Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر ہم نے ان کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔ پھر انہوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ تو دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے
لغات القرآن آیت نمبر (103 تا 106 ) ۔ بعثنا (ہم نے بھیجا) ۔ ظلموا (انہوں نے ظلم کیا) ۔ حقیق (سچی بات یہ ہے) ۔ لا اقول (میں نہیں کہتا) ۔ ارسل (بھیج دے ) ۔ معی (میرے ساتھ ) ۔ فات بھا (پھر تو لے آ ) ۔ تشریح : آیت نمبر (103 تا 06ٍ 1 ) ۔ ” حضرات انبیاء کرام حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح (علیہ السلام) ، حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت شعیب علیھم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کی طرف اشاروں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے متعلق ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ فرعون ایک زبردست ڈکٹیٹر اور آمر مطلق تھا جو جاہ و جلال، دولت کی کثرت کے غرور میں اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلواتا تھا اور لوگوں کو حکم دیتا تھا کہ اس کو رب مان کر اس کے سامنے اپنی گردن کو جھکا کرر کھیں۔ فرعون اور اس کے سرداروں نے پیغمبر وقت کا انکار کیا اور بالآخر گناہوں کے سمندر میں اس طرح غرق ہوگئے کہ آج ان کی زندگیاں عبرت کا نمونہ بنی ہوئی ہیں۔ فرعون کسی شخص کا نام نہیں بلکہ مصر کے بادشاہوں کا لقب ہے فراعین مصر کے انیس خاندان گذرے ہیں اور انہوں نے مصر پر تقریباً تین ہزار سال تک حکومت کی ہے ان دنوں ان کی تجارت پوری دنیا سے جاری تھی۔ ایک طرف ایشیا اور افریقہ سے تھی دوسری طرف یورپ اور دیگر ممالک تک ان کی تجارت پھیلی ہوئی تھی۔ ہزاروں سال سے بین الاقوامی تجارت نے فراعنہ مصر کو انتہائی دولت من بنا دیا تھا۔ دوسری طرف وہ عوام کا خون چوسنے سے بھی باز نہیں آتے تھے ایک ہی خاندان کی حکوت نے تمام اقتداران کے ہاتھ میں مرکوز کردیا تھا۔ اور وہ ظلم و ستم اور گرور وتکبر میں انتہا سے زیادہ آگے بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ فرعون ” رب اعلیٰ “ کا دعویٰ کر بیٹھا۔ فرعون کے معنی ہیں ” رع “ کی اولاد اور رغ کے معنی ہیں سورج۔ جس چیز سے انسان سب سے زیادہ خوف زدہ متحیر اور متاثر رہا ہے وہ ہے سورج۔ چناچہ قدیم ترین زمانے سے دنیا کے تمام حصوں میں ” سورج دیوتا “ کی پرستش اور عبادت و بندگی ہوتی چلی آرہی ہے عقلمند بادشاہوں بیوقوف رعایا کو احمق بنانے کے لئے اپنے آپ کو ” سورج بنسی “ یعنی سورج کی اولاد کہلوانا شروع کردیا۔ اور اس طرح حکومت اور تقدس ایک جگہ جمع ہوگئے اور دنیا کے تمام اختیارات کے ساتھ ساتھ روحانی طاقتیں بھی بادشاہوں کے ہاتھوں میں جمع ہوگئیں۔ اور یہ حال صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ ایران، ہندوستان چین اور تقریباً ساری دنیا مین یہی حال تھا۔ مصر میں جب ظلم و ستم اور کفر وشرک کی زیادتی بہت بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت، معجزات اورد یگردلائل نبوت دے کر اس قوم میں مبعوث فرمایا۔ انہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا کیونکہ ہر ملک میں فتنوں اور فسادات کی جڑ وہ خواص ہوا کرتے ہیں جو اقتدار کی کرسیوں پر قبضہ جما کر بیٹھتے ہیں۔ تمام پیغمبران ہی خواص سے معاملہ کرتے اور غریبوں اور بےکسوں کی اصلاح کرتے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سیدھے فرعون کے پاس آئے۔ یہ وہی فرعون ہے جس کے (یا جس کے باپ کے) پاس انہوں نے پرورش پائی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بالکل صاف سیدھے اور سچے لہجے میں یہ فرمایا کہ ” میں رب العالمین “ کی طرف سے نبی بن کر آیا ہوں اور میرے پاس اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ رب العالمین کے لفظ سے فرعون چونک اٹھا کیونکہ وہ تو ” رب اعلیٰ “ کا گھمنڈ اپنی ذات کے لئے رکھتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ بالکل حق اور سچ ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں، میں تجھ سے یہی کہوں گا کہ بنی اسرائیل کو میرے ہمراہ مصر سے لے جانے کی اجازت دیدے۔ یہ اعلان درحقیقت فرعون کے اقتدار پر بھر پور حملہ تھا کیونکہ اس کا سارا اقتدار اور حکومت کا ڈھانچہ تو بنی اسرائیل پر ہی قائم تھا۔ اس کی حکومت نے ” تقسیم کرو اور حکومت کرو “ کے اصول پر مصر کے تمام باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا ” قبطی اور یہودی “ ان میں بنی اسرائیل (یہودی) مظلوم اور محکوم تھے جن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا یہ ان کے غلام تھے جو فرعونیوں کی خفمت کرتے تھے ان سے بہت ادنیٰ اور گھٹیا کام لئے جاتے تھے۔ ان کے بچے ذبح کئے جاتے اور ان کی لڑکیاں اور عورتیں چھین لی جاتی تھیں ہر محنت و مشقت کا کام ان سے لیا جاتا تھا۔ فرعونیوں کی سوچ یہ تھی کہ اگر بنی اسرائیل چلے گئے تو مزروروں کے کام کون کرے گا۔ اس لئے اس نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی نبوت کے دلائل اور معجزات پیش کرو۔
Top