Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 40
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کہاں يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے لیے غُلٰمٌ : لڑکا وَّقَدْ بَلَغَنِىَ : جبکہ مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا وَامْرَاَتِيْ : اور میری عورت عَاقِرٌ : بانجھ قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
زکریا نے کہا اے پروردگار میرے ہاں لڑکا کیونکر پیدا ہوگا کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے خدا نے فرمایا اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
(تفسیر) 40۔:ـ (آیت)” قال رب “ اصل میں یا سیدی تھا اے میرے سردار ! حضرت زکریا (علیہ السلام) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے کہا یہی قول کلبی (رح) اور ایک جماعت کا ہے (آیت)” انی یکون “ ۔۔۔۔۔۔ ” این یکون “ کے معنی میں ہے ” لی غلام “ کہ میرا غلام کہاں سے آئے گا ۔ (حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری کے وقت حضرت زکریا (علیہ السلام) کی عمر) (آیت)” وقد بلغنی الکبیر “۔ یہ مقلوب کی قسم ہے مطلب یہ ہے کہ میں بوڑھاپے میں پہنچ چکا ہوں جیسا کہ کہا جاتا ہے ” بلغنی الجھد ای انا من الجھد “ کہ مجھے مشقت پہنچی ہے ، بعض نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ مجھے کبر پہنچ چکا اور بوڑھاپے نے مجھے کمزور کردیا ، کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو جب بچے کی خوشخبری دی گئی تو اس وقت ان کی عمر بانوے سال تھی اور بعض نے کہا کہ ننانوے سال تھی ۔ ضحاک (رح) نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کے حوالے سے لکھا کہ اس وقت ان کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور آپ کی بیوی کی عمر اٹھانوے سال تھی (آیت)” وامراتی عاقر “ بیمار ہے (بانجھ) بچے نہیں جن سکتی ، ” عاقر “ مذکر ومؤنث دونوں میں مشترک بولا جاتا ہے ، کاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ، (آیت)” قال کذلک اللہ یفعل مایشائ “۔ اگر سوال کیا جائے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے یہ سوال کیونکر کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو وعدہ فرمایا تھا ، (آیت)” انی یکون لی غلام “ کیا آپ اللہ کے وعدہ پر شک کرتے ہیں اور اس کی قدرت میں۔ بعض نے کہا کہ جب فرشتے نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو آواز دی تو فورا شیطان نمودار ہوا اور کہنے لگا اے زکریا یہ آواز جو آپ سن رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ شیطان کی طرف سے ہے ۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی تو دوسرے احوال کی طرح یہاں بھی وحی ہی آتی ، اس وسوسہ کو دور کرنے کے لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے (آیت)” انی یکون لی غلام “ کے الفاظ کہے، عکرمہ (رح) اور سدی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو اللہ کے وعدہ پر شک نہیں تھا بلکہ پیدائش کی کیفیت کے متعلق تھا کہ پیدائش کا طریقہ کیا ہوگا کہ کیا ہم دونوں میاں بیوی کو جوان کیا جائے گا یا ہمیں بوڑھاپے میں ہی دیا جائے گا یا مجھے کسی اور بیوی سے لڑکا ہوگا ، اپنے سمجھنے کے لیے یہ سوال کیا نہ کہ شک کرنے کی وجہ سے یہ حسن کا قول ہے ۔
Top