Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 40
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کہاں يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے لیے غُلٰمٌ : لڑکا وَّقَدْ بَلَغَنِىَ : جبکہ مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا وَامْرَاَتِيْ : اور میری عورت عَاقِرٌ : بانجھ قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
زکریا نے کہا اے پروردگار میرے ہاں لڑکا کیونکر پیدا ہوگا کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے خدا نے فرمایا اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ : حضرت زکریا نے جبرائیل ( علیہ السلام) کی طرف توجہ دیئے بغیر مناجات میں کہا اے میرے رب میرے ہاں لڑکاکہاں ہوسکتا ہے ؟ حضرت زکریا سے اس قول کا صدور بلا اختصار بتقاضائے بشریت ہوا تھا آپ کو عادت قدرت کی اس شکست پر تعجب بھی ہوا اور حیرت بھی اور اس بات کو آپ نے بہت بڑا بھی سمجھا مگر یہ سب کچھ طبیعت بشری کے زیر اثر ہوا کبھی طبیعت بشری عقل اور علم پر غالب آجاتی ہے علم اور عقل کا فیصلہ ہے کہ قدرت خدا سے نہ کوئی چیز بعید ہے نہ تعجب انگیز مگر طبیعت بشری معمول قدرت کی شکست کو بعید بھی جانتی ہے اور عجیب بھی۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ نے وعدہ کرلینے کے بعد بھی (بتقاضائے بشریت) حضرت خضر پر اعتراض کیا تھا حالانکہ پہلے کہہ چکے تھیستَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللہ صَابِرًا وَّ لَا اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا . عکرمہ اور سدی نے بیان کیا کہ جب ملائکہ نے زکریا کو ندا کی تو شیطان فوراً آگیا اور کہنے لگا یہ آواز اللہ کی طرف سے نہیں ہے شیطان کی طرف سے ہے اگر اللہ کی طرف سے ہوتی تو وہ خود ہی تمہارے پاس وحی بھیج دیتا۔ پس اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لیے حضرت زکریا نے مذکورہ الفاظ کہے۔ حسن بصری نے کہا طریق پیدائش کو دریافت کرنے کے لیے حضرت زکریا نے مذکورہ الفاظ کہے تھے کہ میرا لڑکا کس طرح ہوگا کیا مجھے اور میری بیوی کو جوان کردیا جائے گا اور بیوی کے بانجھ پن کو دور کردیا جائے گا یا کسی دوسری عورت سے میرا لڑکا ہوگا یا موجودہ حالت میں ہی ہم دونوں کو بچہ عنایت کیا جائے گا۔ وَّقَدْ بَلَغَنِىَ الْكِبَرُ : اور مجھے بڑھاپا پہنچ گیا ہے یہ ترکیب استعمال معکوس ہے مراد یہ ہے کہ میں بڑھاپے کو پہنچ گیا ہوں اور بوڑھا ہو ہوگیا ہوں۔ یا یہ مطلب ہے کہ مجھ پر بڑھاپے کا اثر پہنچ گیا اور بڑھاپے نے مجھے کمز ور کردیا اس وقت حضرت زکریا کی عمر بقول کلبی 92 سال اور بقول ضحاک 120 سال تھی اور بیوی کی عمر 98 سال۔ وَامْرَاَتِيْ عَاقِرٌ : اور میری بیوی بانجھ ہے ناقابل تولید۔ عاقر کے لفظ میں مذکر مؤنث برابر ہیں دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ : اللہ نے یا فرشتہ نے کہا بات تو یونہی ہے اللہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے یعنی تمہارے بوڑھا ہونے اور تمہاری بیووی کے بانجھ ہونے کے باوجود بچہ ہوگا۔
Top