے غفلت کا نتیجہ ہے مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن پاک سے غفلت پوری نبی نوع انسان کے لیے تباہ کن ہے یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے ہر خطے کے لوگ طرح طرح کے مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ حضرت مولانا شیخ الہند (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے قوم کی تباہی دو چیزوں میں دیکھی ہے ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ بندی ، آپ دونوں چیزوں کے سخت خلاف تھے قرآن کو پس پشت ڈال دینا اور اس سے کوئی رہنمائی نہ حاصل کرنا بڑی بدقسمتی کی بات ہے اس زمانے میں اکثر و بیشتر مسلمانوں کا تعلق قرآن پاک سے محض رسمی عزت و احترام تک رہ گیا ہے اس کو ریشمی غلاف میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے اس کی طرف پشت نہیں کی جاتی یا ایصال ثواب کے لیے اس کی تلاوت کرلی جاتی ہے مگر اس کو سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا مفقود ہوتا جارہا ہے اسی طرح فرقہ بندی کی وباء عام ہوچکی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوے ، نعرہ بازی اور بغض وعناد نے قوم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اسی طرح ملوکیت بھی اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی ہے بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں پھلنے بھولنے والی ملوکیت نے اسلام کے پودے کو پنپنے نہیں دیا درمیان میں عمربن عبدالعزیز (رح) ، صلاح الدین ایوبی (رح) ، محمود غزنوی (رح) ، ناصر الدین (رح) اور عالمگیر (رح) جیسے اچھے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس پودے کی آبیاری کی مگر ان کے علاوہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اکثر و بیشتر صاحبان اقتدار جاہ و مال اور عیش و عشرت میں مبتلا رہے ہیں صفین سے پہلے تک تو اسلام کے ساتھ وابستگی رہی ہے مگر اس کے بعد اس پروگرام کو ترک کردیا گیا البتہ اس پروگرام کی حقانیت کی وجہ سے پہلے بھی فرداً فرداً صاحب درد لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں آج بھی ہیں اور آئندہ بھی پیدا ہوتے رہیں گے مگر مسلمانوں میں اجتماعیت کا تصور ختم ہوچکا ہے اس وقت دنیا کی پچاس مسلمان ریاستوں میں سے کوئی بھی اپنے پائوں پر قائم نہیں ہے ہر طرف ذلت اور مردتی چھائی ہوتی ہے شام ، لبنان اور افغانستان کی حالت زار دیکھ لیں۔ ایران اور عراق کی طرف نظر دوڑائیں فلسطینیوں کی جلاوطنی اور ہندوستان کے مسلمانوں کی زبوں حالی ہمارے سامنے ہے کبھی وہ زمانہ تھا کہ دنیا کے کسی ایک خطے میں مسلمان کی جان ضائع ہوتی تھی تو پورا عالم اسلام تڑپ اٹھتا تھا مگر آج کوئی کسی کا پرسان حال نہیں دشمنان دین مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ تو رہے ہیں مگر باقی مسلمان خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) فرماتے ہیں کہ مشرق میں کسی مسلمان کے پائوں میں کانٹا چبھے اور مغرب میں دوسرا مسلمان تڑپ نہ اٹھے تو وہ سچا مسلمان نہیں۔ بہرحال فرمایا اتبع کرو اس چیز کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے تمہارے پروردگار کی جانب سے اور نہ اتباع کرو اس کے سوا دوسرے کارسازوں کا ، مگر ان واضح احکام کے باوجود ۃ لیلاً ما تذکرون بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دن بدن قرآن سے دوری ہوتی جارہی ہے مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ دوسرے کارسازوں سے وہ نام نہاد محقیقین بھی مراد ہیں جو کلام پاک کے غلط معانی اور غلط تاویلیں کرکے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں چناچہ مرزا قادیانی نے یہی کام کیا سرسید اور پرویز بھی یہی کام کرتے رہے ہیں آج ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن پاک کا حقیقی پروگرام دوسری قوموں کے سامنے پیش کرکے انہیں اس طرف راغب کیا جائے مگر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان کہلانے والے خود مسلمانوں کو اس حقیقت سے دور لے جا رہے ہیں۔ بعض قوموں کی ہلاکت ارشاد ہوتا ہے وکم من قریۃ اھلکنھا دنیا میں کتنی بستیاں ہیں جن کے رہنے والوں کو ہم نے ہلاک کردیا انہوں نے نبیوں کی زبان پر اعتماد نہ کیا اور ما انزل الیک کا اتباع نہ کیا بلکہ اپنی من مانی کرتے رہے اور شیطان کے پیچھے چلتے رہے فجاء ھا باسنا بیاتا پھر ہماری سزا ان کے پاس ایسی حالت میں آئی کہ وہ سو رہے تھے اور اچانک ان پر عذاب مسلط ہوگیا اوھم قائلون یا ان کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب کہ وہ دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے لوگ اپنے انجام سے بیخبر محو خواب تھے کہ اللہ کی گرفت آئی اور انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا دنیا میں کتنے طوفان آتے ہیں زلزلے آتے ہیں اور ہنستے بستے گھرانے ملیا میٹ ہوجاتے ہیں ابھی قریب زمانے کا واقعہ کہ پچاس ہزار افراد پر مشتمل آبادی آن واحد میں زلزلے کا نشانہ بنی اور پیوند خاک ہوگئی فرمایا جب ان پر سزا وار ہوگئی فما کان دعوٰھم اذ جاء ھم سانا تو ان کی پکار اس کے سوا کچھ نہ تھی الا ان قالو انا کنا ظلمین کہ انہوں نے کہا کہ بیشک ہم ہی خطا کار تھے یعنی یہ عذاب ہماری ہی کرتوتوں کی وجہ سے آیا ہے جب خدا کی پکڑ آجاتی ہے تو پھر اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ انبیا اور امم سے بازپرس آگے فرمایا سن لو ! فلنسئلن الذین ارسل الیھم ہم ضرور باز پرس کریں گے ان لوگوں سے جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا تھا ان سے دریافت ہوگا کہ تم نے ہمارے رسولوں کی بات کو کیوں نہ مانی ولنسئلن المرسلین اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں تک پہنچایا یا نہیں اگرچہ رسولوں نے دنیا میں اپنا فرض منصبی ادا کردیا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے باز پرس ہونے پر وہ بھی پریشان ہوجائیں گے پر شہادتیں پیش ہوں گی اور اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائیں گے اسی باز پرس کے پیش نظر حضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے فرمایا تھا کہ میرے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے تو سب نے یک زبان ہو کر کہا تھا قد ادیت الامانۃ وبلغت الرسالۃ ونصحت الامۃ یعنی آپ نے پوری امانت ہم تک پہنچا دی پوری پوری تبلیغ کی اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا بہرحال رسولوں اور امتیوں سب سے سوال جواب ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا فلنقصن علیھم بعلم پھر ہم اپنے علم کے ذریعے ان پر بیان کردیں گے یعنی ان کے اعمال کی تفصیلات ان کے سامنے پیش کردیں گے جس سے انہیں مجال انکار نہیں ہوگا اور ایسا ہم اس لیے کردیں گے وما کنا غابین کہ ہم ان سے غائب نہ تھے بلکہ ہمیشہ ان پر نگاہ رکھتے تھے اور ان کی ہر حرکت ہمارے مشاہدے اور علم میں تھی اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر اپنی نگاہ کو مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے کہیں فرمایا واللہ علی کل شی ئٍ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے کہیں فرمایا واللہ بکل شی ئٍ محیط اللہ تعالیٰ ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس کی نظروں سے کوئی چیز مخفی نہیں۔
Top